کابل میں اسکولی بچوں کی ہلاکت

0

امارت اسلامیہ افغانستان میں طالبان2-کی حکومت بھی مسلسل دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے عبارت ہے۔ گزشتہ ایک مہینہ کے دوران تین خطرناک بم دھماکے ہوچکے ہیں جن میں چار درجن سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ آج دہشت گردوں نے ایک بار پھر کابل میں اسکولوں کو نشانہ بنایا جس میں 25اسکولی بچے جاں بحق ہوگئے اوربچوں کی بھاری تعداد زخمی بھی ہوئی ہے۔ بتایاجاتا ہے کہ یہ دھماکہ کابل کے مغرب میں واقع ہزارہ آبادی کے اکثریت والے علاقے دشت بارچی میں عبدالرحیم شاہد بوائز اسکول میںاس وقت ہوا جب بچوں کی چھٹی ہوگئی تھی اور بچے اسکول سے دھیرے دھیرے کرکے نکل رہے تھے۔اسکول میں ایک خودکش بمبار داخل ہوا اور خود کو دھماکے سے اڑا کر اپنے ساتھ 25 معصوم اسکولی بچوں کی بھی جان لے لی۔اس سے تھوڑی دیر قبل ایک دوسرے اسکول میں بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا جس میں 6افرا د ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔
ان دونوں ہی اسکولوں میں پڑھنے والے بچے افغانستان کی اقلیتی شیعہ فرقہ کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمیشہ ہی یہ دہشت گردوں کے نشانہ پر رہے ہیں۔ افغانستان کی مجموعی آبادی میں ہزارہ اقلیت کی آبادی تقریباً20فیصد ہے جو اپنے مخصوص مذہبی فکر کی وجہ سے افغانستان کے مین اسٹریم سے کٹی ہوئی رہتی ہے لیکن طالبان کے شدت پسندانہ رویہ نے اس برادری کو اب بالکل ہی گھیٹو کمیونٹی میں تبدیل کردیا ہے۔ماضی میں بھی طالبان اول کی حکومت کے دوران اقلیتی ہزارہ برادری پر اکثر و بیشتر حملے ہوتے رہے ہیں۔ لیکن طالبان2-نے افغانستان کے اقتدار پر قابض ہوتے وقت تمام افغانیوں کے جان و مال کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی اور یہ کہاتھا کہ ان کی یہ حکومت طالبان اول کی حکومت سے الگ اور دنیا کے ساتھ ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے گی۔ طالبان نے خاص طور سے افغان عوام کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ ماضی میں 90 کی دہائی میں جس طرح حکومت کرتے رہے تھے، اب وہ ایسا نہیں کریں گے وہ اپنے رویے میں تبدیلی کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ طالبان2کی حکومت میں بھی وہی سب کچھ ہورہاہے جوطالبان اول کے دور حکومت میں ہوا کرتا تھا۔ خاص کرکے افغانستان کی اقلیتوں کے حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ انسانی حقوق، شہری آزادی، رواداری جیسے بنیادی معاملات میں طالبان اپنے وعدے کی تکمیل میں قطعی سنجیدہ نظر نہیں آرہے ہیں۔خاص کر اقلیتوں اور خواتین کے تعلق سے طالبان کا پرانا رویہ ’ نئے افغانستان‘ کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ بناہوا ہے۔ گزشتہ 9 مہینوں کی طالبان 2کی کارکردگی اور طریقہ حکومت کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر سے کہیں زیادہ اپنی حکومت کے استحکام اور آپسی گروہ بندیوںمیں الجھے ہوئے ہیں۔بیرونی امداد بند ہونے کی وجہ سے غربت و افلاس اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہاہے، مالی وسائل کی کمی امورحکومت کے چلانے میںآڑے آرہی ہے لیکن ملک میں تعمیروترقی اور بحالی کی کوشش کے بجائے وہ اسلامی اقدار کے نام پر اپنے نام نہاد اقدار کے نفاذ کیلئے کوشاں ہیں۔خواتین اور لڑکیوں کو حصول تعلیم کی آزادی کے معاملے میں طالبان میں سر پھٹول ہورہی ہے۔ یہی صورتحال انسانی حقوق کے دوسرے امور میں بھی ہے۔ عالمی برادری نے اپنی امداد کو انسانی حقوق کی صورتحال کی بہتری سے مشروط کررکھا ہے لیکن طالبا ن کی آپسی گروہ بندی کی وجہ سے اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوپارہی ہے۔
اس صورتحال کافائدہ داعش جیسی تنظیم اٹھارہی ہے اور خراسان میں موجود اپنی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ خراسان‘ یا ’آئی ایس-کے‘ کو فعال کرکے جگہ جگہ پر دھماکے کرارہی ہے۔ خراسان وہ علاقہ ہے جہاں گزشتہ سال جولائی اگست کے مہینہ میں طالبان2کی پیش قدمی کوشدید مزاحمت جھیلنی پڑی تھی اور اب بھی یہ آئی ایس-کے، داعش یا اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ مل کر وقتاًفوقتاًدہشت گردانہ کارروائی کرکے اپنی موجودگی کا اعلان کرتی رہتی ہے۔اس کے علاوہ بھی طالبان مخالف شخصیات کے تعاون سے بنائے گئے کئی دوسرے مسلح گروہ بھی فعال ہیں اور طالبان کو چیلنج کررہے ہیں۔
آج ہونے والے دھماکے کے سلسلے میں افغانستان کی وزارت داخلہ نے اب تک کسی کوباقاعدہ نامزد تو نہیں کیاہے لیکن کئی ایسے بیانات آئے ہیں جن میں ان دھماکوں کے پس پشت داعش یا آئی ایس-کے کے ہاتھ ہونے کا اشارہ ہے۔اگر ایسا ہے تو اس کی ذمہ داری بھی طالبا ن پر ہی عائد ہوتی ہے۔ افغانستان کی تمام آبادی کے جان و مال کو تحفظ فراہم کرنا ان کا اولین فرض ہونا چاہیے جس کا عالمی برادری کے سامنے انہوں نے وعدہ بھی کررکھا ہے۔طالبان نے گرچہ حکومت بنالی ہے لیکن دنیا اسے تسلیم کرنے کو اب بھی تیار نہیں ہے، ایسے میں افغانستان میں ہونے والے یہ بم دھماکے اور اسکولی بچوں کی جانوں کا زیاں دنیا کو طالبان سے مزید متنفر کرنے کا سبب بنیں گے۔اس لیے ضرورت ہے کہ طالبان دہشت گردانہ حملہ کرنے والے گروہوں کو نشان زد کرکے انہیں دنیا کے سامنے بے نقاب کریں اوراپنی پوزیشن صاف کریں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS