2024 کا عام انتخاب جس طرح اپوزیشن کیلئے کرو اور مرو کی حیثیت رکھتا ہے ٹھیک اسی طرح بھارتیہ جنتاپارٹی بھی اس انتخاب میں اپنی کامیابی کیلئے تشویش اور فکرمندی کی شکار ہے۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کی سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آرایس ایس ) کی اعلیٰ قیادت کا خیال ہے کہ 2024کا عام انتخاب مودی میجک اور ہندو تو کے زور پر نہیں جیتاجاسکتا ہے۔ 2014 اور2019کے مقابلہ میں 2024کا ماحول کہیں الگ ہے۔ 10برسوں کی مسلسل حکمرانی کی وجہ سے عوام کے ایک طبقہ میں اقتدار مخالف جذبہ بھی بیدار ہوا ہے تو دوسری جانب مہنگائی، بے روزگاری، ٹرین حادثے، منی پور فساداور 2 ہزار کے نوٹ بدلنے جیسے فیصلوں کی وجہ سے عوام کا ’موہ بھنگ ‘ ہورہا ہے اور ’طرۂ لیلا‘ کا خیال بھی جھٹکنے کوتیار کھڑے ہیں۔ خواتین پہلوانوں کی تحریک نے بھی عوام میں مودی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے خواتین کے تحفظ کے بلند بانگ دعوئوں کی ہوا نکال دی ہے۔لوگوں کی سمجھ میں یہ آنے لگا ہے کہ حکومت ڈیلیوری کے بجائے دعوئوں اور نعروں کی بنیاد پر اپنا تسلسل برقراررکھناچاہتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی کرناٹک اسمبلی انتخاب میں کانگریس کی کامیابی نے بھی سنگھ کو تشویش کاشکار بنا رکھاہے۔ سنگھ اور بی جے پی کا خیال تھا کہ کرناٹک میں مودی میجک اپنی تابانی بکھیرے گا اور زیادہ سے زیادہ سیٹیں اس کے قبضہ میں آئیں گی، جیت کے امکانات کو روشن کرنے کیلئے بی جے پی اور اس کی ہم نوا تنظیموں نے انتخاب سے پہلے ہی جنوبی ہندوستان کی اس ریاست میں مسلم مخالف لہر پیدا کرنے کیلئے حجاب اور دوسرے متعلقہ معاملات کو طول دیا اور ہندوتو کی جانب جارحانہ پیش قدمی کرتے رہے۔لیکن انتخابی نتائج نے ان کی آرزوئوں کاشیش محل مسمار کردیا۔کچھ یہی صورت ضمنی انتخابات میں بھی ہوئی۔ پے در پے ہونے والی انتخابی ہار نے بی جے پی اور اس کی سرپرست آر ایس ایس کو خود احتسابی پر مجبور کردیا ہے اوروہ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ مودی میجک اور ہندوتوو جارحانہ قوم پرستی جیسے اقدامات کے سہارے اب گلشن کا کاروبارجاری نہیں رکھاجاسکتا ہے۔
آر ایس ایس کے ترجمان ’آرگنائزر ‘ نے باقاعدہ مودی میجک اور ہندو تو کے بے اثر ہونے کے خدشات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ بی جے پی کیلئے یہ وقت حالات کا جائزہ لینے کا ہے۔ آئندہ انتخابات میں علاقائی سطح پر مضبوط قیادت اور مؤثر ڈیلیوری کے بغیر صرف پی ایم مودی کا کرشمہ اور ہندوتو کافی نہیں ہوگا۔اس کے ساتھ ہی موجودہ وزرا کے خلاف حکومت مخالف لہر کوبھی بی جے پی کیلئے باعث تشویش قرار دیاگیا ہے۔ یادرہے کہ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے دوران کرناٹک کی سابقہ بی جے پی حکومت کے کئی وزرا پر بھاری بدعنوانی کے الزامات بھی لگے تھے، اس کے تناظر میں کہا گیا ہے کہ ریاستی سطح کی حکمرانی میں مثبت مقصد، نظریہ اور قیادت ہی بی جے پی کا اصل اثاثہ ہے۔ وزیراعظم مودی کے مرکز میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار بی جے پی کو کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بدعنوانی کے الزامات کے خلاف اپنا دفاع کرنا پڑا۔بی جے پی زیادہ ٹرن آؤٹ والے انتخابات میں اپنے پچھلے ووٹ شیئر میں نمایاں اضافہ کرنے میں ناکام رہی، جس کے نتیجے میں خراب نتائج برآمد ہوئے۔آرگنائزر میں شائع ہونے والے مضمون میں کانگریس کے درمیان ہونے والے انتشار و افتراق کو بی جے پی کے حق میں استعمال کرنے کی صلاح دیتے ہوئے کہاگیا ہے کہ اگر کانگریس میں جھگڑا اور انتشار جاری رہا، جیسا کہ راجستھان میں ہوا ہے تو بی جے پی کو اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔بی جے پی کو کاروبار سیاست و حکمرانی جاری رکھنے کیلئے ایسے ایشوز کی تلاش بھی شروع کرنے کی صلاح دی گئی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے ووٹروں کو ایک بار پھر سے بی جے پی کی جانب زیادہ شدت کے ساتھ راغب کیاجاسکے۔
بی جے پی اپنے سرپرستوںکی صلاح پر کتنا عمل کرتی ہے اور اس سے کامیابی کے کتنے زینے طے کرے گی یہ تو 2024 کے عام انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہو ہی جائے گا لیکن اتنا طے ہے کہ 2014کے بعد سے مسلسل حکمرانی کے دوران بی جے پی نے عوام میں نفرت اور تشدد کی جو کھیتی کی ہے، اس کی فصل اسے کاٹنی پڑے گی۔ نفرت اور تشدد وہ بری طاقت ہے جو اپنے پرائے میں کسی تمیز کے بغیر سب کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔یہ اسے بھی نہیں بخشتی ہے جو اس کی پیدائش و افزائش کا ذمہ دار ہوتا ہے۔بی جے پی نے گزشتہ ایک دہائی سے ملک میں جو زہرناک ماحول بنارکھا ہے۔ اس کی زد میں اسے آنا ہی ہوگا یہ فطرت کا آفاقی اصول ہے اور اس سے مفر ممکن نہیں ہے۔بی جے پی نے فرقہ واریت، تشدد، ذات پات، مذہبی منافرت اور پولرائزیشن کی مدد سے انتخابات جیتے ہیں تواس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ برائیاں اس کیلئے فائدہ مند اور دوسری سیاسی جماعتوں کیلئے مہلک ثابت ہوں گی۔بی جے پی کو بھی ان برائیوں کا دام چکانا ہے اور وہ دن قریب آرہے ہیں۔ بی جے پی کی فکری قیادت کوبھی اس کا احساس ہوچکا ہے اور اسی لیے اب وہ مودی میجک اور ہندوتو کے بجائے نئے ہتھیاروں کی تلاش کا ڈول ڈال رہی ہے۔
[email protected]
نئے ’ہتھیاروں ‘کی تلاش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS