سیناپتی بن گیا ’سینا‘ کا دشمن

0

مہاراشٹر کے سیاسی بحران میں سیاست کا ایک بڑا سبق ہے۔ سیاست میں مذاکرات کی کھڑکی بند ہوجائے تو سیاسی عدم اطمینان کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ مہاراشٹر میں تو یہ دروازہ ایسا کھلا ہے کہ حکومت کے سر سے چھت اور پیروں کے نیچے سے زمین تک کھسک گئی ہے۔ ریاست کی مہاوکاس اگھاڑی حکومت پر یہ بحران گٹھ بندھن کی اہم اتحادی شیوسینا میں ہوئی بغاوت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ بغاوت کے محرک حکومت کے اہم وزیر ایکناتھ شندے مہاراشٹر سے ہزاروں کلومیٹر دور گواہاٹی میں ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں جہاں ان کا ساتھ دینے والے باغی ایم ایل اے کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ حالانکہ جس تعداد کا شندے دعویٰ کررہے ہیں اس کے حساب سے حکومت کو اب تک گرجانا چاہیے تھا۔ دوسری طرف اگھاڑی حکومت اس معاملہ کو تکنیکی اور قانونی پہلوؤں میں الجھاکر لڑائی کو لمبا کھینچنے کے موڈ میں ہے۔ بہرحال اس بحران کا نتیجہ جو بھی نکلے، جس سبق کو لے کر میں نے اپنی بات شروع کی تھی وہ اپنی جگہ قائم رہے گا۔
آخر مہاوکاس اگھاڑی حکومت اور شیوسینا کو یہ دن دیکھنے کی نوبت کیوں آئی؟ اس کے ذمہ دار خود اس حکومت کے سربراہ اور فوج کے سیناپتی ہیں جو اتفاق سے ایک ہی شخص ہیں- ادھوٹھاکرے۔ ادھو ان دونوں ذمہ داریوں پر کھرے نہیں اترسکے۔ وزیراعلیٰ کے طور پر وہ ایک ایسے گٹھ بندھن کی قیادت کررہے تھے جو ان کی پارٹی کے زیادہ تر ایم ایل اے ہی نہیں، شیوسینا کے زیادہ تر حامیوں کی نظروں میں بھی ایک بے میل گٹھ بندھن تھا۔ دوسری طرف شیوسینا کے سربراہ ہونے کے باوجود وہ شیوسینکوں کے مقابلہ میں این سی پی اور کانگریس لیڈروں کے لیے زیادہ قابل رسائی تھے۔
مہاوکاس اگھاڑی پر یہ بحران آئے گا، یہ بھی پہلے سے طے تھا۔ اس کی اسکرپٹ تین سال قبل تبھی لکھ دی گئی تھی جب مہاراشٹر کے لوگوں نے شیوسینا اور بی جے پی گٹھ بندھن کو اقتدار میں لانے کے لیے ووٹ دیا تھا۔ گٹھ بندھن کی حکومت تو بنی، لیکن کردار بدل گئے۔ بی جے پی کی جگہ لے لی این سی پی اور کانگریس نے۔ بہت لوگ اس کے لیے ادھو ٹھاکرے کی وزیراعلیٰ بننے کی خواہش کو ذمہ دار مانتے ہیں، تو ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جن کا ماننا ہے کہ بی جے پی کے ’سیاسی منصوبوں‘ کو لے کر ادھو کبھی پوری طرح سے مطمئن نہیں رہے۔ 2014میں بھی جب دونوں پارٹیوں نے مل کر حکومت چلائی تھی، تب ساتھ رہ کر بھی شیوسینا کا ادھو گروپ بی جے پی کی مخالفت کرتا تھا۔ بہرحال 2019میں موقع ملتے ہی ادھو نے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کے باوجود بی جے پی سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے این سی پی اور کانگریس کی مدد سے وزیراعلیٰ بننے کا اپنا خواب پورا کرلیا۔ بہت لوگوں نے اسے ادھو کا بی جے پی کو دھوکہ دینا قرار دیا۔ حالاں کہ نام نہاد ’دھوکہ والی یہ سرکار‘ اپنا کام کاج کرتی رہی، لیکن زیادہ تر شیوسینکوں کو لگتا رہا کہ ان کا نظریہ این سی پی اور کانگریس سے ملتا جلتا نہیں ہے۔ موقع بے موقع کئی شیوسینکوں نے کھل کر مخالفت بھی کی اور یہاں تک کہا کہ اگر بالاصاحب زندہ ہوتے تو ایسے بے میل گٹھ بندھن کو کبھی اجازت نہیں دیتے۔ بات ٹھیک بھی لگتی ہے۔ جنہوں نے بالاصاحب کی شدید ہندوتو مارکہ والی سیاست دیکھی ہے، وہ یہ دیکھ کر ہی حیران تھے کہ کیسے شیوسینا کی حکومت میں ادھو کے وزیراعلیٰ رہتے ہوئے پال گھر میں سادھوؤں کی لنچنگ ہوئی، ممبئی پولیس پر وصولی کے الزامات لگے،بالی ووڈ اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی پراسرار موت میں ٹھاکرے خاندان کی اولاد کا نام سامنے آیا اور مسجد کے لاؤڈاسپیکروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے ہوئے عوامی طور پر ہنومان چالیسا کے پاٹھ پر روک لگانے جیسے فیصلے کیے گئے۔
درد صرف اتنا ہی نہیں تھا۔ شیوسینا کیڈر کے درمیان یہ خیال بھی جڑ پکڑرہا تھا کہ وزیراعلیٰ بھلے ہی ادھو ہوں، لیکن اقتدار کا ریموٹ شردپوار کے ہاتھوں میں ہے اور ان کے وزرا کے مقابلہ میں این سی پی-کانگریس کے وزرا کو زیادہ توجہ مل رہی ہے۔ باغی ایم ایل اے نے اپنے خط میں الزام بھی لگایا کہ وزیراعلیٰ ادھو ان کی پہنچ کے باہر ہوگئے تھے۔ سیکریٹریٹ وہ جاتے نہیں تھے، ماتوشری میں ان کے خوشامدی ادھو اور ان کے درمیان دیوار بن جاتے تھے۔ ایک طرح سے کوٹری اور کوٹھری کے درمیان پھنس کر رہ گئے تھے ادھو۔ اب وہ پھنسے تھے یا یہ سسٹم ان کی خود کی پسند تھا، یہ تو ادھو سے بہتر کوئی نہیں بتاسکتا۔
دراصل ادھو کے پاس سیاسی دوراندیشی کی بھی کمی نظر آتی ہے۔ جس سیاسی گٹھ بندھن کو وہ اپنی طاقت سمجھ رہے تھے، ویسے گٹھ بندھن ناکام ہونے کے لیے بدنام ہوتے ہیں اور جو پارٹی یا اس کی قیادت سیاسی طور پر ’دوراندیش‘ ہوتی ہے، وہ اس کا فائدہ اٹھالیتی ہے جیسا کہ اس معاملہ میں این سی پی کے ساتھ ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہیں جیسے 2013میں عام آدمی پارٹی کے ساتھ گٹھ بندھن کے بعد سے کانگریس کا دہلی میں صفایا ہی ہوگیا، 2014میں جموں و کشمیر میں بی جے پی- پی ڈی پی کا جرأت مندانہ تجربہ الٹا پڑگیا اور مسلم ووٹ بینک کم ہونے سے پی ڈی پی کمزور ہوئی، 2015میں بہار میں نتیش-لالو، 1993میں کانشی رام-ملائم یادو یا پھر اس سے بھی پہلے 1989میں مرکز میں بایاں محاذ اور بی جے پی کے درمیان ہوئے بے میل گٹھ بندھن کا حشر سب نے دیکھا ہے۔ اب ادھو کو یہ سمجھ نہیں آیا یا بی جے پی سے کھل کر جنگ کرنے کے سبب این سی پی-کانگریس ان کی مجبوری بن گئے تھے، اس پر بھی ادھو ہی تصویر صاف کرسکتے ہیں۔
قیمت بھی ادھو ہی چکا رہے ہیں۔ آج شیوسینا کے تقریباً سبھی لیڈر(چھترپ) شندے خیمہ میں جاچکے ہیں۔ جو ٹھاکرے پریوار شیوسینا کا ’چھترپتی‘ رہا ہے، اس کا اثر اب صرف کونکن کے رتناگری- سندھودرگ ضلع میں بچا نظر آرہا ہے۔ کونکن کے علاوہ مغربی مہاراشٹر، ودربھ اور مراٹھواڑہ میں اب ادھو کے خیمہ میں گنے چنے ایم ایل اے ہی رہ گئے ہیں۔ ممبئی میں بھی 13میں سے پانچ ایم ایل اے نے شندے کا ہاتھ تھام کر ادھو کی پریشانی میں اضافہ کردیا ہے۔ آخر شیوسینا میں ادھو سے بڑے لیڈر کیسے بن گئے شندے؟ جو کام راج ٹھاکرے اور نارائن رانے جیسے لیڈر نہیں کرپائے، اسے شندے نے کیسے کردکھایا؟ دراصل بالاصاحب کے نظریہ کے ساتھ پروان چڑھے شندے بہت پہلے ہی جان گئے کہ شیوسینا کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک رہی ہے۔ پارٹی کا کور ووٹر پہلے حیران تھا، اب ناراض بھی ہورہا تھا۔ شندے جان رہے تھے کہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہا تو ووٹروں کے پاس دوبارہ واپس جانا ناممکن ہوگا۔ ادھو سے الٹ شندے اپنی پارٹی کے ایم ایل اے اور حامیوں سے مسلسل ملتے تھے اور ہندوتو نظریہ کے بارے میں کھل کر بولتے تھے۔ ایم ایل اے ہی نہیں، شیوسینا کارکنان کو بھی مسلسل احساس ہورہا تھا کہ جب وہ بی جے پی کے ساتھ گٹھ بندھن میں تھے تو انہیں زیادہ عزت ملتی تھی۔
ایسا لگتا ہے کہ اپنی بہتر سیاسی سمجھ کے سبب دیویندر فڑنویس نے شیوسینکوں کی اس ذہنی کیفیت کا ادھو سے پہلے اندازہ لگالیا۔ حکومت چلانے کا مینڈیٹ ملنے کے باوجود اپوزیشن میں بیٹھنے کی مجبوری اور ایک بار حکومت بنانے کی کوشش میں ناکام ہونے کے باوجود فڑنویس ناامید نہیں ہوئے اور اس موقع پر گٹھ بندھن حکومت پر نشانہ لگایا ہے۔ فڑنویس کچھ بڑا کرنے والے ہیں اس کا احساس راجیہ سبھا اور قانون ساز کونسل کے انتخابات کے نتائج سے ہورہا تھا۔ جس رازدارانہ طریقہ سے شیوسینا کے بیسیوں ایم ایل اے مہاراشٹر میں ادھو کی ناک کے نیچے سے نکل کر سورت اور گواہاٹی پہنچے ہیں، اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کام اکیلے شندے کے بوتے کا نہیں ہوسکتا۔ بھلے ہی ایک بار کی فضیحت کے بعد اس مرتبہ چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پی رہی بی جے پی اپنے پتے نہیں کھول رہی ہو، لیکن یہ تو کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اتنا بڑا ’سیاسی آپریشن‘ دیویندر فڑنویس کے کردار کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔
بہرحال سیاسی دھند میں گھری مہاراشٹر کی سیاست میں ایک بات واضح ہوگئی ہے۔ تیر-کمان شیوسینا کا انتخانی نشان ہے اور انتخابی جنگ کے لحاظ سے تیر اب کمان سے نکل چکا ہے۔ ادھو نے بھلے ابھی وزیراعلیٰ کے عہدہ سے استعفیٰ نہیں دیا ہو، لیکن وہ اب اسمبلی میں شیوسینا کے مقبول لیڈر نہیں رہ گئے ہیں۔ پارٹی پر وہ اپنا دعویٰ برقرار رکھ پائیں گے یا نہیں، یہ بھی اگلے کچھ دنوں میں صاف ہوجائے گا۔ حالانکہ اس کے لیے وہ پورا زور لگارہے ہیں اور زمینی کارکنان کے ساتھ میٹنگیں کررہے ہیں۔ مذاکرات کی کھڑکی کھولنے والا یہ سبق انہوں نے پہلے ہی یاد رکھا ہوتا تو آج شیوسینا کے وجود پر سب سے بڑا خطرہ ہی نہیں منڈلا رہا ہوتا۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

ہمارے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 bit.ly/35Nkwvu

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS