سردار پٹیل کے نظریات کو لے کر کنفیوزن کی صورت حال رہی ہے۔ سیکولر طبقات اورمسلمانوں میں سردار پٹیل کی امیج ہندوتو کے تئیں نرم گوشہ رکھنے والے سیاستداں جیسی رہی ہے۔ کچھ لوگوںکی رائے ہے کہ پنڈت نہرو کے مقابلے میں سردار پٹیل زیادہ باعمل سیاست داں تھے۔ آر ایس ایس اس کنفیوژن کا فائدہ اٹھاتی رہی ہے۔ آرایس ایس کسی حد تک ایسے شخص کوجیتنے میں کسی حد تک کامیاب رہی ہے جس نے اس پر(آر ایس ایس پر) ہی پابندی عائدکردی تھی اور انہوںنے ہندو راشٹر کا تصور ہندوستان کی اساس اور ہندوستانیت کی روح کا قاتل قرار دیا تھا۔ آج کے دور میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کو نئے نقطہ نظر اور موجودہ حقائق کی روشنی میں سمجھنا ہوگا کیونکہ ان کو سمجھنے میں ذرا سی غلطی ایک اصل ہیرو کو ایسے حریف کیمپ میں دکھیل سکتی ہے جس کے پاس کوئی اپنا ہیرو نہیں ہے۔
دانشور، مصنف اور سیاست داں ڈاکٹر رفیق زکریا نے سردار پٹیل اور ہندوستانی مسلمانوںکی بابت ایک کتاب تحریر کی ہے۔ اس کتاب میں کئی ایسے واقعات پر روشنی ڈالی ہے جن پر خاموشی ہے۔ مثال کے طور پر، جب گاندھی جی نے خلافت تحریک میں کانگریس کی شمولیت کی بات کی، تو اس کی بہت سے لیڈروں نے مخالفت کی، مخالفت کرنے والوں میں محمد علی جناح بھی شامل تھے، جناح اس وقت کانگریس کے بڑے لیڈر تھے۔ لیکن اپنے روایتی ہندو عقائد کے باوجود پٹیل نے نہ صرف اس کی حمایت کی بلکہ وہ گجرات میں خلافت تحریک کے سب سے بڑے رہنما بھی بن گئے تھے۔ ایک تقریر میں پٹیل نے کہا کہ ہندوؤں کو خلافت کے سوال کی حمایت کیوں کرنی چاہیے۔ برطانیہ نے وعدے کے باوجود ترک سلطنت کو تقسیم کر دیا گیا۔ سلطان کو قسطنطنیہ میں قید کر لیا گیا۔ فرانس نے شام پر قبضہ کر لیا۔ سمیرنا اور تھریس کو یونان نے نگل لیا اور میسوپوٹیما اور فلسطین کو برطانیہ نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ عربیہ میں بھی ایک ایسا حکمران بنایا گیا جو انگریز حکومت کا حامی تھا۔ یہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ ہندو اپنے ہم وطنوں کو ایسی مصیبت میں دیکھ کر کس طرح لاتعلق رہ سکتے؟ (صفحہ 33)
اس تقریر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کو مسلم ممالک کی اندرونی سیاسی بے چینی اور عوامی جذبات کا کس قدر علم تھا۔ فلسطین کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کا ایک اشارہ یہاں بھی ملتا ہے جو اس وقت سے ہماری خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ درحقیقت یہ ایک عام ہندو ذہن کی فیاضی تھی جس نے دوسرے مذاہب کے اپنے ہم وطنوں کے دکھ میں ان کے ساتھ کھڑے ہونے کو اپنا مذہب سمجھا۔ ایک جگہ مصنف رفیق زکریا نے صحیح طور پر رام منوہر لوہیا کی کتاب ’گلٹی مین آف انڈیاز پارٹیشن‘ (Guilty Man of India’s Partition)کا حوالہ دیا ہے کہ سیاسی نظریات کے لحاظ سے سردار بلاشبہ اتنے ہی ہندو تھے جتنے مولانا آزاد مسلمان تھے۔ (صفحہ 123)
مسلمانوں کی نمائندگی کے سوال پر سردار پٹیل کی نظریات کا جائزہ لینے میں لارڈ ویول (1944تا1947)کے وائسرائے مقرر ہونے کے بعد اس نے اپنی ورکنگ کمیٹی میں کانگریس اور مسلم لیگ کے رہنماؤں کو شامل کرنے کی کوشش کی۔ کانگریس اس بات پر بضد تھی کہ وہ ایک مسلمان کو بھی اپنا نمائندہ نامزد کرے گی۔ جبکہ لیگ کا اصرار تھا کہ تمام مسلم اراکین کو منتخب کرنے کا حق صرف اسے ہونا چاہیے۔ مولانا آزاد اس مطالبے کو ماننے کے لیے تیار تھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں سر کرپس کو تحریری یقین دہانی بھی کرائی تھی لیکن سردار نے اسے مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو مستقبل میں کانگریس کے کسی مسلمان کو کوئی عہدہ یا ذمہ داری نہیں مل سکے گی۔ لیگ مسلمانوں کی جماعت ہو سکتی ہے لیکن کانگریس کے دروازے کسی مسلمان کے لیے بند نہیں ہوں گے۔ نہ ہی انہیں (مسلمانوں)کوکسی موقع یا عہدے سے محروم کیا جائے گا۔ (صفحہ 50)
سردار پٹیل کو عملی لیڈر کہنا کیوں مناسب ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مسلم لیگ سے مذاکرات کرنے کے بجائے کانگریس سے براہ راست مسلمانوں سے بات کرنا چاہتے تھے۔ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی کی فکر کیے بغیر وہ کہتے تھے کہ کانگریس والوں نے صرف غیر مسلموں کے درمیان کام کیا۔ اگر وہ خلوص نیت سے فرقہ وارانہ اتحاد کے لیے کام کریں تو پورے ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کا پرانا والا ماحول بحال ہوسکتا ہے۔
یہاں ہمیں سمجھنا چاہیے جیسا کہ راج موہن گاندھی کہتے ہیں کہ جہاں گاندھی ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کی نمائندگی کرنا چاہتے تھے اور کہتے تھے کہ ‘میں صرف ایک ہندو کے طور پر نہیں بول سکتا، میں صرف ایک ہندوستانی کے طور پر بول سکتا ہوں۔ سردار نے کبھی مسلمانوں کا نمائندہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ ہندو کی طرح بات کرنا اس کے لیے فطری معلوم ہوتا تھا۔ (صفحہ 52) لیکن اس سے کسی غیر ہندو کو کیا پریشانی ہوسکتی ہے؟ نہرو، گاندھی اور سردار میں یہی فرق تھا۔
دراصل جب ہم سیکولرازم کو مغربی عینک سے دیکھتے ہیں جس میں مذہب اور سیاست ایک دوسرے سے کافی دورہیں، تب ہی ہمیں سرداروں میں ہندوتوا کی طرف جھکاؤ نظر آتا ہے۔ کتاب کے تعارف میں، نانی پالکھی والا نے واضح طور پر جے پی، بائیں بازو کے ساتھ ساتھ آزاد جیسے عقلیت پسندوں کو اس عقیدے کے لیے مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ تاہم، ان کا دعویٰ ہے کہ آزاد، جنہوں نے اپنی کتاب ’انڈیا ونز فریڈم‘ (India wins Freedom) میں سردار کے بارے میں ایسی رائے کا اظہار کیا تھا، اپنے آخری دنوں میں اس نتیجے سے متفق نہیں تھے اور اس کی تصدیق ان کے پرسنل سیکریٹری ہمایوں کبیر نے ’دی اسٹیٹس مین‘(The Statesman) میں کی۔ 25 جولائی 1968 کو دیا گیا انٹرویو ملاحظہ کریں کتاب کے صفحہ 49 پر۔
اسی طرح جے پی کو بھی 20 سال بعد سردار پر لگایا گیا فرقہ وارانہ تعصب واپس لینا پڑا۔ (صفحہ 124)
درحقیقت سردار کے ذہنی میلان کو سمجھنے کے لیے سوشلسٹ رہنما مینو مسانی کی کتاب ’بلس واز اٹ ان دیٹ ڈان‘ (Bliss was it in that Dawn)کو پڑھنا ضروری ہوگا، جس میں وہ کہتی ہیں ۔ پٹیل بہت زیادہ باصلاحیت نہیں تھے۔ شاندار اور ہوشیار، نہ ہی وہ بڑے تھے وہ خواب دیکھنے والے تھے۔ وہ کسی بھی لحاظ سے ذہین نہیں تھے اور اس نوع کی کسی بھی خوبی یا خامی سے آراستہ نہیں تھے۔ میرے دوست یوسف مہرالی نے ایک بار کہا تھا کہ اگر پٹیل کسی ثقافت (Culture)کے بارے میں کچھ جانتے ہیں تو وہ زراعت (Agriculture)ہے۔ (صفحہ 124) دراصل سردار خالص دیسی انسان تھے۔ وہ طویل مباحثے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ آزاد نے اپنی کتاب ‘انڈیا ونز فریڈم’ میں یہ بات کئی بار بتائی ہے کہ جب بھی سردار صاحب کی میٹنگوں میں بولنے کی باری آتی تھی تو وہ یہ کہہ کر خاموش رہتے تھے کہ گاندھی جی کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ان کا بھی فیصلہ ہوگا۔
نظریاتی ایشوز پر عدم دلچسپی کی وجہ سے دوری نے شاید انہیں کچھ نیا سیکھنے سے روک دیا۔ مثال کے طور پر، ایک بار گاندھی جی نے پٹیل سے کہا کہ مسلمانوں کے دل و دماغ کو سمجھنے کے لیے انہیں اردو سیکھنی چاہیے، پٹیل نے اپنے انداز میں اس کے جواب میں کہا تھا -67سال گزر گئے، اب مٹی کا گھڑا ٹوٹنے ہی والا ہے۔بہت دیر ہوچکی ہے اردو سیکھنے میں ، پھر بھی کوشش کروں گا۔ (صفحہ 46)
درحقیقت سردار پٹیل کی دلچسپی کو مسائل کے حل کے عملی پہلو تک محدود رکھنا ان کی بڑی کمزوری تھی۔ ہندومذہب کے بارے میں بھی ان کا علم زیادہ گہرا نہیں تھا۔ انہوں نے گیتا، رامائن اور مہابھارت ضرور پڑھی ہوگی اور اپنے مذہب کی وراثت پر ہمیشہ فخر کیا تھا، لیکن وہ کبھی بھی عام دلچسپی سے آگے نہیں بڑھے۔ دراصل مہادیو دیسائی کے مطابق سردار نے ایک دن ان سے پوچھا کہ سوامی وویکانند کون ہیں؟ حیران ہو کر گاندھی جی کے سکریٹری نے انہیں اس لاعلمی پر سرزنش کی اور انہیں سوامی وویکانند کی سوانح عمری پیش کی جو روما رولنڈ نے لکھی تھی۔ (صفحہ 53)
اردو ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر آپ کسی کے نظریاتی موقف کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ وزارت اطلاعات و نشریات سردار پٹیل کی نگرانی میں تھی۔ پاکستان نے اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا جس کے بعد ہندوستان میں اردو سے نفرت بڑھ گئی تھی۔ آل انڈیا ریڈیو کے بنیاد پرست عناصر نے ہندی اور ہندی کے امتزاج کی بجائے سنسکرت کے غلبہ کے ساتھ ہندی کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پٹیل نے انہیں واضح ہدایات دیں کہ اردو کو کچھ صوبوں میں آل انڈیا ریڈیو اسٹیشنوں کی اہم زبانوں میں سے ایک زبان کے طور پر رائج اور تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم مسلمانوں اور پناہ گزینوں میں سیکولر ریاست اور ثقافت کے نظریات کی ترویج و اشاعت کے لیے آکاشوانی کو ایک طاقتور اور موثر ذریعہ بنانا چاہتے ہیں تو کچھ عرصے کے لیے ہمیں دہلی کے آل انڈیا ریڈیو کے پروگراموں کا ایک حصہ اردو میں کرنا چاہیے۔ (صفحہ 100)
اسی طرح انہوں نے محکمہ پبلی کیشنز کو ہدایت کی کہ وہ ایک فرسٹ کلاس اردو میگزین نکالے جو پاکستان کے بہترین میگزین کے مقابلے میں بہتر ہو۔
اسی طرح اردو ماہنامہ ’آجکل‘ کا جنم ہوا، جس نے اپنے پہلے شمارے سے ہی اردو صحافت میں اپنا منفرد مقام بنایا۔ (صفحہ 100)
لیکن سیکولر ہندوستان کے اہم امور کے نگراں کے طور پر سردار ولبھ بھائی پٹیل کا سب سے بڑارول ہمارے آئین کے یہ تین آرٹیکل ہیں۔
1- مذہب کی ترویج اور فروغ کا حق۔
2- زبان، رسم الخط اور ثقافت کے تحفظ کا حق۔
3- تعلیمی اداروں کے قیام اور ان کو چلانے کا حق۔
اقلیتوں اور بنیادی حقوق کے لیے بنائی گئی مشاورتی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے یہ تمام معاملات براہ راست ان کے تحت آتے تھے۔ ان موضوعات پر کمیٹی کے ارکان کے درمیان کافی گرما گرم بحث ہوئی، خاص طور پر غیر ہندوؤں کو مذہب کی تبلیغ کا حق دینے کو لے کر۔ عیسائی اور مسلمان اس بات پر اٹل تھے کہ تبلیغ ان کے مذہب کا ایک اہم حصہ ہے۔ لیکن ہندو اس حق کے سخت مخالف تھے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کے 1931 کے کراچی اجلاس میں بھی، جس کی قیادت سردار کر رہے تھے، صرف ’شہریوں کے آزادی سے اپنے عقیدے کے اظہار اور اس پر عمل کرنے کے حق‘ کی ضمانت دی گئی تھی، مذہب کے فروغ کی نہیں۔ سردار کے دو قریبی ساتھیوں کے ایم منشی اور پرشوتم داس ٹنڈن نے اس لفظ کے اضافے کی سخت مخالفت کی۔
جیسا کہ ان کی عادت تھی، سردار نے دونوں فریقوں کی رائے کو سنا، لیکن اپنی رائے نہیں دی۔ اس دوران اقلیتی ارکان کے ایک وفد نے نہروجی سے ملاقات کی اور مذہب کو پھیلانے کے ان کے حق کے بارے میں بات کی۔ نہرو نے ان کی بات سنی اور کہا کہ وہ منظم مذہب میں یقین نہیں رکھتے، اس لیے وہ مذہب کی تبلیغ کی دلیل کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ انہیں اس بارے میں پٹیل سے بات کرنی چاہیے۔ نہرو نے یقین ظاہر کیا تھا کہ پٹیل اقلیتوں کے جذبات کو زیادہ سمجھیں گے۔ جب وہ سردار سے ملے تو انہوں نے بہت تحمل سے ان کی بات سنی، انہوں نے نہرو کی رائے کے بارے میں معلوم کیا۔ انہوں نے ان ارکان کو یقین دہانی کرائی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سردار پٹیل نے سخت مخالفت کے باوجود آئین کے آرٹیکل 25 میں لفظ ’ترویج‘ کا اضافہ کرنے کے لیے اپنا وقار اور اثر و رسوخ داؤ پر لگا دیا۔
یہ بھی ان کی وجہ سے ہے کہ آئین ساز اسمبلی نے آرٹیکل 29 اور 30 کو منظور کیا۔ جس میں اقلیتوں کو اپنی الگ زبان، رسم الخط اور کلچر کے تحفظ اور اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق دیا گیا۔ آج بی جے پی سردار پٹیل کے دیے گئے ان تینوں حقوق کو چھیننے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہاں سیکولرازم کے اصول کے لیے نہرو اور پٹیل نے مشترکہ طورپر جدوجہد کی اس کوایک اور مثال سے سمجھنا ضروری ہو گا۔ نہرو نے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے کی تجویز اس وقت پیش کی جب شدت پسندانہ نظریات کے حامل پروشوتم داس ٹنڈن نے کانگریس صدر کے عہدے کے لیے نہرو کے امیدوار آچاریہ کرپلانی کو شکست دی۔ سردار نے راجہ جی اورمولانا آزاد کو ٹنڈن اور نہرو کے درمیان سمجھوتہ کرنے پر آمادہ کیا۔ پٹیل نے یہ بھی یقینی بنایا کہ ناسک میں ٹنڈن کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں فرقہ پرستی سمیت تمام مسائل پر نہرو کی طرف سے تیار کردہ قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا جائے۔ یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہو گا کہ پٹیل کو کچھ قریبی دوستوں نے مشورہ دیا تھا کہ نہرو کو ہٹاکر خود وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیں۔ ان لوگوں نے سردار پٹیل کو یقین دلایا کہ کانگریس پارٹی ان کے ساتھ ہے۔ اس پر پٹیل نے قہقہہ لگایا اور کہا، ’آپ ٹھیک کہتے ہیں، پارٹی میرے ساتھ ہے لیکن عوام ان کے ساتھ ہے‘۔
اس کتاب کو راج کمل پرکاشن نے شائع کیاہے۔ یہ کتاب 400روپے کی ہے۔ اس کو پڑھنا چاہئے۔ اس کتاب کو سمجھ کر ہمیں فرقہ پرست طاقتوں کو کمزور کرنے میں مدد ملے گی۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرکے انہوں نے ان کو اپناہیرو بنا لیا ہے۔