خواتین کو سنگین خطرات

0

بیٹیوں کی بقا اور حفاظت کے مستحسن مقصد کے تحت مرکزکی مودی حکومت نے جنوری2015میں بیٹی پڑھاؤ-بیٹی بچائو کی اسکیم شروع کی تھی، ملک کے 405اضلاع میںاس اسکیم کا بیک وقت نفاذ ہوا۔ گھریلو تشدد اور اسمگلنگ سمیت تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کی مدد کیلئے ون اسٹاپ سینٹرز(OSCs) قائم کیے گئے۔ بھاری پیمانے پر اس کی تشہیر کی گئی۔مودی حکومت نے اس اسکیم کو اپنی کارکردگی کے طور پر پیش کیا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ 7برسوں سے نافذ العمل اس اسکیم کے باوجود ملک بھر سے خواتین اور بچیوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات کم ہونے کے بجائے تیزی سے بڑھے ہیں۔
خود مودی حکومت نے یہ اقرار کیا ہے کہ 2019 سے 2021 کے دوران فقط تین برسوں میں ملک بھر سے 13.13 لاکھ خواتین اور بچیاں لاپتہ ہوگئی ہیں۔ان لاپتہ ہونے والی بچیوں اور خواتین میں سے زیادہ ترکا تعلق ڈبل انجن حکومت والی ریاست مدھیہ پردیش سے ہے جب کہ مغربی بنگال لاپتہ خواتین کی تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ کے ذریعہ پارلیمنٹ میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2019 اور 2021 کے درمیان 18 سال سے زیادہ عمر کی 10,61,648 خواتین ملک سے لاپتہ ہوئیں، جب کہ اسی عرصے کے دوران 18 سال سے زیادہ عمر کی 2,51,430 لڑکیاں لاپتہ ہوئیں۔یہ اعدادوشمار نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو نے مرتب کیے ہیں جسے وزارت داخلہ نے گزشتہ دنوں ایوان کے سامنے پیش کیا۔اس کے مطابق 2019 سے 2021 کے درمیان مدھیہ پردیش سے 1,60,180 خواتین اور 38,234 لڑکیاں لاپتہ ہوئیں۔ اسی عرصے میں مغربی بنگال سے 1,56,905 خواتین اور 36,606 لڑکیاں لاپتہ ہوئیں۔مہاراشٹر سے 1,78,400 خواتین اور 13,033 لڑکیاں لاپتہ ہو چکی ہیں۔مرکزی حکومت کی ناک کے نیچے دہلی سے 61,054 خواتین اور 22,919 لڑکیاں لاپتہ ہوچکی ہیں۔
نوبل انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی کے ادارہ چلڈرن فاؤنڈیشن اور این جی او گیمز 24×7نے بھی انسانی اسمگلنگ سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق 2016سے2022کے دوران بچوں کی اسمگلنگ میں بھاری اضافہ ہوا ہے۔ کیلاش ستیارتھی کی یہ رپورٹ ملک کی21ریاستوں کے 262اضلاع میں کیے گئے ایک سروے کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ عرصے کے دوران زیادہ تر بچوں کی اسمگلنگ کی گئی لیکن وبائی امراض کووڈ 19-کے بعد ایسے واقعات میں 68 فیصد اضافہ ہوا۔ مذکورہ مدت یعنی 2016-22کے دوران اسمگل کیے گئے بچوں میں سے 13فیصد 9 سے 12 سال کی عمر کے ہیں اور 2 فیصد کی عمر 9 سال سے کم ہے۔
ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی پوری دنیا میں ہندوستان کی ترقی، خوشحالی، استحکام اور بھاری بھرکم معیشت کا دعویٰ کررہے ہیں تو دوسری جانب یہ دونوں رپورٹ ہیں جو بتارہی ہیں کہ ترقی کے تمام دعوے جھوٹے، کھوکھلے اور دنیا کو گمراہ کرنے والے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی بگاڑ نے ملک کا سماجی ڈھانچہ انہدام تک پہنچادیا ہے۔حکومت کی تمام اسکیمیں اس کے سیاسی مفادات کے ارد گرد طواف کررہی ہیں۔ان اسکیموں کیلئے مختص ہونے والے فنڈ کا گراں قدر حصہ ترقیاتی کاموں کے بجائے اشتہاری مہم کی نذر ہورہا ہے۔ انسانی ترقی سے متعلق پروگراموں پر عمل درآمد انتہائی ناقص ہے۔ اعدادوشمار بتارہے ہیں کہ7برسوں سے چلائی جارہی ’ بیٹی پڑھاؤ-بیٹی بچائو ‘ مہم مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ملک کی بیٹیاں نہ صرف غیر محفوظ ہیں بلکہ ان کی بقا کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔انسان دشمن عناصر ہماری بیٹیوں کو بیرون ملک اسمگل کررہے ہیں اور حکومت اس کے انسداد میں ناکام ہے۔ نظام مکمل طور پر غیر مؤثر ہوچکا ہے۔کچھ عرصہ قبل امریکہ نے انسانی اسمگلنگ سے متاثرہ ممالک میں اس کے انسداد کیلئے کی جانے والی کوششوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک خصوصی رپورٹ تیار کی تھی۔ اس رپورٹ میں ہندوستان کو ٹائر-2 کیٹیگری میں رکھا گیا تھا یعنی اس سمت ہونے والی کوشش سست رفتار اورغیر مؤثر ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا تھا کہ انسانی خصوصاً خواتین کی اسمگلنگ کے خلاف ہندوستان کی تمام کوششیں مطلوبہ بین الاقوامی اصولوں پر پوری نہیں اتر رہی ہیں۔
یہ درست ہے کہ انسانی اسمگلنگ یا خواتین کی اسمگلنگ کا قبیح عمل صرف ہندوستان میں نہیں ہورہاہے بلکہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی یہ کام ہوتا ہے لیکن ہندوستان میں اس غیرانسانی افعال کے خلاف نہ توسماجی سطح پر کوئی شدید مزاحمت پائی جاتی ہے اور نہ حکومت ہی اس کے خلاف سرگرم عمل نظرآتی ہے۔ صرف بلند بانگ نعروں اور دعوئوں سے بیٹیوں کی بقا اور تحفظ کا سامان نہیںکیاجاسکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ حکومت بیٹیوں کوبچانے کیلئے خصوصی منصوبۂ عمل تیار کرے ورنہ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خوفناک ہوسکتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS