یہ سیلاب نہیں- ہنڈن کی گھر واپسی ہے: پنکج چترویدی

0

پنکج چترویدی

سیلاب لفظ ہر وقت خوف پیدا کرتا ہے- تباہی، نقل مکانی، نقصان۔ لیکن اس المیہ کے درمیان ایک ندی نے یہ ضرور بتادیا کہ وہ ابھی زندہ ہے۔ اس کی موت کی عبارت انسان نے بھلے ہی پختہ لکھی ہو لیکن وہ اپنی راہ، گھر، اپنی توسیع کو بھولی نہیں ہے۔ جس ہنڈن ندی پر ابھی 7 جولائی کو ہی این جی ٹی میں یہ بحث ہوئی تھی کہ گزشتہ دو دہائیوں میں اس کی صفائی کے جو اقدامات کیے گئے، ان کا اثر زمین پر نظر نہیں آیا۔ کچھ سال پہلے اتر پردیش کا ایک ذمہ دار شخص تو یہ ثابت کرنے لگا تھا کہ ہنڈن کوئی ندی ہے ہی نہیں، وہ تو صرف بارشوں اور راستے میں لگے کارخانوں سے نکلنے والے فضلہ کی وجہ سے آبی ذخیرہ نظر آتی ہے۔ اس ہنڈن کی چرچہ اب خشک ندیوں میں ہے۔ اگر سنجیدگی سے دیکھیں تو ہنڈن نے کہیں بھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کیا۔ کہا جا رہا ہے کہ 1978 کے بعد ہنڈن کی یہ خوفناک شکل سامنے آئی ہے۔ ہوا یوں کہ گزشتہ 45 سال میں لوگ یہ بھول گئے کہ ندی ایک زندہ ڈھانچہ ہے جس کی یادداشت 200سال کی ہے۔دہلی سے متصل غازی آباد کی شان کہلانے والے ایلیویٹیڈ روڈ کے نزدیک چند سال قبل ضلع انتظامیہ نے ایک سٹی فاریسٹ ڈیولپ کیا- لوگوں کی تفریح کی جگہ، کچھ ہریالی۔ دراصل یہ ہنڈن کے زیر آب علاقے میں بنایا گیا تھا۔ آج یہاں دس فٹ سے زیادہ پانی بھرا ہے۔ ضلع میں مورٹا، سنہنی، گھوکنا، صدیق نگر، عطور ننگلی، میولا، بھانیدا، اسلات پور سمیت تقریباً 30 گاؤں ایسے ہیں جو غالباً آباد ہی اس لیے ہوئے تھے کہ وہاں سے ہنڈن گزرتی تھی۔ این جی ٹی کے کئی احکامات ہیں، لیکن ان سب کی پروا کیے بغیر ان گاوؤں میں ہنڈن کی حدود میں داخل ہو کر تقریباً 350 کالونیاں آباد کر دی گئیں۔ ہنڈن ایئرفورس اسٹیشن سے متصل گاؤں کرہیڑہ میں کبھی ہنڈن پانی کا واحد ذریعہ ہوتی تھی، جب سے نل سے پانی آیا، لوگوں نے ہنڈن کو کچرا ڈھونے کا راستہ بنا لیا اور اس کے زیر آب علاقے میں ایک کلومیٹر گہرائی تک پلاٹ کاٹ لیے۔ کناونی، ارتھلا جیسے گاوؤں کے آس پاس تو ندی کو بھر کر کنکریٹ کے جنگل اُگائے گئے۔ آج یہ تمام علاقے زیر آب ہیں اور کئی ہزار لوگ ریلیف کیمپوں میں ہیں۔
غازی آباد سے نکل کر ہنڈن نوئیڈا کے مومناتھل میں جمنا سے ملتی ہے۔ ان تمام علاقوں کو نوئیڈا اور گریٹر نوئیڈا اتھارٹی نے سیکٹر قرار دے کر گروپ ہاؤسنگ سوسائٹی میں تقسیم کر دیا۔ اس راستے میں پڑنے والے چھجارسی، کُلیسرا، ستھیانا، ہیبت پور، چوٹ پور، بہلول پور، یوسف پور چک شاہ بیری کے علاقوں میں سیلاب کا پانی پہنچنے سے تقریباً 2.50 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ یہ تمام گاؤں نوئیڈا کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو سستی رہائش گاہیں فراہم کرواتے ہیں اور یہاں ندی کے چوڑے پاٹ کو گزشتہ ایک دہائی میں نالے میں تبدیل کر دیا گیا۔
ایسا نہیں ہے کہ ہنڈن نے دہلی کے میٹروپولیٹن علاقوں، جہاں زبردست تجاوزات ہوئیں، وہیں اپنی اصل شکل دکھائی، سہارنپور، جو کہ ہنڈن کے نکلنے کے راستے کا پہلا بڑا شہر ہے اور جہاں کبھی کسی نے ہنڈن کو ندی سمجھا ہی نہیں- اس بار 10 جولائی سے ہی پانی پانی تھا۔ شیوالک کے پہاڑوں اور وسطی ہماچل میں جیسے ہی موسلادھار بارش ہوئی تھی، ضلع کے ناناگل، کوٹ گاؤں، شملانا وغیرہ میں سیلاب آگیا تھا۔ باغپت میں بالیتھی میں ایک پرانا مہادیو کا مندر ہے، جہاں ہر سال میلہ لگتا ہے، یہاں جب چار دہائیوں تک ہنڈن روٹھی تھی تو لوگوں نے ندی کی زمین پر دیوار، بیت الخلا وغیرہ بنالیے۔ اس بار ندی اپنی ریاست کا معائنہ کرنے نکلی اور ان تمام تعمیرات کو تباہ کر دیا۔ اس ضلع میں بڑاگاؤں، مبارک پور، رتول، تیلیانہ، چمراول، سرف آباد مکری سمیت 30 گاؤں میں ہنڈن کی توسیع ہوئی۔
ہنڈن کا پرانا نام ہرندی یا ہر نندی ہے۔ اس کا ماخذ سہارنپور ضلع میں ہمالیائی علاقے کی بالائی شیوالک پہاڑیوں میں پور کا ٹنکا گاؤں ہے۔ یہ بارش پر منحصر ندی ہے اور اس کی آبی توسیع کا علاقہ سات ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ یہ گنگا اور جمنا کے درمیان کے دوآب علاقے میں مظفر نگر، میرٹھ، باغپت، غازی آباد، گوتم بدھ نگر اور گریٹر نوئیڈا سے ہوتی ہوئی280 کلومیٹر کا سفر کرتی ہوئی دہلی سے کچھ فاصلے پر مومناتھل-تلواڑا میں جمنا میں مل جاتی ہے۔ راستے میں اس میں کرشنا، دھمولا، ناگ دیوی، چیچہی اور کالی ندیاں ملتی ہیں۔ یہ چھوٹی ندیاں بھی اپنے ساتھ ڈھیرساری گندگی اور کیمیکل لاتی ہیں اور ہنڈن کو اور زہریلا بناتی ہیں۔ کبھی مغربی اترپردیش کی لائف لائن کہلانے والی ہنڈن کا پانی انسان تو کیا جانوروں کے لائق بھی نہیں بچا۔ اس میں آکسیجن کی مقدار بہت کم ہے۔ مسلسل کارخانوں کا کچرا، شہری نالوں، پوجا کے سامان اور لاشوں کے باقیات ملنے سے موہن نگر کے قریب اس میں آکسیجن کی مقدار صرف دو تا تین ملی گرام فی لیٹرہی رہ گئی تھی۔ کرہیڑا اور چھجارسی میں اس ندی میں کوئی جاندار نہیں بچا تھا۔ تھا تو صرف کائی، روناس، لاروا۔ یہ خوش آئند ہے کہ سیلاب کے ساتھ ندی میں چار فٹ تک کے کچھوے نظر آرہے ہیں۔ یاد رہے کہ دس سال پہلے تک اس میں بڑی تعداد میں کچھوے، مینڈک اور مچھلیاں تھیں۔
کچھ سال پہلے آئی آئی ٹی دہلی کے سول انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے طلبا نے یہاں تین ماہ تک تحقیق کی تھی اور اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ہنڈن کا پانی اس حد تک زہریلا ہوچکا ہے کہ اب اس سے یہاں کا زیرزمین پانی بھی متاثر ہو رہا ہے۔ اس ندی کو ایک طرح سے مردہ مان لیا گیا تھا، لیکن انسان کے لیے سیلاب اور ندی کے لیے اپنی زمین پر واپسی نے یہ بتادیا ہے کہ ہنڈن اب بھی ایک مضبوط ندی ہے۔
انسان کے لالچ، لاپروائی نے ہنڈن کو ’ہِڈن‘ بنا دیا ہے لیکن جب ندی اپنا بھیانک روپ دکھاتی ہے تب انسان کے پاس بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ ایک اور بات، حکومت بھلے ہی جمنا کی آلودگی سے بچاؤ کے لیے بڑے بڑے منصوبے بنائے، غازی آباد اور نوئیڈا کے پانی کے مسئلے کو زیر زمین آب یا گنگا نہر سے پانی لانے میں تلاش کرے مگر ہنڈن کی موجودہ توسیعی شکل سے تجاوزات ہٹانے اور کارخانوں و شہری نالوں کی گندگی کے نالے روک دیے جائیں تو جمنا بھی صاف ہوگی، لوگوں کو صاف پانی بھی ملے گا، زیر زمین پانی کی سطح بہتر ہو گی اور ساتھ ہی کم لاگت میں پانی کی آمدورفت کا راستہ بھی ہو گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS