ایک طرف جہاں ملک کی اقلیتوں کو یہ شکایت ہے کہ اقلیتی اسکالر شپ کیلئے مخصوص بجٹ میں ہر سال کٹوٹی کی جارہی ہے ، جس کی وجہ سے کم طلباکو اسکالرشپ ملتی ہے ۔دوسری طرف اقلیتی اسکالر شپ میںگھوٹالہ ہوگیا تو مستحق اقلیتی طلبا کوفائدہ کماحقہ فائدہ نہیں پہنچاہوگا، جو بھی ان کو فائدہ پہنچنے والا تھا، وہ غیرمستحق لوگ اور فرضی ادارے فائدہ اٹھاتے رہے۔ اقلیتی اسکالر شپ میں 144.83 کروڑروپے گھوٹالہ معمولی گھوٹالہ نہیں ہے، وہ بھی 5سال تک ہوتا رہااورکسی کو اس کی بھنک تک نہیں لگی ہوگی۔اتنے بڑے پیمانے پر پورے ملک میں یہ گھوٹالہ ہورہاتھااور مرکزی وریاستی حکومتیں بے خبرتھیں ۔ایک 2سال کی بات نظراندازکی جاسکتی ہے ، لیکن 5 سال تک گھوٹالے کی بات ناقابل فہم لگتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ فنڈجاری ہورہا تھا ، لیکن وہ کہاں خرچ ہورہا ہے ، کس کو دیا جارہا ہے اورکس کو نہیں دیا جارہا ہے ۔ اس کا کوئی حساب کتاب نہیں رکھا جارہا ہے ۔اقلیتوں نے بھی اس پر کوئی توجہ نہیں دی کہ ان کے نام پر مرکز اور ریاستوں کی طرف سے جو بجٹ الاٹ کیا جاتا ہے ، وہ ان پر خرچ ہورہاہے یا ان کا ناجائز فائدہ کوئی اوراٹھارہا ہے ۔اچھاہوا دیر سے ہی سہی وزارت اقلیتی امور نے اقلیتی اسکالر شپ کی داخلی جانچ کرالی ، جس کی وجہ سے اس کا پردہ فاش ہوگیا ۔ اب آگے سی بی آئی انکوائری میں قصوروار لوگوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ حیرت ہے کہ جن 1572 اقلیتی اداروں کے توسط سے اسکالر شپ تقسیم کی جارہی تھی ،ان میں سے 830فرضی اورغیر فعال پائے گئے اوران ہی میں گھوٹالہ ہوا ۔ ادارے ، مستفیدین، بینک اکائونٹس فرضی پائے گئے ،فرضی کا کھیل فارم بھرنے اوراداروں کے ذریعہ جمع کرنے سے لے کر نوڈل افسران کی منظوری،بینک اکائونٹس کھولنے اوران میں رقم ٹرانسفر کرنے تک ہورہا تھا۔ گھوٹالہ کا چینل بہت بڑا اورمنظم نظر آرہا ہے ۔تبھی تو گھوٹالہ آسانی سے ہورہا تھا ۔جب ملک کی 21ریاستوں کی جانچ میں اتنا بڑا گھوٹالہ سامنے آگیا تو اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ باقی بچی ریاستوں اورمرکز کے زیر انتظام علاقوں کی انکوائری میں یہ کتنا بڑا گھوٹالہ ہوگا ؟
1572میں سے 830ادارے فرضی ، اسی طرح 53فیصد مستحقین فرضی یعنی نصف سے زیادہ رقم غیر مستحقین پر خرچ ہورہی تھی ۔ویسے اس طرح کی جتنی بھی سرکاری اسکیمیں ہیں ، ان سب کا حال کم وبیش ایساہی ہے ۔اس سے قبل پی ایم کسان سمان ندھی کے تحت مستحق کسانوں میں تقسیم کی جانے والی رقم کی کئی ریاستوں میں انکوائری کرائی گئی تو ایسے ہی حالات کا پتہ چلا تھا ، مستفیدین میں بڑی تعداد غیرمستحقین کی تھی ، جن سے سرکار نے رقم وصول کرنے کا اعلان کیا ہے۔اقلیتی اسکالرشپ اسکیم سال 2007-8 میںشروع کی گئی تھی اورفی الحال ایک لاکھ 80ہزار اداروں کے مستحق طلبامیں تقسیم کرنے کیلئے دی جاتی ہے۔ ان میں سے صرف 1572اداروں کی انکوائری میں یہ حال ہے ، جب سبھی اداروں کی انکوائری کی جائے گی تو کیا حال ہوگا؟ سوال یہ ہے کہ فرضی ادارے نیشنل اسکالرشپ پورٹل اور یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن (یوڈی آئی ایس ای) پر اقلیتی اسکالر شپ کیلئے رجسٹرڈ کیسے ہوگئے ؟اورانہوں نے فرضی ناموں سے بینکوں میں اکائونٹس کیسے کھولوا لیا ؟جبکہ بینکوں میں شناختی اورایڈریس پروف ،آدھار کارڈ اورپین کارڈ کے بغیر کھاتہ کھولوانا یا ان کو جاری رکھنا گزشتہ 5برسوں میں آسان نہیں تھا، دوسری بات یہ ہے کہ سب کچھ فرضی ہونے کے باوجود نوڈل افسران اسکالر شپ کی درخواستیں کیسے منظورکرتے رہے ؟ اوراسکالر شپ کی رقم کیسے جاری کی جاتی رہی ؟شاید اسی لئے جانچ کے دائرے میں اداروں ، نوڈل افسران اوربینکوں کو بھی رکھا گیا ہے ، تاکہ پتہ تو چلے کہ کون کون اس گھوٹالہ میں ملوث ہے ؟
اقلیتی اسکالرشپ اسکیم اقلیتوں کیلئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والے بہت سے غریب طلبا اسی اسکالر شپ کی بدولت اپنی تعلیم جاری رکھ پاتے ہیں ۔ اگر یہ بند ہوگئی تو ان کیلئے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا ۔ناجائز فائدہ کچھ ہی لوگوں نے اٹھایا ہوگا ، لیکن بدنامی تما م اقلیتوں کی ہوگی ، اوران کے سامنے پریشانی کھڑی ہوگی۔یہ کہا جاسکتاہے کہ موجودہ وزارت اقلیتی امور نے اپنی ہی سرکار میں ہونے والے اس گھوٹالہ کا خود پردہ فاش کردیا۔اب سی بی آئی ان کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی ۔یہ تو اچھاہوا کہ دوسروں کے بولنے سے پہلے سرکار نے خود کارروائی شروع کردی۔ورنہ جتنابڑا گھوٹالہ ہے ،ہنگامہ بہت ہوتا ۔
[email protected]
اقلیتی اسکالرشپ میں گھوٹالہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS