تعلیم کا بھگوا کرن کوئی نئی مہم نہیں

یہ آزادی کے بعد سے ہی شروع ہو گئی تھی،مگر یہ ملک کو کہاں لے جائے گی یہ لمحۂ فکریہ ہے

0

عبیداللّٰہ ناصر

تعلیم کے بھگوا کرن کی مہم کو آگے بڑھاتے ہوئے سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن(سی بی ایس ای) نے ناوابستہ تحریک سرد جنگ افریقی ایشیائی خطہ میں مسلم حکومتوں کے عروج مغلیہ دور اور صنعتی انقلاب سے متعلق چیپٹر کو ہٹا دیا گیا ہے، اسی طرح درجہ دس کے نصاب سے غذائی تحفظ، زراعت پر گلوبلائزیشن کے اثرات کے ساتھ ہی مذہب، فرقہ واریت، سیاسی فرقہ واریت اور سیکولر ریاست جیسے چیپٹر بھی ہٹا دیے گے ہیں۔ یہ اسباق کیوں ہٹائے گئے اس کی وجہ سمجھنے کے لیے کوئی خلائی سائنس پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ چیپٹر جواہر لعل نہرو کے ذکر، مسلم حکومتوں کے عروج مغلیہ دور کے ہندوستان سے متعلق ہیں اور ان سب کو لے کر آر ایس ایس کا ایک خاص نظریہ ہے جسے وہ اب نوجوانوں کو گھول کر پلانا چاہتی ہے۔ آر ایس ایس ایک ایسی نسل تیار کرنا چاہتا ہے جو آنکھ بند کر کے اس کی باتوں کو، اس کے نظریہ کو، اس کی گڑھی تاریخ کو بنا چون وچرا، بنا سوال جواب، بنا تصویر کا دوسرا رخ دیکھے تسلیم کرلے۔ وہ ہندوستانیوں کو بھیڑ کے ریوڑ میں تبدیل کر دینا چاہتی ہے جو سر جھکائے بس اس سمت چلتا رہے جس طرف وہ اسے ہانک دے۔ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ، آزاد خیال اور سیکولر سماج کے بجائے وہ اسے انحطاط پذیر، رجعت پسند، مذہبی جنون میں مبتلا سماج میں بدل کر ہندو مذہب کی بالا دستی قائم کرنا چاہتا ہے۔
اپنے نظریات کی تشریح، انہیں عوام میں قابل قبول بنانے اور اس کے ذریعہ اپنے سپنوں کا ہندوستان جو ہندوراشٹر ہو، بنانے کے لیے آر ایس ایس نے قلیل اور طویل مدتی دونو ں طرح کی منصوبہ بندی کی تھی اور اپنے قیام سے لے کر اب تک یعنی ایک صدی سے وہ اس پر کار بند ہے۔ آج جو سیاسی اور سماجی سطح پر اس کے نظریات کامیاب ہو رہے ہیں، ان کے پس پشت سنگھ کی یہی منصوبہ بندی، اس کے کارکنوں کی محنت، لگن، دلجمعی اور اپنے مقصد کے تئیں ایمانداری ہی ہے۔یہ بات الگ ہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے اس نے جو راستہ اختیار کیا، اس کا اخلاقیات، سماجی ذمہ داری اور حب الوطنی سے دور دور تک تعلق نہیں ہے۔ لیکن جب نظریات ہی غلط ہوں، خواب بھی غلط ہوں تو ان کے حصول کا راستہ بھی اگر غلط ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔
جنگ آزادی کے دوران مستقبل کا ہندوستان کیسا ہوگا، اس کو لے کر دو نظریات کام کر رہے تھے۔ اس زمانہ کے نام نہاد مسلم لیڈروں کی ناعاقبت اندیشی اور مسلم ایلیٹ طبقہ، زمیندار، تعلقدار، نواب، افسران اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنا مفاد سوشلسٹ سیکولر ہندوستان میں جس کی تعمیر کا اعلان کانگریس نے آزادی سے کافی پہلے ہی کر دیا تھا، انہیں محفوظ نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے علاوہ کئی دیگر سیاسی اور سماجی حالات تھے جس کی بنا پر پاکستان بن گیا، اس کے بعد ہندوستان کے لیے صرف دو ہی راستے بچے تھے، ایک راستہ مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو، مولانا آزاد، ڈاکٹر امبیڈکر اور سردار پٹیل یعنی کانگریس کا تھا جو سیکولر سوشلسٹ آئینی جمہوریت پر مبنی تھا، دوسرا راستہ ساورکر، گولوالکر، مکھرجی کا ہندو راشٹر کا راستہ تھا۔ جنگ آزادی کے آدرشوں، اصولوں اور مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو، امبیڈکر ،آزاد، پٹیل جیسے قدآور لیڈروں کی موجودگی میں آر ایس ایس کے نظریات عوام کو قابل قبول نہیں تھے۔ گوڈسے کے ہاتھوں مہاتماگاندھی کے قتل کے بعد تو وہ ہندوستانی سماج میں اچھوت ہی ہو گئی تھی لیکن اس نے اپنا مشن ایک لمحہ کے لیے بھی نظر انداز نہیں کیا تھا اور آزادی کے بعد جس طرح بھی ہو سکا اپنے آدمیوں کو سسٹم میں داخل کرایا۔ خود کانگریس میں بھی اس کے نظریات سے متاثر لیڈروں کی کمی نہیں تھی جو اس کی کبھی کھلے عام اور اکثر درپردہ مدد کرتے رہتے تھے۔ آر ایس ایس نے اپنے نظریات کی تشریح کے لیے تعلیم کے نصاب میں مداخلت کا سلسلہ آزادی کے فوری بعد شروع کر دیا تھا۔ اردو کو دیش نکالا اور دیو مالائی قصوں، کہانیوں اور شخصیات کو نصاب میں شامل کرنا اس مہم کی ابتدا تھی اور اترپردیش سمیت ہندی بیلٹ کے کا نگریسی نیتاؤں نے اسے پنپنے دیا۔ ابتدا میں نصاب کی کتابوں میں کچھ اسباق مسلم شخصیات خاص کر بزرگان دین کے بارے میں ہوتے تھے لیکن بتدریج انہیں نصا ب سے باہر کیا جاتا رہا تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو لے کر نئی نسل میں جو بدگمانیاں آر ایس ایس پیدا کرنا چاہتا ہے، اس کو رد کرنے کی صلاحیت ہی نئی نسل میں نہ ہو اور جس طرح سے چاہے سنگھ اسلام اور مسلمانوں نیز مسلم دور حکومت کے خلاف کچے ذہنوں کو زہر آلود کرسکے۔ آج ہندوستانی سماج میں مسلمانوں، اسلام اور مسلم دور حکومت کو لے کر جو جھوٹ، فریب اور بدگمانی دکھائی دیتی ہے، وہ آر ایس ایس کی اس مہم کا ثمرہ ہے جسے کامیاب کرنے میں سنگھی کا نگریسیوں نے اپنا تاریخی کردار ادا کیا تھا۔ پنڈت گوبند بلبھ پنت، بابو سمپورنانند، پروفیسر واسدیو سنگھ یہ سب نہ صرف اردو کے قاتل ہیں بلکہ نصاب تعلیم کے بھگوا کرن کی اگلی صف کے سپاہی تھے، ان کی حرکتوں سے عاجز آ کر ہی پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ لگتا ہی نہیں اترپردیش میں وہی کانگریس ہے، میں بھی جس کا ممبر ہوں اور جسٹس آنند نرائن ملا نے پنڈت نہرو سے کہا تھا، پنڈت جی بھگوان کرشن کی طرح آپ اکیلے ہی پانڈوون( سیکولر سوشلسٹ آئینی جمہوریت کا نظریہ) کے ساتھ ہیں جب کہ آپ کی پوری فوج کوروون(ہندو راشٹر کا نظریہ) کے ساتھ ہے۔
اس زمانہ میں جہاں ایک طرف دھیرے دھیرے نصابی کتابوں میں سنگھیوں کے ذریعہ دیو مالائی قصہ کہانیاں اور شخصیا ت کو داخل کیا جا رہا تھا، وہیں جواہر لعل نہرو اپنے وزیر تعلیم مولانا آزاد کی سربراہی میں آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم سی ایس آئی آر اور دیگر تحقیقاتی و سائنسی ادارے قائم کر کے ہندوستانی نوجوانوں کو سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھا رہے تھے جو نئے ترقی یافتہ خود کفیل ہندوستان کی بنیاد رکھتے۔
کانگریس کے اس دائیں بازو کے سنگھی طبقہ کو پنڈت نہرو کنارے نہیں لگا سکے لیکن اندرا گاندھی نے ان سب کو سیاسی موت دے دی تھی مگر ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کی اندھی کانگریس دشمنی نے ان کو نہ صرف سیاسی اور سماجی عزت دی بلکہ اقتدار میں بھی شرکت کا موقع دیا اور ان کی چاندی ہوگئی، تعلیم اور پولیس محکمہ میں تو وہ پہلے سے ہی اپنے آدمی داخل کرچکے تھے، اب انہوںنے عدلیہ، صحافت اور دیگر سبھی شعبوں میں اپنے آدمی داخل کر دیے اور اس کے ساتھ ہی نصاب کے بھگوا کرن کا سلسلہ اور بھی زور شور سے جاری رہا اور جب مرکز میں اٹل جی کی سرکار بنی تو اس نے دیگر تمام شعبوں میں اعتدال پسندی کا دکھاوا ضرور کیا لیکن بیسک سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کے نصاب کے بھگوا کرن کی مہم ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کی قیادت میں پوری طاقت اور صلاحیت سے چلائی مگر بیچ میں پھر اس کی مہم ڈھیلی پڑگئی۔ نرسمہا راؤ کی قیادت میں کانگریس کی جو سرکار بنی، اس میں وزارت فروغ انسانی وسائل کا ذمہ ارجن سنگھ کو ملا، انہوں نے نصاب کے بھگوا کرن کی تطہیر بڑے پیمانہ پر کرائی۔ ان کا دوسرا انقلابی قدم اعلیٰ اور تکنیکی تعلیم کے کورسوں میں پسماندہ طبقوں کو ریزرویشن دینا تھا ۔
ان حقائق اور تاریخی واقعات کو یاددلانے کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ آج نصاب کے بھگوا کرن کی جو مہم مودی سرکار پوری ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ چلا رہی ہے، یہ کوئی نئی مہم نہیں ہے،مگر اس کے جو اثرات بد ہوں گے وہ ہندوستانی سماج، ملک اور قوم کے لیے بہت نقصان دہ ہوں گے۔ آپ تصور کیجیے کہ ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے، ظاہر ہے زیادہ سے زیادہ نوجوان تعلیم یافتہ ہو رہے ہیں، وہ پوسٹ گریجویشن کے بعد پی ایچ ڈی بھی کرنا چاہیںگے لیکن جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ریسرچ کی سیٹیں اسّی فیصد تک کم کر دی گئی ہیں اور فیس میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا گیا جبکہ اس یونیورسٹی میں بہت معمولی فیس دے کر غریب سے غریب طالب علم بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتا تھا۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کے پروفیسر گائے کے گوبر سے اپلا پاتھنے کا ہنر سکھا رہے ہیں، کینسر اور تابکاری کا علاج گائے کے گوبر اور پیشاب سے کیسے کیا جائے، یہ سکھایا جا رہا ہے۔توہم پرستی سے نکالنے اور سائنسی مزاج پیدا کرنے کی جو بات آئین ہند میں کہی گئی ہے، اس کا روز مذاق ہمارے بڑ ے سے بڑا سائنسداں اور ہمارے وزرا اکثر اڑا تے رہتے ہیں۔ بھگوان گنیش کو پلاسٹک سرجری، سیتا ماں کو ٹیسٹ ٹیوب بے بی، پشپک ومان کو ہوائی جہاز بتا کر یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ یہ تمام سائنسی دریافت ہمارے یہاں زمانہ قدیم سے ہی موجود تھیں۔ہمارے بچوں کو کنویں کا مینڈھک بنانے کی یہ مہم ملک کا کیامستقبل کرے گی، یہ سوچ کر ہی افسوس ہوتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS