مولانا ابوبکرحنفی شیخوپوری
رنگ و نسل کے امتیازکو بالائے طاق رکھ کر اور دین و مذہب کی تفریق سے بالاتر ہوکر دکھی انسانیت کی خدمت اور مجبورو لاچار لوگوں کی مددکرنامسلم معاشرے کی خوبصورت روایت اور اسلامی تعلیمات کا اہم ترین شعبہ ہے،یہی وہ وصفِ خاص ہے جومذہبِ اسلام کو ادیانِ عالم سے ممتاز کرتا ہے ،قرآن و سنت میںاس کی بہت تاکید آئی ہے اور اس عمل پر بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔قرآنِ کریم میں باری تعالی نے اس امت کو ’’خیرِامت‘‘کا خطاب دیا اور اس منفرد اعزاز کی وجہ یہ ارشاد فرمائی کہ ’’تم لوگوں کی نفع رسانی کے لئے نکالے گئے ہو‘‘۔(ال عمران:۱۱۰) ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے :لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جولوگوں کو نفع پہنچائے۔ حضرت ابن ِ عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑتا ہے،جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں مشغول ہوتا ہے اللہ تعالی اس کی حاجت پوری کرنے میں لگ جاتے ہیںاور جس شخص نے کسی مسلمان سے کوئی پریشانی دور کی تواللہ تعالی اس سے قیامت کے دن کے غم کو دور کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کے عیب کو چھپایا اللہ تعالی قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ ڈالے گا۔
جو شخص بیواؤں ،یتیموں،مسکینوں ،مسافروں اور کسی بھی طرح کے مستحقین کی خدمت میں پیش پیش رہتا ہے اور ان کے کام آکر اسے دلی خوشی اور قلبی اطمینان محسوس ہوتا ہے، ایسے شخص کو خدا تعالی کا قربِ خاص حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالی اسے اپنا محبوب بنا لیتے ہیں ،حضرتِ انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مخلوق اللہ تعالی کا کنبہ ہے لہذا اللہ کے نزدیک ساری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے۔ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی اپنے جس بندے سے محبت فرماتے ہیں ،اس کے بارے میں حضرت جبرئیل ؑ کو ہدایت فرماتے ہیںکہ زمین میں اعلان کروکہ میں اس بندے سے محبت کرتا ہوں ،تم بھی اس سے محبت کرو تو لوگوں کے دلوں میں بھی اس کی محبت گھر کر جاتی ہے، یہی وجہ کہ آدمیت کی بے لوث خدمت کرنے والا لوگوں کی آنکھوں کا تارا ہوتاہے،کامیابیاں اس کے قدم چومتی ہیں اور اسے معاشرے میں،باوقار ،بلند ہمت اورقدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔
کسی شخص کی حاجت و ضرورت پوری کرنے کے دو طریقے ہیں، ایک یہ کہ پہلے اپنی ضرورت کو پورا کیا جائے،پھر اگر کچھ بچ جائے تو دوسرے کی مدد کر دی جائے ،یہ خدمت کا ادنی درجہ ہے اور اس کا اعلی درجہ یہ ہے کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کرکے اپنے حاجت مند بھائی کا احساس کیا جائے ،اس کو ’’ایثار‘‘ کہا جاتا ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایثار اور قربانی کا پہلو بہت نمایاں تھا، جب آپؐ پر فاقوں کا دوردورہ تھا اورکئی کئی دن کھانے کو نہیں ملتا تھا ،ان مشکل حالات میں بھی آپؐ دوسروں کی ضروریات کو پورا کیا کرتے تھے،حضرتِ بلالؓ آپؐ کے خزانچی تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والے سائلین کو آپؐ کی اجازت سے عنایت فرماتے تھے،جب دینے کو کچھ نہ ہوتا تو کسی سے قرض لیکر دے دیتے تھے،پھر کہیں سے کچھ مال آتا تو اس سے قرض ادا فرما دیتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تئیس سالہ جدوجہد کے نتیجہ میں جو جماعت تیار کی ،اس نے ایسا خوبصورت ماحول تشکیل دیا تھا جس میں دوسروں کی ضرورت کو مقدم سمجھا جاتا تھا ،ان نفوسِ قدسیہ کے اس قابلِ قدر جذبے کی حق تعالی نے اپنی ازلی و ابدی اور لاریب و بے عیب کتاب میں یوں تعریف فرمائی ۔ ’’وہ (دوسروں کو) اپنی جان پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہی کیوں نہ ہو‘‘ (الحشر:۹)۔احادیث میں صحابہ کرامؓکے ایثار کے بہت سے واقعات موجود ہیں۔ ایک انصاری صحابیؓ کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے پاس کسی نے بکرے کا سرا بھیجا، انہیں اس کی ضرورت بھی تھی لیکن انہوں نے ایک دوسرے شخص کو مستحق خیال کرتے ہوئے ان کی طرف بھیج دی، ان دوسرے صاحب نے تیسرے شخص کو ضرورت مند خیال کرتے ہوئے ان کے ہاں بھیج دی،یوں چلتے چلتے یہ سرا ساتویںگھر پہنچ گئی،اس ساتویں شخص نے ایک اور شخص کی ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان کے گھر بھیج دی،اتفاق ایسا ہوا کہ یہ وہی شخص تھا جس نے سب سے پہلے سرا بھیجا تھا۔ ایک صحابیؓ کہتے ہیں کہ میں ایک جنگ میں اپنے چچا زاد بھائی کا حال معلوم کرنے کے لئے نکلا اور ساتھ پانی بھی لے گیا،میں نے دیکھا کہ میرا چچازاد بھائی شدید زخمی حالت میں پڑا تھا،میں نے جھٹ سے اسے پانی پیش کیا تو اچانک ساتھ پڑے ایک اور زخمی نے پانی مانگ لیا ،میرے چچا زاد بھائی نے اشارے سے کہا کہ اس کو دے دو،اس کے پاس پانی لے کر پہنچا تو ایک تیسرا شخص زخموں سے کراہ رہا تھا،اس دوسرے شخص نے اس کو پانی دینے کا اشارہ کیا،میں اس کے پانی لے کر پہنچا تو وہ دم توڑ چکا تھا،دوسرے شخص کے پاس آیا تو وہ بھی اللہ کا پیارا ہو چکا تھا، آخر میں اپنے چچا زاد بھائی کے قریب پہنچا تو ان کی روح بھی پرواز کر چکی تھی۔
رہتی دنیا تک کوئی ایثار اور قربانی کی ایسی مثالیں پیش نہیں کر سکتا ۔اگر آج ہمیںاپنی معاشرتی زندگی کو خوشگوار بنانا ہے اور اپنے مستقبل کو درخشاں کرنا ہے تو ہمیں اپنے تابناک ماضی کی تابندہ روایات کو پھر سے زندہ کرنا ہو گا اور اپنے اکابرو اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خدمت ِخلق کا مبارک جذبہ لے کر میدانِ عمل میں اترنا ہو گا۔