سنجے رائے
حال ہی میں سپریم کورٹ نے اعلیٰ ذات کے غریبوں کو 10 فیصد ریزرویشن دینے کے مرکزی حکومت کے فیصلے پر فیصلہ سنایا۔3-2کی اکثریت سے دیے گئے اس فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے حکومت کے فیصلے کو آئینی قرار دیا۔ 2019 میں جب مرکزی حکومت نے اونچی ذات کے غریبوں کو ریزرویشن دینے کے لیے پارلیمنٹ میں آئینی ترمیمی بل پیش کیا تھا تو اپوزیشن نے بہت ہچکچاتے ہوئے اس کی حمایت کی تھی۔ آزادی کے بعد ملک کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب حکومت نے سماج کے کسی بھی طبقے کو بغیر کسی تحریک کے ریزرویشن دیا تھا۔ اس فیصلے کے مخالفین کے موقف سے یہ صاف ظاہر تھا کہ اسے عدالت میں چیلنج کیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔دوسری طرف بلاس پور ہائی کورٹ نے19 ستمبر کو چھتیس گڑھ میں 58 فیصد ریزرویشن کو منسوخ کرنے کا فیصلہ سنایاہے جس کے بعد اب 2011 جیسا ریزرویشن کا نظام بن گیا ہے۔ اس کے مطابق درج فہرست قبائل کو ملا ہوا 32 فیصد ریزرویشن کم کرکے 20 فیصد کردیا گیا ہے۔ اسی طرح او بی سی ریزرویشن 14 فیصد اور ایس سی ریزرویشن13 فیصد سے بڑھا کر16 فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس کی مخالفت میں وہاں کے قبائلیوں نے تحریک شروع کر دی ہے۔
راجستھان کی اشوک گہلوت حکومت کے ایک وزیر نے او بی سی اور سابق فوجیوں کو دیے گئے ریزرویشن میں بے ضابطگیوں کو دور کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنی ہی حکومت کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر حکومت نے ان کا مطالبہ تسلیم نہ کیا تو وہ خود سوزی کر لیں گے۔ راجستھان میں جاٹ برادری ریزرویشن کے لیے پہلے ہی بڑے بڑے احتجاج کر چکی ہے۔ دوسری طرف مہاراشٹر میں مراٹھا برادری کو بھی ریزرویشن چاہیے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے اقتصادی طور پر کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے اونچی ذات کے غریبوں کے ریزرویشن کو قانونی حیثیت دینے کے بعد مراٹھا ریزرویشن کی لڑائی بھی تیز ہو گئی ہے۔ مہاراشٹر حکومت نے مراٹھا ریزرویشن کی قانونی لڑائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے تحت عدالت عظمیٰ سے جون 2021 کی نظرثانی درخواست پر سماعت کی درخواست کی گئی ہے۔ عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مراٹھا برادری دراصل پسماندہ ہے اور اس طرح کے ریزرویشن کی مستحق ہے۔ یہ نظرثانی درخواست2018میں گائیکواڑ کمیشن کی رپورٹ پر مبنی ہے۔ مندرجہ بالا تمام معاملات کے علاوہ سپریم کورٹ میں ہندو سے بدھسٹ بن چکے دلت سماج کے لوگوں اور مسلم سماج کی پسماندہ برادری کو بھی ریزرویشن دینے کی مانگ اٹھ چکی ہے۔ مسلمان اور عیسائی دلتوں کو درج فہرست ذات کے دائرے میں لانے کا معاملہ گزشتہ تین دہائیوں سے مرکزی حکومت کے پاس زیر التوا ہے۔ یہ معاملہ گزشتہ 18 برسوں سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
آئین (ایس سی) آرڈر،1950 کے مطابق، ہندو یا سکھ مذہب یا بدھ مت کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کو ماننے والے شخص کو درج فہرست ذات کا رکن نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فی الحال صرف ہندو، سکھ اور بدھ مذاہب کے درج فہرست ذات(ایس سی)سے تعلق رکھنے والے لوگ ریزرویشن اور دیگر سہولتوں کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسے ستم ظریفی ہی کہا جائے گا کہ ایک طرف تو سیاسی جماعتیں ملک میں ریزرویشن کے مطالبے کو ہوا دینے کا کام کر رہی ہیں اور دوسری طرف تعلیمی نظام کی تیزی سے نجکاری کی جا رہی ہے اور سرکاری ملازمتوں میں مسلسل کٹوتی کی جا رہی ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے من مانے طریقے سے فیسوں میں اضافہ کر رہے ہیں اور سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار مسلسل گرتا جا رہا ہے۔یہاں تک کہ پرائیویٹ کمپنیوں میں بھی لوگوں کو نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے۔ کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اب انسانوں کی جگہ روبوٹس بحال کرنے کے منصوبوں پر کام شروع کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ سرکاری ادارے ہوں یا پرائیویٹ ادارے، ہر جگہ نوکریاں کم ہو رہی رہی ہیں۔ ایسے میں ریزرویشن کا اصل مقصد پورا نہیں ہو رہا ہے۔
اس تناظر میں معاشی طور پر پسماندہ اعلیٰ ذاتوں سے متعلق حالیہ فیصلے میں دو ججوں کی باتوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔ دونوں ججوں نے مذکورہ فیصلے میں ریزرویشن کے لیے وقت کی حد کی ضرورت کے حوالے سے بہت اہم باتیں کہی ہیں۔ اپنے فیصلے میں جسٹس بیلا ایم تریویدینے کہا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہندوستان میں ذات پات کے نظام کی ابتدا کے لیے ملک کا پرانا ذات پات کا نظام ذمہ دار تھا لیکن پسماندہ برادریوں کے ساتھ تاریخی ناانصافیوں کو دور کرنے کے لیے ریزرویشن متعارف کرایا گیا تھا، تاہم اب ریزرویشن سسٹم پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
جسٹس جے بی پاردی والا نے کہا کہ ریزرویشن غیر معینہ مدت تک جاری نہیں رہ سکتا تاکہ ذاتی مفادبن جائے۔ انہوں نے کہا کہ ریزرویشن کوئی اختتام نہیں بلکہ سماجی اور معاشی انصاف کو محفوظ بنانے کا ذریعہ ہے اور اس کا اصل حل ان وجوہات کو ختم کرنے میں مضمر ہے جس کی وجہ سے کمزور طبقات تعلیمی اور سماجی طور پر پسماندہ ہوئے ہیں۔ جج کے مطابق، ایک طویل عرصے میں تعلیم کی ترقی اور توسیع نے کلاسوں کے درمیان فرق کو کافی حد تک ختم کرنے میں مدد کی ہے۔مندرجہ بالا حقائق پر غور کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ ملک میں ریزرویشن سیاست کا ہتھیار بن چکا ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس ہتھیار نے معاشرے میں عدم مساوات کو ہی بڑھایا ہے۔ ریزرویشن کی آڑ میں تعلیمی اداروں اور سرکاری محکموں میں میرٹ کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہ آئین کا سہارا لے کر سماج کے ایک طبقے کے ساتھ ناانصافی کرنے کا ایک ایسا آلہ بن گیا ہے جسے ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اگر ریزرویشن سسٹم کے سہارے سماجی مساوات کا مقصد حاصل کرنا ہے تو اسے معاشی بنیاد میں تبدیل کردیا جائے۔ غریب چاہے کسی بھی مذہب،ذات یا عقیدے کا ہو، اسے اچھی تعلیم دینے کا انتظام حکومت کرے اور اس قابل بنائے کہ وہ دوسرے سے مسابقت کرنے کا اہل بن سکے۔
اہلیت کو نظر انداز کر کے ریزرویشن کی مدد سے نااہل شخص کو اونچے عہدوں پر بیٹھانے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے نہ تو معاشرے کا فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی ملک کا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریزرویشن کا فائدہ حقیقی ضرورت مندوں تک نہیں پہنچتا۔ بس کچھ ملائی کھانے والے لوگ اس کا فائدہ اٹھاتے آرہے ہیں۔آئین ساز بابا صاحب آمبیڈکر نے بھی کہا تھا کہ ریزرویشن کو کچھ وقت کے لیے نافذ کیا جانا چاہیے۔ وہ جانتے تھے کہ ریزرویشن بعد میں ناسور بن سکتا ہے، اس لیے انہوں نے اسے کچھ برسوں کے لیے نافذ کیا تاکہ کچھ پسماندہ لوگ بھی اسی دھارے میں آ سکیں۔ حکومت ایک نئے ہندوستان کی تعمیر چاہتی ہے۔ دس سال سے دیا گیا ریزرویشن سیاست کا تحفہ بن گیا ہے۔ ملک کے مختلف طبقات جس طرح ریزرویشن کا مطالبہ کر رہے ہیں اور سیاسی پارٹیاں اپنی بنیاد بڑھانے کی آڑ میں جس طرح اس کی حمایت کر رہی ہیں، وہ ملک کے مفاد میں بالکل بھی نہیں ہے۔ ریزرویشن کے لیے ہونے والی تحریک کی آگ میں ملک کو کئی بار جھلسنے سے بچایا جا چکا ہے۔ جتنی جلدی اس ناسور کا علاج کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔rvr