شاہد زبیری
جب جب ملک میں انتخابات کا موسم آتا ہے بھگوا برگیڈ خاص طور پر بی جے پی حلقوں اور بی جے پی سرکاروں میں یکساں سول کوڈ کا راگ الاپنے کی ہوڑ لگ جاتی ہے ۔ کہا جاسکتا ہے کہ یکساں سول کوڈ جن سنگھ کے زمانہ سے بی جے پی کے کور ایشوز اور ایجنڈہ میں شامل ہے اس لئے جب جب ملک میں انتخابی سرگرمیاں شروع ہو تی ہیں وہ اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ووٹروں کو لبھانے کیلئے اپنے اس عزم کا اظہار کرتی ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے جس سے انکار ممکن نہیں کہ بھگوا برگیڈ بشمول بی جے پی یہ شوشہ مسلمانوں کو چڑانے کیلئے چھوڑتی ہے اور پولرائزیشن اس کا مقصد ہو تا ہے ۔ کانگریس کے سینئرلیڈر جے رام رمیش نے بھارت جوڑو یاترا کے دوران آگر -مالوا ضلع کے تنوڈیہ میں میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ انتخابات کے دوران ہی یکساں سول کوڈ جیسے مسائل اٹھا ئے جا تے ہیں جس کا مقصد پولرائیزیشن ہوتا ہے ۔
یکساں سول کوڈ کے اس تازہ راگ کا پہلا سُر بی جے پی کی اترا کھنڈ کے وزیر اعلیٰ نے چھیڑا تھا اور اس کا خاکہ تیار کرنے کیلئے ماہرین کی کمیٹی بھی تشکیل دئے جانے کا اعلان کیا تھا۔اس کے بعد سے اس راگ کے الاپنے کی بی جے پی سرکاروں میں ہوڑلگی ہوئی ہے یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ،آسا م کے وزیرِ اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کے بعد کرناٹک کے وزیرِ اعلیٰ بسواراج بومئی اور اب یکم دسمبر کو مدھیہ پردیش کے وزیرِ اعلیٰ شیو راج چوہان نے بھی ان سب وزرائے اعلیٰ کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے یکساں سول کوڈ کا راگ الاپا ہے اور کہا کہ اس کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ گجرات کے انتخاب میں بھی اس راگ کو بڑے اونچے سُروں میں الاپا جا رہا ہے آسام کے وزیرِ اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما جو کانگریسی اسکول کے طالب علم رہے اور بعد میں سنگھ اور بی جے پی کی پاٹھ شالہ میں داخل ہوگئے ان کے سُر تو کافی اونچے سنا ئی دئے وہ مسلمانوں کے کثیر ازدواجی مسئلہ کو جو کہ حقیقت سے کوسوں دور ہے اس کووہ گجرات کے انتخابات کی مہم میں خوب اچھالتے رہے ہیں اور تو اور خود مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ بھی گجرات کے انتخابات میں گجرات اور گجرات کے باہر بھی یکساں سول کوڈ کی تال ٹھوک چکے ہیں ۔طرفہ تماشہ یہ ہے کہ 2018میں مود ی جی کی سرکار کے لاء کمیشن کے چیئرمین اور سابق چیف جسٹس بی ایس چوہان نے ابھی تک کی لاء کمیشن کی آخری رپورٹ میں یہ بات بہت واضح طور پر کہی ہے کہ ہندوستا ن جیسے کثیر مذاہب ،کثیر ادیان اور کثیر ثقافتی اور متنوع اور رنگا نگ تہذیبی ملک میں یکساں سول کوڈ ناممکن العمل ہے ۔ مودی سرکار کے لاء کمیشن کی اس دوٹوک اور واضح رپورٹ کے بعد بھی آخر بھگوا برگیڈ اور بی جے پی سرکاریںیکساں سول کوڈ کا راگ کیوں الاپتی رہتی ہیں اب تو سُر کچھ زیادہ ہی بلند ہو نے لگے ہیں ۔ مانا کہ ہندوستانی دستور کے آرٹیکل 44میں دستورساز اسمبلی نے شامل کیا تھا لیکن کیا یہ آرٹیکل 44صرف یکساں سول کوڈ کیلئے رہنما اصولوں میں شامل ہے یا اسکا دائرہ اس سے بھی وسیع ہے جو شراب بندی تک پھیلا ہوا ہے بی جے پی نے شراب بندی کی ملک میں آخر کتنی کوششیں کیں اور بی جے پی کی کون سی ایسی سرکار ہے جس نے شراب پر پابندی عائد کی ہو ،کیا بی جے پی کی ذی ہوش قیادت کو اس کا علم نہیں اور کیا یہ بار بار دہرانے کی ضرورت ہے کہ آئین ہند نے اقلیتوں خاص کر مسلم اقلیت ،عیسائی اقلیت اور سکھ اقلیت کے عائلی قوانین پر عمل کی اجازت دے رکھی ہے جو ان کی مذہبی آزادی کا حصّہ ہے کیایکساں کوڈ کا مسئلہ شمال مشرقی ریاستوں آسام، میگھالیہ ،تریپورہ اور ناگا لینڈ کیساتھ ان کے عائلی رواجی قوانین سے متصام نہیںہو تا ، شمال مشرقی ریاستوں کے ہائی کورٹ کاجج بننے کیلئے لازم ہے کہ ان ریاستوں کے رواجی قوانین کا امتحان پاس کیا جا ئے اس کے بعد ہی وہاں کی ہائی کورٹ کا جج بنتا ہے۔یوپی اترا کھنڈ کے پہاڑی علاقوں کے ہندئووں اور کیرالہ کے نائر ہندو فرقہ میں رائج ایک خاتون سے ایک سے زائد مرد وںکی شادی ،’بہو پتی شادی ‘کا رواجی قانون اور ماموں کا سگی بھانجی و دگرسگے رشتہ داروں سے آپس میں شادی کا رواجی قانون کیا ختم کیا جا سکتا ہے ۔سکھ فرقہ میں جین فرقہ کے علی الر غم ہندو کوڈ میرج ایکٹ کے تحت شادی نہیں ہوتی اس کیلئے سکھوں میں آنند میرج ایکٹ ہے اور شادی آنندی شادی کہلا تی ہے۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے اگر وہ نافذ کیا جاتا ہے تو یہ تمام رواجی قوانین ختم ہو جا ئیں گے عیسائی فرقہ کو بھی اپنے عائلی قوانین سے ہاتھ دھو نا پڑیں گے۔ علاوہ ازیں ہندوئووں کے مشترکہ خاندانوں ،جوائنٹ فیملیوں کو جو انکم ٹیکس میں چھوٹ دی جا تی ہے یکساں سول کوڈ اس چھوٹ کو بھی ختم کرتا ہے۔ اتنا ہی نہیں ہندو مذہب میں ہندو خواتین کو وہ حقوق عطا نہیں کئے گئے جو ہندو کوڈ بل میں دئے گئے ہیں ،یکساں سول کوڈ کی زد ہندو کوڈ بل میں دئے گئے ہندو خواتین کے حقوق پر بھی پڑتی ہے۔ہم اگر ماضی کی دنیا کے تجربوں پر روشنی ڈالیں توجرمنی کے بسمارک وائس چانسلر کے عہد کے علاوہ یکساں سول کوڈ کا تجربہ سابق یو ایس ایس آر ،یو گو سلاویہ اور سب سے آخیر میں ہندوستانی تہذیب سے مماثلت رکھنے والے پڑوسی ملک مارشش میں ناکام ہو چکا ہے ۔مارشش میں 1976میں یکساں سول کوڈ نافذ کیا گیا اور 1978میں محض دوسال کے ناکام تجربہ کے بعد اس کو ختم کردیا گیا۔
ان حقائق کے ہو تے ہوئے بھی آخر بھگوا برگیڈ یا بی جے پی اس راگ کو کیوں الاپتی رہتی ہے۔ یہ سمجھ میں آنا چاہئے، اس کا مقصد محض مسلمانوںکو چڑانا اور ان کو اشتعال دلانا اور پولرائیزیشن ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ملک کی دوسری اقلیتیں اور ہندئووں کے دیگر فرقے یکساں سول کوڈ کے خلاف کبھی کچھ نہیں بو لتے سوائے مسلم تنظیموں اور مسلم قیادت کے۔ سوال مسلم تنظیموں خاص کر مسلم پر سنل لاء بورڈ کی بیدار مغز قیادت سے بھی ہے کیا ا س کو نہیں معلوم کہ یکساں سول کوڈ کا راگ صرف مسلمانوں کو چڑانے اور مشتعل کرنے کیلئے الا پا جا تا ہے اور اس کا نفاذ اتنا آسان نہیں جتنا آسان بنا کر بی جے پی پیش کرتی آرہی ہے اگر واقعی یہ ملک کے اتحاد اور سالمیت کیلئے اتنا ہی ضروری اور اتنا آسان ہوتا تو دستور ساز اسمبلی اس کورہنما اصولوں کے سہارے نہ چھوڑتی اب جبکہ خود مودی سرکا ر کا لاء کمیشن بھی یکساں سول کوڈ کے نا ممکن العمل ہو نے پر اپنی قانونی مہر لگا چکا ہے تومسلم اقلیت قیادت سے بصد احترام یہ عرض ہے کہ مسلم قیادت کو بھی یکساں سول کوڈ کو مسلمانوں کی چڑ نہیں سمجھنی چا ہئے اور بی جے پی کے انتخابات کے پیشِ نظر پولرائیزیشن کے اس کھیل کوسمجھنا چاہئے ۔اسد الدّین اویسی جو کہ مسلم پر سنل لاء بورڈ کے بھی ممبر ہیں اور بیرسٹر ہیں شاید انہوں نے بھی میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے بی جے پی کے اس کھیل کو سمجھ کر یہ بات کہی کہ یکساں سول کوڈ کا راگ ملک کی خوبصورتی کو پولرائز کرنے کیلئے ہے ۔ بہر کیف اب یہ ملک کے تمام باشندگان بالخصوص ان دگر مذہبی اقلیتوں اور ملک کے دگر فرقوں کو طے کرناہے کہ ان کو اپنے عائلی اور رواجی قوانین اورملک کی متنوع خوبصورتی عزیز ہے کہ یکساں سول کوڈ، ان کو بھی اس کی حمایت یا مخالفت کرنی چا ہئے ، صرف مسلمانوں کو تنہا اس ایشو پر سامنے نہیں آنا چا ہئے اور بی جے پی کو پولرائیزیشن کا موقع فراہم نہیں کرنے دینا چا ہئے۔ چونکہ شاہ بانو کیس سے لے کر تین طلاق قانون تک سوائے ناکا می کے مسلمانوں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا بی جے پی کو ہی پولرائیزیشن کے مواقع فراہم ہو ئے ہیں۔ راقم السّطور کی اس رائے کو ہر گز یہ نہ سمجھا جا ئے کہ یہ مسلمانوں کے عائلی قوانین کیخلاف ہے ۔
[email protected]