زمیں اور زما ں کے منظر _ معکوس کا شا ہد : شاہد زکی

0

#عالیہ خان، پٹنہ بہار
ملٹی جلتی آوازوں والے ا لفا ظ يا یکساں آوازوں والے حروف سے شروع ہونے والے لفظوں کی تخلیقی تکرار یا ہم آواز لفظوں(آئندہ و امروز،شعلگی و شر،تشنہ _ تعبیر، قصہ قدرت، شر نما شک ،بجائے باد ، خواب و خبر ،) کے ٹکراؤ سے جھنکار اور غنائیت پیدا کرنے کی شعوری کوشش اس کا پتہ دیتی ھے کہ شاعر فکر کی گہرائی ، اظہار کی بلندی اور معلوم سے آگے کی طرف دریافت طلب زمینوں پر پیش قدمی کے ساتھ شعر گوئی کے عمل میں شعر کی آرائش و زیبائش پر بھی فاضل توجہ دیتا ھے ۔ شاہد زکی کی غزل کے تخلیقی عمل میں یہ جوہر اپنی چمک کی وجہ سے فوراً نظر میں آ جاتا ھے ۔اُن کے شعری مجموعہ کا نام ” دھنک دھوئیں سے اٹھی” سے ہی ہم آواز حروف سے شروع ہونے والے لفظوں کی تکرار (د اور د ) کی طرف توجہ منعطف ہو جاتی ھے۔ جس شعر سے مجموعے کا عنوان نکلا ھے اُسے ایک نظر دیکھا جائے تو یہ سچ کھلتا ہے۔ یعنی تکرار ۔ مگر گھٹا کا دھوئیں سے دھنک میں بدلنا خود ایک بڑی واردات ھے۔ اپنے عملی، سائنسی جواز کے ساتھ۔

کہا کہ آتشِ تخلیق مجھ پہ ظاہر ہو
گھٹا دھوئیں سے اٹھی اور دھنک پہ ختم ہوئی

لفظ سے لفظ کو ٹکرا کر غنائیت اور اسی کے ساتھ کیفیت پیدا کرنے کی یہ منصوبہ بند آرائشی کوشش شعر کی تشکیل و تعمیر کے پورے عمل کو مزید ارفع اور تابندہ کر دیتی ھے۔ گھٹا کا دھوئیں سے اٹھ کر دھنک پر ختم ہونا بذات _ خود ایک بڑا( transformational) تحول آفریں عمل ھے. دھوئیں اور دھنک کے درمیان تبدیلی کا ہرکارہ گھٹا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو سرورق سے ہی یہ تاثر بننے لگتا ہے کہ شاہد زکی کی غزلیہ شاعری منظر_ معکوس، صوتی تکرار اور تبدیلی کے ہر کاروں کی حرکت آفرینی کے درمیان نئے سے نیا کی تلاش میں کوشاں ھی نہیں کامیاب بھی ھے ۔ وہ زمینوں اور زمانوں کے معکوس منظروں کے شاہد بھی ہیں اور ان کی رو نمائی اور رونق افروزی کے مہتمم بھی۔ تمثیلیٹ کو فی الحال چھوڑ بھی دیں ٹو یہ دو بہت نمایاں تخلیقی رویے شاہد زکی کو عہد _ حاضر کی غزل کیلئے آگے کی راہیں کھولنے والی ٹیم کا معززممبر بناتی ہیں۔ شاید زکی کو پڑھنے کا اپنا لطف ہے۔ تقریباً ہر غزل اور قریب قریب ہر شعر ایک چھوٹا موٹا حیرت کدہ بن کر سامنے آتا ہے۔تمثال ایک اور نمایاں صفت ھے جس سے شعر میں معنوی تہ داری بھی پیدا ہوتی ھے اور زور _ بیان بھی آتا ھے۔ مثال۔

آرزو ترک نہ کرتا تو یہ گھر کٹ جاتا
میں اگر شاخ بچاتا تو شجر کٹ جاتا

یعنی تین موٹی خصوصیات اُبھر کر سامنے آتی ہیں۔ تینوں زمانوں ماضی حال اور مستقبل کو اُن کے مسلمہ تقدیم و تاخیر کو خلط ملط یا مقام کی لائق قبول تبدیلی کر کے حال کو ماضی میں اور ماضی کو مستقبل میں سفر کرنے اور تین متصادم زمانوں کے باوجود اُن کے معکوس خانوں میں اُنہیں وہ آ سانی سے قائم اور ثابت کر دیتے ھیں۔ٹھیک زمانوں کی طرح اشیاء کو بھی اُن کے مخزن اور ماخذ سے توڑ کر مخالف پہچان میں لے جانے کی ہنر مندی سے اُن کے قاری کو حیرت زدہ ہونا پڑتا ہے۔ ہم آواز لفظوں کی تکرار سے جادوئی فضا بناتے ہیں اور تمثیلات سے شعر میں زندگی کی لہر دوڑاتے ھیں۔
یہاں ایک شعر نقل کرنے کی اجازت ملنی چاہئے ۔

پھر ایک لہر مجھے دور لے گئی اس سے
میں سوچتا تھا کنارہ سفر نہیں کرتا

اس شعر میں قواعد کے پورے نظام میں فا عل، فعل ، مفعول کی جگہ بدلنے سے حیرت انگیز اور مسرت خیز خلل پڑا۔یہاں لہر فاعل ھے مگر اس کے دور لے جانے کے فعل کا اطلاق پانی میں تیر تی شے پر نہیں بلکہ کنارے پر ہوتا ہے۔ یہ ایک منظر _ معکوس ھے۔ تیرتی ہوئی لہر یہاں عملی طور سے ساکت کر دی گئی، ساکت کنارہ حرکت میں آ گیا۔منظر بدل گیا۔ لیکن منظر کے معکوس ہونے یا حرکت پذیری کے بدلنے کا شا ہد نہ متحرک لہر ھے نہ ساکت کنارہ۔ بلکہ ان دونوں کے درمیان متاثر ہوتی شے یعنی فرد ھے۔ جیسے دھوئیں کے دھنک بننے کے عمل میں متاثر کرنے والی شے گھٹا۔ یہاں صرف گرامر کا مسلمہ اصول ہی نہیں خلل سے دوچار ھوا بلکہ فکر میں بھی رخنہ پڑا۔ شاید زکی نے ساکت کنارے کا تصور توڑ کر اُسے سفر کرتا دکھا دیا۔ یہاں اس کے ذکر کی قطعی ضرورت نہیں کہ شاعری کا ایک کام افکار کے تسلسل میں رخنہ اور قواعد کے مسلمات میں خلل ڈالنا بھی ھے۔
وہ قواعد کے اصولوں میں رخنہ ڈالتے ہیں تو بھی خوبصورت اظہارِ کی شکل بنتی ھے۔کردار اسم ھے۔ اسے ادا کرنے کی نسبت سے ظاہر کرتے ھیں مگر شاہد زکی اسے سیدھے فعل بناتے اور قبولیت بھی دلاتے ھیں۔

ڈوب جاؤں يوں کہ دریا پار بھی کرتا رہوں
یعنی اوجھل بھی ر ھوں کردار بھی کرتا رہوں۔

افکار اور اظہار میں معلوم اور مستعمل میں رخنہ ڈالتے ھوئے شاہد زکی تینوں زمانوں کو بھی پھینٹ دیتے ھیں۔

تیرے ماضی سے عیاں تھا ترا مستقبل بھی
میں ترے حال پہ حیرت نہیں کرنے والا

یہ مجھ کھنڈر میں جو آئند گاں کی خوشبو ھے
گزشت و رفت کے اسرار سے بھرا ھوا ھوں

یہ وقت کو تمام زمانوں میں یکساں زیر_ عمل لانے اور زمانہ کے اختصاص میں خلل ڈال کر فکر کی نئی پرتوں کو متحرک کرنے کا ایک منصوبہ بند مگر بھیدوں بھرا عمل ھے جس سے شاعری طلسم بن جاتی ھے۔ا سے اور زیادہ تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں مجموعے کی پہلی غزل ہی پورے کلام کا حیرتی ابتدائیہ پیش کر دیتی ھے۔

اگر دونوں طرف سورج ترازو میں نہیں ھوتا
ترا سایہ مرے سایہ کے پہلو میں نہیں ھوتا

وفا داری کا دعویٰ گریہ و زاری سے کیا ھونا
نمک جو خون میں ہوتا ہے آنسو میں نہیں ھوتا

ہر اک اُمید کو لازم ھے اک زرخیز مایوسی
اجالا رات میں ھوتا ھے جگنو میں نہیں ھوتا

تو کیا تم ہجر کے لغوی معانی میں مقید ھو
تو کیا تم کہ رہی ھو پھول خوشبو میں نہیں ھوتا

مجھے اچّھا کہاں لگتا ھے بیساکھی میں ڈھل جانا
مگر میرا شمار اب دست و بازو میں نہیں ھوتا

مجھے معلوم ھے کچھ راگ بے موسم نہیں ھوتے
مگر سا زینہ _ دل میرے قابو میں نہیں ھوتا

سہارا ھو نہ ھو میں ناؤ لے جاؤں گا ساحل تک
ہنر ملاح میں ھوتا ھے چپو میں نہیں ھوتا

مجھے درویش کے اس رمز نے زندہ رکھا شاہد
کہ زہر احساس میں ہوتا ہے بچھو میں نہیں ھوتا

مسافت منتظر ہے باپ کی پگڑی کے پیچوں میں
یہ وہ ادراک ھے جو ماں کے پلو میں نہیں ہوتا

غزل پڑھیں اور ایک کے بعد دوسرے طلسماتی منظر میں گم ہوتے جائیں۔ اس سوال کا بھی جواب تلاش کریں کہ شاہد زکی کی فکر و نظر میں یہ تغیّر كس بنا پر رونما ہوا کہ جس میں تبدیلی کا ہرکارہ معلوم سے نا معلوم کی طرف کہیں قائم ھو رھا ھے۔ کشتی رانی کے کسی بھی منظر میں حرکت اور تبدیلی کا ایجنٹ ہر حا ل میں پتوار ھوتا ھے۔لہروں اور ملاح کے بازو وں کے درمیان تحرک اور تبدیلی، منظر کے پیش اور پس میں نئے پن کی آمد ، تعطل سے نجات گویا سب کچھ پتوار کی حرکت سے بدلتا ھے مگر شاہد زکی اس منظر کے تواتر میں یہ کہ کر رخنہ ڈال دیتے ھیں کہ ہنر ملاح میں ہوتا ھے۔ گویا پٹوارما نجھی کے تصرف میں ھے۔ اجالا جگنو میں نہیں ، رات میں ھوتا ھے، زہر بچھو میں نہیں احساس میں ھوتا ھے۔ یہ محض شعری انفراد یا فکری اڑان کی بات ھے یا آج کے عہد میں افراد، ادارہ جات اور آلات سمیت انتظام و انصرام میں آتی ہوئی تبدیلیوں اور جگہ بدلتی ترجیحات کی گہری سمجھ سے پھوٹتی نئی فراست کا اشاریہ ھے۔
مجھے لگتا ہے کہ نئے ٹولز آف مینجمنٹ کے ادراک کی اتنی اعلیٰ سمجھ شاعری میں منتقل ہو کے یہ منظر نامہ کم جگہوں پر ترتیب دے رہی ھے۔ عہد_ حاضر کا ایک سچ یہ بھی ھے کے چیزیں بہت سی صورتوں میں اپنی اہمیت اور افادیت کھو رہی ھیں اور پس منظر سے اُبھر کر آتی ھوئی دیگر چیزیں وقوع پزیر ی میں اپنے حصہ کا برا بھلا رول انجام دینے کی اہلیت کا اعتراف کر ا ر ھی ھیں۔ شاید زکی کی غزلیہ شاعری دیگر چیزوں کے ساتھ بدلتے ہوئے منظر نامہ کا ا عترفیہ بھی ھے۔
اُن کے لفظیات میں ہندی کے الفاظ جیسے تھل، ماس، سمے اور وشواس وغیرہ کی موجودگی بھی حیرت زدہ کرتی ھے کہ کلام پر اتنی قدرت کے باوجود وہ ان غیر لفظوں کا سہارا کیوں لیتے ھیں مگر یہ شاید کسی مقامی لسانی رویہ کا اثر ہو سکتا ھے اور اُن کی غزل میں یہ الفاظ انکا حکم بجا لا تے ہوئے کھپ بھی جاتے ھیں۔
۔اس سے پہلے کہ ہم آواز حروف سے شروع ہونے والے لفظوں کی تکرار اور منظر _ معکوس اور مقام بدلتے ہوئے تبدیلی کے ہرکا روں کی جلوہ ساما نی سے مزید لطف لیا جائے شاید زکی کے یہاں نازک خیالی کی بھی ایک تصویر دیکھ لی جائے۔

یہ جو بادل ترے ہونٹوں کی طرف دیکھتے ھیں
مسئلہ یہ ھے کہ اک رنگ دھنک میں کم ھے

محبوب کے لب کی بناوٹ اور اس کے رنگ کے بیان سے متعلق بہت سے شعروں میں سے یہ شعر بہت آگے نکلا ہوا ہے کیونکہ اس میں قدرتی ست رنگی سچائی کے تسلسل کو نہ صرف خلل سے دوچار کیا گیا ہے بلکہ اس کا خوب صورت جواز بھی قائم کیا گیا ھے۔ ایسے شعر یعنی لب و رخسار کی حکایت بیان کرتے شعر شاہد زکی کے یہاں کم ھیں مگر ھیں تو اس پائے کے۔ ایک خوش گوار حسی کیفیت کے ساتھ اور فکر کو ایک پرت اوپر لے جاتی ہوئی اٹھان کے ساتھ بھی۔

بات چل رہی تھی ہم آواز حروف سے بنے الفاظ کی تکرار سے نغمگی اور معنویت میں اضافہ کی مشق کی۔ شاہد زکی کے غزلوں میں ایسے اشعار کی کثرت کوئی منصوبہ بند کاوش نہیں بلکہ ان کے لسانی رویہ اور نظام _ فکر کا لازمی اور لا ينفک جز ھے ۔ جن الفاظ کی تکرار ہوتی ھے وہ ثقیل اور ٹیڑھے الفاظ نہیں۔ نرم، ملائم، سہج اور سرل ھیں ۔غنائیت اور معنویت دونوں میں اضافہ کرنے کے اہل اور قاری کو سرسری گزر جانے سے روکتے ہوئے۔

یہاں بہت تلاش کے بغیر سامنے آتے ہوئے کچھ اشعار نقل کئے جا سکتے ہیں۔

شاید اجل بھی آئی خلاف _ خیال و خواب
جیسے ملی ھو زندگی خواہش کئے بغیر

زندگی بخش ھیں یاں پیڑ ، پرندے، پانی
باغ چھوٹا ہی سہی ، تھل سے کہیں اچّھا ھے

کیا کرے کوئی کنارہ کوئی کشتی شاید
کام ہی آپ نے جب ڈوبنے والا کیا ھے

میں بھی ستارہ وار سکوں کی تلاش میں
غار_ سیہ کی سمت گیا اور بجھ گیا

وہ میرا دل ھو کہ درویش ھو کہ دریا ھو
برائے نفع و خسارہ سفر نہیں کرتا

لیکن ان حاوی خصوصیات سے الگ شاہد زکی کی غزلوں میں زندگی کی وسعت، اس کی سمجھ ، نیا زاویہ _ فکر، شعروں میں نئے پیکر تراشنے کی کوشش اور اپنے عہد کے تقاضوں سے مطابقت کرنے کے عمل کی بہت سی پرچھائیا ں بھی کہیں پوری تصویر کو دھندلا کہیں زیادہ واضح کرتی جاتی ھیں۔

وہ خامشی جو کسی اور خامشی میں ڈھلی
کوئی سڑک تھی جو اگلی سڑک پہ ختم ھوئی

یہ شاہ کار کسی ضد کا شاخسانہ ھے
الجھ رھا تھا بہت نقش_ اولیں مجھ سے

زمیں کی اپنی بقا ھے ھرے درختوں میں
کسی کا دامن_ خالی کوئی نہیں بھرتا

تتلیاں بیٹھ گئیں آ کے مرے مرقد پر
جب مری میز سے گلدان اٹھایا گیا ھے

کیا کہوں قرب کی یہ کون سی منزل ھے جہاں
نہ میں دیتا ھوں تُجھے وقت نہ تو مانگتا ھے

دکھاؤں گا ٹری بے چہرگی تُجھے کسی دن
اور آئینہ بھی ترے رو برونہیں ھوگا

تُجھ کو اس دل کی سمجھ آئے گی آتے آتے
اجنبی شخص پہ تاخیر سے گھر کھلتا ھے

خامشی خامشی،سڑک سڑک،شاہکار , شاخسانہ،درخت دامن، مرقد میز: یعنی صوتی آہنگ ان میں سے کئی شعروں کی داخلی بافت میں اُن کے معلوم اضافی خصوصیات بن کر موجود ھیں۔ وہ شعروں میں دریافت کی منزلوں میں ھیں۔اسلوب کی سطح پر بھی اور احساس کی سطح پر بھی۔ اُن کے حسی کیفیات بہت نازک ہیں۔۔ شعروں میں ایک نئی دنیا آباد ہوتی رہتی ھے۔

کیا کہوں قرب کی یہ کون سی منزل ھے جہاں
نہ میں دیتا ھوں تُجھے وقت نہ تو مانگتا ھے

رشتہ_ رزق بس اک جسم پہ موقوف نہیں
نسل در نسل نوالے کا اثر کھلتا ھ ے

مرے خوں سے زیادہ تو مری مٹّی میں شامل ھے
تُجھے دل سے نکا لوں گا تو کس دل سے نکا لوں گا

تر س ر ھی ھے مری آگ سانس لینے کو
برس رھی ھے مسلسل کوئی گھٹا مجھ پر

کہا قبیلے نے کچھ اور مانگتا ھے تو مانگ
پھر اس نے بار _ دگر ہاتھ رکھ دیا مجھ پر

دل گرفتہ ھوں، شکستہ ھوں کہ وہ رستہ ھوں
جس پہ تم شہر کی تعمیر کئے جاتے ھو

پانی مجھے دم کر کے پلایا گیا شاہد
اور پار کیا میں نے طلسمات کا دریا

لگاتار خوب صورت اشعار سے جمکتی ھوئی بیشتر فعل کی رديفوں میں کہی گئی غزلوں کے تازہ کار شاعر شاهد زکی کے
موضوعات میں عمومی معاملات سے گریز ھے کیونکہ وہ زندگی اور زمانہ اور زمین کو زیادہ پھیلاؤ اور اٹھان میں مقدور بھر پورا دیکھنے پر مائل ھیں۔
جو عام موضوعات بعض شعرا کا حاوی رجحان بن جاتے ھیں اُن کی زد میں آکر بے دست و پا ھو جانے کی بجائے شاہد زکی اُن کو اتنا ہی برتتے ھیں جتنا وہ موضوعات زندگی پر اثر ڈالتے ھو ں ۔ جیسے مھجری اُن کا بھی موضوع ھے مگر سفر اور سکونت بھر۔

بستی سے رزق اٹھ گیا تو ہم بھی اٹھ گئے
ہجرت مثال_ مرگ تھی ٹالی نہیں گئی

اُن کے یہاں فکر و فن کا کمال گھوم پھر کے حسن _ بیاں کی طرف آتا اور اپنا اعتراف کر ا تا جاتا ھے۔
۔بہت سے شعر یہ بتانے کیلئے قطار بند ھیں کے شاہد زکی کی شاعری میں زندگی کی ریزہ ریزہ تفصیل اپنے بیان کی آسان اور رواں صورتیں تلاش کر لیتی ھے ۔
کہیں ” دیروز” جیسے تقریباً متروک کی شاندار واپسی کا اہتمام ھوتا ھے ، کہیں تکرار سے کیفیت جاگتی ھے کہیں زندگی کا تضاد نظر آتا ھے کہیں عشق و ہوس کا بیان آتا ھے ، کہیں طنز سے شاعر اپنے بیان کو مضبوطی دیتا ھے یعنی ہر صورتحال مسلسل روانی اور سلاست سے بیان ھوتی ہوئی ایک مکمل ھونے پر مائل بیانیہ کا حصہ بنتی جاتی ھے ۔

عجب عذاب ھے تجدید_ رشتہِ دیروز
نہ تھی وہ گھاؤ میں تکلیف جو رفو میں ھے

خدا تک آنے جانے کے کئی آسان رستے ھیں
اگر مشکل سے ھو انا ھے تو مشکل سے ھو آئیں

شاہد کھلا کہ سود بھی دکھ ھے زیاں بھی دکھ
تو نا رسائی سے میں رسائی سے خوش نہیں

لمحے ایسے بھی سر_ روح و بدن آتے ھیں
جب محبت میں ہوس ٹھیک نظر آتی ھے

یہ تو میں ھوں جو کنارے پہ سمٹ آتا ھوں
تو سمجھتا ھے کہ تو پار مجھے کرتا ھے

شاہد زکی کی غزل مزید وقت اور جگہ تلاش کرتی ھے کیونکہ ان کے رنگ غزل کی دھنک سے نکلے ھوئے بھی ھیں۔
معاشرہ میں کام اور فرائض کی تقسیم اور منقسم خانے میں سمٹے ھوئے کام کی انفرادی حیثیت و افادیت پر ان کا یہ بلیغ تبصرہ الگ سے ذکر میں آنے کا حقدار ھے

سنو یہ تیغ اٹھانا ہمارا کام نہیں
یہ وہ اٹھاتے ھیں جن سے قلم نہیں اٹھتا۔

جیسے

یہ شعر
کیوں کسی اور کا تھوکا ھوا فن چا ٹّٹے ھو
جب کسی اور سے بہتر نہیں لکھا جاتا

اُن کے یہاں خوب صورت، رنگا رنگ، تازہ اور پر اثر شعروں کی افراط ھے۔شاہد زکی عہد _ حاضر کے اُن باکمال غزل گو شعرا میں شمار کئے جانے
چاہئیں جو شعری تجربوں سے غزل میں اپنے نام کا پڑاؤ قائم ہوتا دیکھنے کے حقدار ھیں۔

ہمارے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 bit.ly/35Nkwvu

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS