شاہد زبیری : پھر ایک متنازع فیصلہ: ائمہ مساجد کی تنخواہوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کیخلاف مرکزی انفارمیشن کمشنر کا فیصلہ

0
Shahid Zuberi: Again a controversial decision: Central Information Commissioner's decision against the Supreme Court's decision regarding the salaries of mosque imams.

شاہدزبیری

27نومبر 2022 کے ایک ہندی روزنامہ کے سنڈے ایڈیشن کی شہ سرخی کے مطابق سینٹرل انفارمیشین کمشنر CIC) ) نے ائمہ مساجد کی تخواہوں سے متعلق 1993 کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے ۔ سینٹرل انفارمیشن کمشنر اودے ماہور کر نے یہ فرمان آر ٹی آئی ورکر سبھاش اگروال کیجا نب سے داخل عرضی پرسماعت کے بعد سنایا ہے۔خبر کے مطابق فیصلہ میں کہا گیا ہیکہ ٹیکس دہندگان کے پیسہ کا استعمال کسی ایک دھرم کو فروغ دینے کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔کمشنر نے فیصلہ کی کاپی سینٹرل لاء منسٹر کو بھیجے جا نیکی ہدا یت بھی کی ہے تاکہ قانون کی دفعہ 25تا 28کاصحیح معنوں میں استعمال کیا جا سکے ۔انہوں نے مرکزی اور صوبائی سرکاروں کو سرکاری فنڈ کے استعمال کی بابت سبھی مذا ہب اور فرقوں کے پروہتوں سے ایک جیسا برتائو کئے جا نیکی بھی ہدایت کی ہے اور مذہبی مساوات کے دگر معاملوں میں بھی اس فیصلہ کے نفاذ کی تاکید کی ہے ۔
واضح رہیکہ سپریم کورٹ نے آل انڈیا ائمّہ مساجد آرگنائیزیشن کطرف سے داخل رٹ پر 13مئی 1993میں یہ حکم صادر کیاتھااس میں وقف بورڈ ( دہلی وقف بورڈ ) کو ان مساجد کے ائمّہ تنخواہیں دینے کی ہدایت کی تھی جو وقف بوڑ کے انتظام و انصرام میں ہیں ۔ خبر کے مطابق کمشنر موصوف نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ 13مئی 1993کے سپریم کورٹ کے فیصلہ نے مساجد کے اماموں اور مئوذنوں کو سرکاری خزانہ سے مالی فائدہ پہنچانے کی راہ کھولدی ہے ، کمشنر کا ماننا ہیکہ یہ قانون کی دفعہ 27کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ وقف بورڈ کو دہلی سرکار سے 62 کروڑ کی سالانہ مالی گرانٹ ملتی ہے جبکہ وقف بورڈ کی اپنی ماہانہ آمدنی 30لاکھ روپے ہے ،یہ کہ دہلی کی وقف مساجد کے اماموں کو 18 اور مئوذنوں کو 16ہزار ماہانہ دہلی سرکار کیطرف سے انکم ٹیکس دہندگان کے ٹیکس سے ادا کیا جارہا ہے اس کے برعکس ہندومندروں کے پجاریوں کو ٹرسٹ کیطرف سے ماہانہ صرف دو ہزار روپے دئے جارہے ہیں ۔کمشنر کی نظر میں یہ مسلم فرقہ کو فائدہ پہنچانے والا قدم ہے جو حقیقت میں مذاہب کے مابین ہم آہنگی کو متائثر کرتا ہے ۔
خبر کے مطابق کمشنر موصوف نے اسی پر اکتفا نہیں کیا وہ اس سے بھی آگے بڑھ گئے انہوں نے اس فیصلہ کے ڈانڈے 1947سے پہلے مسلم فرقہ کو خصوصی فائدہ پہنچانے والی پالیسی او ر اس کے نتیجہ میں ملک کی تقسیم سے جوڑدئے اور کہا کہ جب مسلم فرقہ کو خصوصی فرقہ کو فائدہ پہنچا نے کی بات آتی ہے تو تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہے ، ان کی نظر میں یہ نہ صرف ہندوئوں بلکہ دگر غیر مسلم اقلیتوں و مذاہب کے ماننے والوںکیساتھ’ وشواس گھات’ ہے،کمشنر اس معاملہ میں تاریخ کا حوالہ دیتے ہو ئے ایک دو ہاتھ نہیں کئی ہاتھ پھلانگ گئے انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بھارتیہ مسلمانوں کے ایک طبقہ میں ‘پان اسلام ازم ‘ کے رجحان کو فروغ دینے والا بتا یا ہے جو ان کے مطابق پہلے سے ہی نظر آتا ہے ۔ دھیان رہیکہ پان اسلام ازم کی تحریک جمال الدّین افغانی نے 19ویں صدی میں شروع کی تھی جسکا مقصد مسلم مما لک کو متحد کرنا تھا ۔انفارمیشن کمشنر کا یہ منصب گرچہ قانونی ہو تا ہے لیکن اعزازی ہوتا ہے جو سرکار اپنی پسندیدہ شخصیات کو عطا کرتی ہے ۔
سوال یہ ہیکہ کیا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2005 کے تحت تشکیل دئے گئے مرکزی اور صوبائی انفامیشن کمیشن کے کسی کمشنر کے دائرہ اختیارات میں یہ آتا ہیکہ وہ کسی عدالت کے خواہ وہ سول کورٹ ہو یا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے کسی فیصلہ کیخلاف اپنا فیصلہ دے سکتا ہے ، کیا عدالت کے ذریعہ دئے گئے کسی فیصلہ پر تبصرہ کر نے کا حق کمشنر کو حاصل ہے ۔رائٹ ٹو ایجوکیشن 2005میں جو اختیارات مرکزی یا صو بائی انفارمیشن کمیشن کے کمشنر کو سیکشن 18میں دئے گئے ہیں اس بابت (ALILAW AGENCY Allahabad-Lucknow 2006) کے شائع کردہ زیرِ نظر انگریزی ہندی کتابچہ میں اول تا آخر اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا ۔انسٹی ٹیوٹ آف مسلم لاء کے ڈاریکٹر و وقف کے قانون پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر ایڈو کیٹ انور علی سے رجوع کیا تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی ان کے مطابق مرکزی یا صوبائی کمیشن کے اختیارات سول کورٹ کے اختیارات کے مساوی ہیں جسکی تفصیل رائٹ ٹو ایجو کیشن 2005میں دئے گئے سیکشن 18 ‘ پاورس اینڈ فنکشنس دی انفارمیشن کمیشنس ‘میں دیکھی جا سکتی ہے چنانچہ اس لحاظ سے اگر دیکھا جا ئے تو سول کورٹ کو بھی یہ اختیار ہر گز نہیں کہ وہ ہائی کورٹ یا پھر عدالتِ عظمیٰ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو چیلینج کرے یا اس کے خلاف کوئی فیصلہ سنا ئے ۔
یو پی انفامیشن کمیشن کے سابق صوبائی کمشنر ڈاکٹرحافظ محمد عثمان قاسمی کے مطابق انفارمیشن کمیش کے کمشنر کو یہ اختیا ر تو حاصل ہیکہ کہ سول کورٹ ہو یا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ اگر ان میں سے کوئی بھی رائٹ ٹو انفامیشن ایکٹ 2005کے تحت کسی عرضی گذار کو معلومات فراہم نہ کرا ئے تو کمشنر اس کو نوٹس جا ری کر سکتا ہے، وہ بھی مانتے ہیں کہ انفارمیشن کمیشن کو یہ اختیار ہر گز نہیں کہ وہ عدالتوں کے فیصلوں کو چیلنج کر ے یہ اختیار صرف ماہرین قانون کو ہیکہ وہ عدالتوں کے فیصلہ کیخلاف بالائی عدالتوں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں جا ئے سپریم کورٹ سے صرف اس کے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست کیجا سکتی ہے ۔وہ مانتے ہیں مرکزی انفارمیشن کمشنر نے اس فیصلہ میںاپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا ہے جسکا ازروئے ایکٹ 2005 ان کو حق نہیں پہنچتا ۔
مرکزی انفارمیشن کے کمشنر اودے کمار ماہور کر کے فیصلہ کی ائمّہ مساجد کی تنخواہوں کے فیصلہ کی بابت جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس سے یہ تو صاف ظاہر ہیکہ کمشنر نے اپنے اختیارات سے نہ صرف باہر قدم رکھا ہے بلکہ اگر یوں کہا جا ئے اختیارات کے دائرہ سے باہر لمبی چھلانگ لگا ئی ہے ۔ان کے اس فیصلہ سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو جسطرح زک پہنچتی ہے ۔قانون کی نظر میں یہ سپریم کورٹ کی توہین ہیکہ نہیں یہ تو ماہرین قانون ہی بتا سکتے ہیں ہم کچھ نہیں کہ سکتے ۔یہ تو صاف ظاہر ہیکہ کمشنر موصوف نے نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلہ پر انگلی اٹھائی انہوں نے ملک کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کا ٹھیکرہ بھی مسلمانوں کے سر پھوڑا ہے اور تاریخ پر نظر ڈالتے ہوئے اس فیصلہ کے ڈانڈے پان اسلام ازم سے ملا دئے اور گڑے مردے اکھاڑ ے ہیں جس سے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی خیر سگالی اور قومی یکجہتی پر آنچ آتی ہے اس فیصلہ سے نہ صرف ہندو اور مسلمانوں کے مابین خلیج گہری ہونیکا خدشہ بڑھتا ہے بلکہ مذہبی اقلیتوں کے درمیان بھی تفریق پیدا ہوتی ہے ۔ہماری نظر میں اس فیصلہ سے فرقہ وارانہ بو آتی ہے اور یہ فیصلہ بھی بھگوا برگیڈ کے’ مشن منافرت ‘کو تقویت پہنچا تا ہے ۔دیکھنا یہ ہیکہ دہلی سرکار،دہلی وقف بورڈاور آل انڈیا ائمّہ مساجد کونسل اس فیصلہ کیخلاف کیا رخ اختیار کرتے ہیں اورکونسل کے مرکزی قائد مولانا عمیر الیاسی بی جے پی اور آر ایس ایس میں اثر رسوخ رکھتے ہیں،موہن بھاگوت کے بھی نزیک مانے جا تے ہیں اور بی جے پی سرکاروں میں ان کی کافی رسائی ہے وہ مرکزی انفار میشن کمیشن کے کمشنر کے اس فیصلہ پر کیا قدم اٹھا تے ہیں۔ ہم اس بحث کو یہاں غیر ضروری سمجھتے ہیں کہ ائمّہ مساجد کو وقف بورڈ سے تنخواہ ملنی چا ہئے کہ نہیں از رو ئے شرع یہ جا ئز ہیکہ نہیں ۔لیکن یہ طے ہے کہ دہلی کی مساجد کے اماموں اور موئوذنوں کی دہلی وقف بورڈ سے ملنے والی تنخواہوں پر یہ فیصلہ اثر ڈالیگا جس کو مبیّنہ طور پر دہلی سرکار اور دہلی وقف بورڈ تنخواہ کی بجا ئے اعزا زیہ مانتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS