ابونصر فاروق
جب کسی کو نمونہ بنانے کی بات کہی جاتی ہے تو اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے کہ کسی کو کس طرح نمونہ بنایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کو الگ الگ خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ ایک آدمی کی خاصیت دوسرے آدمی کے اندر پیدا نہیں ہو سکتی ہے نہ کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پرایک آدمی بہت طاقت ور ہے،اُس کے جیسا طاقت ور آدمی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ایک آدمی سات فیٹ لمبا ہے، دوسرا آدمی سات فیٹ لمبا نہیں ہو سکتا ہے۔ایک آمی بہت خوبصورت ہے، دوسرا آدمی بالکل اُس کے جیسا خوبصورت ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتاہے۔ ایک آدمی بہت عقلمند اور ذہین ہے، دوسرا آدمی اُس کے جیسا ذہین اور عقل مند نہیں ہو سکتا ہے۔ایک آدمی بہت خوش گلو ہے دوسرا آدمی اُس کے جیسا خوش گلو ہوہی نہیں سکتا ہے۔ ان مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کو جو کمال و جمال دیا ہے اُس کی نقل نہیں کی جاسکتی ہے۔
لیکن اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ اُس کے رسولؐ کی ذات میں انسانوں کیلئے بہترین نمونہ ہے یعنی ہر انسان کو پیارے نبیؐ کے جیسا بننا چاہئے۔ وہ نبی تھے، کوئی نبی نہیں بن سکتا ہے۔ وہ معراج پر گئے تھے کوئی معراج پر نہیں جا سکتا ہے۔ اُن کے پا س جبرئیل آتے تھے، کسی کے پاس جبرئیل نہیں آ سکتے ہیں۔ تو پھر نمونہ بننے کا کیا مطلب ہوا۔ نمونہ بننے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی آدمی کی عادتیں، مزاج، انداز، زندگی گزارنے کا اور کام کرنے کا جو طریقہ ہوتا ہے اُس کی نقل کی جاسکتی ہے اور اُسے اپنایا جاسکتا ہے۔ رسولؐ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ وہ اپنے ماں باپ، اپنی اولاد اور دنیا کے تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت کرنے والا نہ بن جائے۔ (بخاری مسلم-۱۷)
معلوم ہوا کہ انسان رسول نہیں بن سکتا ہے، اُن کے طور طریقے کو اپنا سکتا ہے اور اُن سے محبت کر سکتا ہے۔جب انسان کسی سے سچی محبت کرتا ہے تو اُس کا غلام بن جاتا ہے۔محبوب کی کسی بات کا انکار کرنا اُس کیلئے ممکن ہی نہیں ہوتا ہے۔نمونہ ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ نبیؐ کی جیسی زندگی تھی ویسی زندگی گزار نا، اُن کی دی ہوئی تعلیم اور تاکید کی مکمل پیروی کرنا ،اُن کی کسی بات کا انکارنہ کرنا اور اُن سے اصلی او ر سچی محبت کے نتیجے میں اُن کا غلام بن جانا ہی اُن کا نمونہ بننا ہے۔اب آپ دیکھئے کہ نبیؐ نے اپنے ماننے والوں کو کیا کیا حکم دیا ہے:(۱)(دوسروں کے ساتھ)نیکی کرنا بہترین اخلاق ہے۔ (بخاری و مسلم)
مکمل ایمان والے وہ لوگ ہیں جو اخلاق میں سب سے اچھے ہیں۔ سچے مومن اور مسلم کی پہچان یہ ہے کہ وہ ہر آدمی کے ساتھ محبت اور پیار سے بات کرے،اُس کی عزت کرے،اُس کا حق ادا کرے، اُس کی ہر طرح سے مدد کرے، اُس کو کبھی بے سہارا نہ چھوڑے۔ اس معاملے میںاس کی ترتیب یہ ہوگی کہ سب سے پہلا حق رشتہ دار کا ہے، پھر پڑوسی کا پھر اہل ایمان کا اور آخر میں ہر انسان کا۔ یہی اخلاق ہے ۔کہا جارہا ہے کہ جو آدمی اچھے اخلا ق کا مالک ہے وہ کامل ایمان والا مسلمان ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ جس انسان کے اندر اخلاقی خوبیاں نہیں ہیں وہ نہ اچھا مسلمان ہے نہ اچھا انسان۔
(۲) اللہ تمام معاملات میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔جو نرمی سے محروم ہے وہ تمام بھلائیوں سے محروم ہے۔ (بخاری،مسلم)
سچے مومن اور مسلم کی دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ ہر آدمی کے ساتھ نرمی سے پیش آئے۔کسی کے ساتھ سختی کا رویہ نہ اپنائے۔جو سخت مزاج ہے وہ بھلا آدمی نہیں ہے۔
(۳)جو رحم نہیں کرتااُس پر رحم نہیں کیاجاتا۔ اللہ اُس پر رحم نہیں فرماتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری ) سچے مومن اور مسلم کی تیسری صفت یہ بتائی جا رہی ہے کہ وہ سب کے ساتھ رحم دلی کا معاملہ کرے۔کسی کے ساتھ سنگ دل یا بے رحم نہیں بنتا ہے۔ یہاں اس عمل کایہ انعام بھی بتایا جارہا ہے کہ جو دوسروں پر رحم کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر رحم کرے گا۔ اور جو دوسروں پر رحم نہیں کرے گا وہ اللہ کی رحمت سے بھی محروم رہے گا۔ (۴) بہترین جہاد ظالم حکمراں کے سامنے حق بات کہنی ہے۔(بخاری)
سچے مومن اور مسلم کی چوتھی پہچان یہ بتائی جارہی ہے کہ وہ ہمیشہ حق کا طرف دار رہتا ہے اور کسی بھی حالت میں ناحق کا ساتھ نہیں دیتا ہے۔ حق کا ساتھ دینے اورحق کی حمایت کرنے میںظالم بادشاہ کے سامنے بھی بولنا پڑے تو اُس کے برے انجام سے بالکل نہیں ڈرتا ہے، کیونکہ اُس کا اللہ پر یقین رہتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کوئی مصیبت تقدیر میں لکھ دی ہے تو کوئی اُس سے بچا نہیں سکتا ہے اور اللہ نے اُس کی قسمت میں کوئی نقصان نہیں لکھا ہے تو کوئی مائی کا لال پیدا نہیں ہوا جو اُس کو نقصان پہنچا سکے۔(۵)جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہو اُسے چاہئے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔(مسلم)
بات کرنا بھی ضروری ہے اور بات نہیں کرنا بھی ضروری ہے۔عقل مندی، سمجھ داری اور نیکی یہ ہے کہ بولا جائے تو اچھی بات بولی جائے بیکار اور بیہودہ بات نہیں بولی جائے۔ ایسی مجلس میں مجبوراً جانا پڑے ، جہاںبیکار باتیں ہو رہی ہوں تو وہاں خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔(۶)میانہ روی اپناؤ اور سیدھی راہ پر چلو۔(مسلم)بیچ کا راستہ ہمیشہ اچھا اور محفوظ راستہ سمجھا گیا ہے۔ سچا اور پکا مومن اور مسلم کبھی بھی کسی معاملے انتہا پسندی یا تشدد کا رویہ اختیار نہیں کرتا ہے بلکہ میانہ روی یعنی بیچ کی راہ اپناتا ہے۔ قرآن کہتا ہے ’’دین میں زبردستی نہیں ہے۔‘‘لوگوں کو دین کی راہ پر چلنے کی دعوت تو دی جاسکتی ہے ،لیکن اُن پر زبردستی نہیں کی جاسکتی ہے کہ تم کو دین کی راہ پر چلنا ہی پڑے گا۔فرقہ پرستی میں جو زبردستی کی جارہی ہے وہ غلط ہے۔(۷)حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (بخاری و مسلم) مومن غیرت مند ہوتاہے۔( مسلم)بات کرنے میں ، لباس پہننے میں، اٹھنے بیٹھنے اور لیٹنے میں ستر چھپانے کا حکم ہے۔جسم کا وہ حصہ جس کا چھپانا ہر حال میں فرض ہے اُس کو کبھی بھی نمایاں نہیں ہونا چاہئے۔ ایسی بیہودہ بات کبھی نہیں کرنی چاہئے جس کو سن کر نیک لوگوں کے چہرے کا رنگ بدل جائے۔ اسی کو غیرت مندی اور حیاداری کہتے ہیں۔ بھیک مانگنے کو بھی ایک حدیث میں بے حیائی کا کام کہا گیا ہے۔ اس وقت نوجوان عام طور پر گنجی اور ایسا پاجامہ پہنتے ہیں جس سے اُن کی شرم گاہ اور پچھواڑا صاف دکھائی دیتا رہتا ہے۔ ایسے لباس میں اُن کی نماز نہیں ہوتی ہے ، اس لئے کہ اُن کی ستر پوشی نہیں ہو رہی ہے۔ اب لڑکیاں بھی بے حیا بن کر چست لباس پہننے لگی ہیں جس سے اُن کا جسم دکھائی دیتا ہے یہ بھی بے حیائی ہے۔ ایسا لباس پہننے والے اور اپنے ستر کی نمائش کرنے والے پیارے نبیؐ کے نزدیک ایمان سے ہی محروم ہیں۔(۸)وہ خدا کا بھی شکر گزار نہیں جو انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا۔ (ابوداؤد)اللہ کا ہر حال میں شکر ادا کرتے رہنا اصل عبادت ہے۔ اللہ کی انسان پر اتنی نعمتیں ہیں جن کو وہ گن نہیں سکتا اس لئے انسان اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کرے وہ کم ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہاں یہ تاکید کی جارہی ہے کہ اللہ کے نیک بندے اُس کے ساتھ نیکی ، ہمدردی اور احسان کاجو معاملہ کرتے ہیں تو شریف آدمی کو ایسے تمام لوگوں کا احسان مند رہنا چاہئے اور اُن کے احسانوں کا بدلہ احسان سے ہی چکانا چاہئے۔ جو آدمی ایسا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہو سکتا ہے۔(۹)جو آدمی معاف کرتا ہے اللہ اُس کی عزت بڑھاتا ہے۔(ترمذی) جو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو معاف کرتا ہے۔ (بیہقی)بات کرنے میں یا کسی معاملے میں بحث و تکرار ہوجانے پر ناراضگی اور رنجش پیدا ہوجاتی ہے اور پھرتعلق ختم ہو کر بات چیت بھی بند ہو جاتی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ دوسرا فریق مصالحت کیلئے اگر معافی مانگ لے یا معاملے کو رفع دفع کرنے کو کہے تو انکار نہیں کرنا چاہئے بلکہ خوش دلی سے من مٹاؤ ختم کر کے پھر سے تعلق بحال کرلینا چاہئے ۔ کہا جارہا ہے کہ جو آدمی بڑے دل کا مالک ہوتا ہے اور لوگوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کرتا رہتا ہے اللہ اُس کو عزت دیتا ہے۔ہرانسان سے غلطی اورگناہ ہوتا رہتا ہے ، بندوں کو معاف کرنے کا انعام یہ ہے کہ اللہ بھی بندے کا گناہ معاف کر تا رہتا ہے۔ معاف نہیں کرنا اور دل میں کینہ رکھنا سخت گناہ ہے۔ (۱۰)اور (اے نبی ؐ)ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کیلیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔(سبا:۲۸)اے نبیؐ، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر، اللہ کی اجازت سے اُس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بناکر۔ (الاحزاب : ۴۵/۴۶) ان دونوں آیتوں میں نبیؐ کی ذمہ داریوں کا ذکرکیا جارہا ہے اور اُن کے فرائض کی تفصیل بتائی جارہی ہے۔ نبیؐ کا سب سے پہلا کام یہ تھا کہ جو لو گ اللہ کی نافرمانی پر آمادہ تھے اُن کو اُن کے برے انجام سے وہ ڈراتے تھے۔ قرآن میں ایسی آیتوں کی بھرمار ہے جن میں جہنم کی ہولناکیوں کی تصویر دکھائی گئی ہے۔ دوسرا فرض یہ تھا کہ جو لوگ اللہ کی مکمل فرماں برداری پر آمادہ تھے اور اس کے لئے دنیا کی ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار تھے اُن کو ہدایت، غموں سے نجات، پرسکون اور خوش گوار زندگی، گھر اور کاروبار میں برکت، دنیا میں عزت اور محبت کے ساتھ ساتھ ایسی جنت کے انعام پانے کا یقین دلا تے تھے جس کی نعمتوںکا تصور بھی انسان نہیں کر سکتا ہے۔(۱۱)وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول ؐخود اُنہی ہی میں سے اٹھایا، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے۔اُن کی زندگی سنوارتا ہے، اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔(الجمعہ :۲) اس آیت میں رسولؐ نے اصحاب کی تعلیم و تربیت کا جو طریقہ اپنایا تھا اُس کے نکات بتائے جا رہے ہیں۔ آیات کی تلاوت کا مطلب ہوتا ہے کسی حکم پر عمل کرنا۔ یہاںآیات کی تلاوت کا مطلب ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے جو بھی احکام نازل ہو ر ہے ہیں ،خود بھی اُن پر عمل کرنا اور دوسروں سے بھی اُن پر عمل کرانا۔ تزکیہ کا مطلب ہے کسی بھی چیز میں جو ملاوٹ ہے اُس کو الگ کر کے اُس چیز کو خالص بنا نا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نفس امارہ بھی دیا ہے جو برائی کی طرف لے جاتا ہے،نفس لوامہ بھی دیا ہے جو برائی پر ٹوکتا اور روکتا ہے اور نفس مطمئنہ بھی دیا ہے جو برائی کے بارے میں سوچتا بھی نہیں ہے۔ رسول ؐ نے اپنے صحابہ کی ایسی تعلیم اور تربیت کی کہ اُن کا نفس امارہ مردہ ہوگیا،نفس لوامہ پہلوان بن گیا اور نفس مطمئنہ جو سویا ہوا تھا جاگ گیا۔اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کے متعلق اپنا فیصلہ سنایا کہ’’اب تم دنیا میں وہ بہترین لوگ ہو جولوگوں کو(فائدہ پہنچانے کیلئے) میدان میں لائے گئے ہو۔‘‘