سہارا تبصرہ : کتاب : سرحد ادراک

0

کتاب : سرحدادراک
ناول نگار : ڈاکٹرنفیس بانو(6390850063)
صفحات : ١٨١قیمت:250/-
ناشر : عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی95-
ملنے کا پتہ : مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، اردوبازار، جامع مسجد، دہلی6-
کتب خانہ انجمن ترقی، جامع مسجد، دہلی6-
تبصرہ نگار : عمرکوٹی ندوی
اس وقت علمی دنیا خاص طور پر اردو ادب میں تنقید کے نام پر تنقیص وہجو کا جو چلن بڑھتا جارہاہے، اس کے درمیان قلم کو بحث و تحقیق تک محدود رکھنا اوراس کی سرحد کا ادراک کر پانا مشکل امر ہے۔ لیکن اس مشکل کو ڈاکٹر نفیس بانو اپنے زیرنظر مضامین کے مجموعہ ’سرحد ادراک‘ میں تحقیق و تنقید سے گہرا شغف رکھنے کی وجہ سے آسان بناتی نظر آتی ہیں۔ یہ بات کتاب پرسرسری نگاہ ڈالنے سے ہی واضح ہو جاتی ہے۔
زیرنظرکتاب میں میرتقی میر پر دومضامین ہیں جن میں ان کی قدروقیمت کا تعین کیا گیا ہے اس کے ساتھ ہی جدت پرستوں کی طرف سے ان پرعائد کردہ مایوسیوں کے شاعر ہونے کے الزام کی نفی بھی کی گئی ہے۔ان میں بتایاگیاہے کہ میر کے اشعارجذبات انسانی کی تفسیرہیں، ان میں اپنے دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں، وہاں دردمندی، سوزوگداز، خلش سب کچھ ہے۔ زندگی کی حقیقت بھی اورتصوف کی طرف بے انتہامیلان بھی ہے۔ غالب کی شاعری اورجدید غزل پر ان کے اثرات پربات کرتے ہوئے مصنفہ اس پہلو کو نمایاں کرناضروری سمجھتی ہیں کہ ان کی شخصیت میں انسان دوستی کا پہلو بہت روشن ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ’’ یہ پہلو ان کے وسیع تصور کائنات کی دین ہے۔ ان کی شاعری پر الفاظ ومعنی کے دبیز پردے پڑے ہیں تاہم ان کی انسان دوستی کا پرتو کہیں نہ کہیں جھلک جاتا ہے‘‘۔ کتاب میں دوارکاپرساد افقؔ کی حب الوطنی کا جذبہ بھی اپنی کونپلیں نکالتا ہوا نظر آتاہے۔ ’’افق نے اپنی شاعری میں وقت کے تیور کو پہچانا، ہندستانیت اور عصری حسیت کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ مذہبی رواداری، ہندو مسلم اتحاد اور انسان دوستی کے موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دی…قوم میں بیداری کی لہر پیدا کرنے کے لئے انہوں نے قومی وسیاسی موضوعات وعصری مسائل پر قلم اٹھایا‘‘۔
علامہ اقبال کے فکروفن پرتحریرکردہ مضمون میں مصنفہ برملا اس کا اعتراف کرتی ہیں کہ ’ان کی فکربسیط ہماری سرحد ادراک سے پرے ہے۔‘ ان کی شاعری کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ ’’علامہ اقبال کی شاعری سوزوساز اور پیچ وتاب کی کشمکش سے عبارت ہے۔ یہی کشمکش اقبال کی فکر اور تجدیدفکر کا خاص حصہ بن کر ابھرتی ہے۔ اقبال کا عہد روحانیت پر مادیت کی بالاستی کا شکار تھا۔ وجدان تعقل اور تفکر کے نرغے میں سسک رہا تھا‘‘۔ چکبست کے مقام اور شعروفن پر ان کے گہرے اثرات کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ ’’چکبست کی شعری روایت نے جوش کی آواز میں گھن گرج بھردی اور مجاز کو انقلابی آہنگ دیا…اس سرزمین میں قومی شاعری کے پھول کھلا کر دل ودماغ کو تازگی بخشی‘‘۔ میکش کے تصوف سے رشتہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ’’ کہیں خالص تصوف کی نیرنگیاں ہیں، کہیں تصوف پر تغزل کا غلبہ ہے اور کہیں خالص تغزل کی گلکاریاں ہیں‘‘۔ رشیداحمدصدیقی کے طنزومزاح پر بات کرنے کے ساتھ مضمون میں ان کی غزل کی مزاج شناسی کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ’غزل کے تہذیبی وتخلیقی رو یے‘ پر تحریر کردہ مضمون بھی لائق مطالعہ ہے جو اس صنف کے نئے جہات کو اپنا موضوع بناتاہے۔
کتاب کی مصنفہ وارانسی کے وسنت کالج میں اردو شعبہ سے وابستہ ہیں اور تدریسی فرائض انجام دے رہی ہیں۔درس وتدریس کے ساتھ ساتھ علمی سرگرمیوں اورتحقیق وتنقید سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی ’سرسید کے فکری زاویے‘ اور’ تہذیب الاخلاق: تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘ جیسی دیگر مطبوعات نے بھی توجہ حاصل کی ہے ۔کتاب میں شامل پروفیسر قاضی جمال حسین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،کی مصنفہ کے فن اور شخصیت پر تحریر کردہ سطریں گوکہ چند ہیں لیکن اختصار کے باوجود ان کے علمی ذوق، لیاقت اور مقام کا بہت خوبصورتی سے تعارف کراتی ہیں۔زیر نظران کی کتاب موضوع، شخصیات اور مواد کے ساتھ ساتھ زبان وبیان کے اعتبار سے بھی اہم ہے۔ اس کی زبان شگفتہ اوراسلوب دل نشیں ہے، توقع کی جانی چاہئے کہ یہ علم وادب سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گی۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS