مولانا ندیم احمد انصاری
ٔ صدقہ فطر دراصل اللہ تعالیٰ کے ان بندوں کی عیدی کا سامان ہے جو معاشی حالت کے اعتبار سے کمزور ہیں تاکہ وہ بھی عید کے دن سب کے ساتھ خوشیاںمنا سکیں۔ دوسری طرف اس میں ادا کرنے والوں کے لیے اپنی کمیوں و کوتاہیوں کا کفارہ بھی ہے۔ یعنی وہ مال جسے مسلمان عید کے دن اپنے آپ کو پاک کرنے کی نیت سے مسلمان محتاجوں کو دیتے ہیں، جس سے روزے میں پیدا شدہ خلل جیسے لغویات یا فحش باتوں وغیرہ کی تلافی مقصود ہوتی ہے، اسے صدقۂ فطر کہتے ہیں۔ صدقۂ فطر ایک عبادت ہے جس کی ادایگی میں اظہارِ مسرت کے ساتھ غْربا کی امداد بھی مقصود ہے اور روزے میں جو کچھ کوتاہی سرزد ہوئی ہے، اس کا کفارہ بھی ہے۔ علاوہ ازیں سکراتِ موت کے وقت آسانی اور عذابِ قبر سے نجات اس میں مضمر ہے۔ جو شخص صاحبِ نصاب نہ ہو یعنی جس پر صدقۂ فطر واجب نہ ہو، وہ بھی ادا کرکے فضیلت حاصل کر سکتا ہے (فتاویٰ رحیمیہ)۔
صدقۂ فطر کیا اور کیوں؟
سعید بن مسیب اور عمر بن عبد العزیز کہا کرتے تھے کہ آیتِ قرآنی ’’قَد اَفلَحَ مَن تَزَکّٰی‘‘ (الاعلیٰ) میں ’تزکی ‘سے یہی صدقۂ فطر مراد ہے۔چناں چہ عام فقہا نے صدقۂ فطر کو زکوۃ ہی کی طرح فرض قرار دیا ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ نے صدقۂ فطر کو لغو اور بیہودہ بات سے روزے کو پاک کرنے اور مسکینوں کی پرورش کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ جو شخص نمازِ عید سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرے گا وہ قبول کیا جائے گا اور نماز کے بعد بھی ادا کرے گا تو وہ بھی ایک صدقہ ہوگا دوسرے صدقات کی مانند(ابوداؤد)۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ نے صدقۂ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو، غلام اور آزاد، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے (غرض یہ کہ ہر) مسلمان پر فرض کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ نماز سے نکلنے سے پہلے اسے ادا کردیا جائے (بخاری)۔اصل تو صدقۂ فطر کی مقدار یہی ہے کہ ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو دیا جائے، جیسا کہ بخاری شریف کی مذکورہ بالا حدیث میں گزرا۔ البتہ بعد میں حضرات صحابہ وغیرہ نے دوسرے اناجوں میں سے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو کی قیمت کے برابر دینے کو جائز قرار دیا ہے۔
وہ مال جسے مسلمان عید کے دن اپنے آپ کو پاک کرنے کی نیت سے مسلمان محتاجوں کو دیتے ہیں، جس سے روزے میں پیدا شدہ خلل جیسے لغویات یا فحش باتوں وغیرہ کی تلافی مقصود ہوتی ہے، اسے صدقۂ فطر کہتے ہیں۔ صدقۂ فطر ایک عبادت ہے جس کی ادایگی میں اظہارِ مسرت کے ساتھ غْربا کی امداد بھی مقصود ہے اور روزے میں جو کچھ کوتاہی سرزد ہوئی ہے، اس کا کفارہ بھی ہے۔
صدقۂ فطر واجب ہونے کی شرطیں
جس شخص میں درجِ ذیل تین شرطیں پائی جائیں اس پر صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے:(۱)مسلمان ہو(۲)آزاد ہو، غلام پر صدقۂ فطر واجب نہیں(۳)قرض اور اصل ضروریات اور اہل و عیال کی ضروریات کے علاوہ نصاب کا مالک ہو، لہٰذا اس شخص پر جو قرض اور حوائجِ اصلیہ سے زائد نصاب کا مالک نہ ہو، اس پر صدقۂ فطر واجب نہیں(دار قطنی)۔یعنی جس آزاد اور مکلف مسلمان کے پاس لازمی ضروریات کے علاوہ اتنی قیمت ، یا اتنی قیمت کا مال ہو، جس پر زکوٰۃ واجب ہوسکے، اس پر صدقۂ فطر ادا کرنابھی واجب ہوتا ہے۔ صدقۂ فطر اور زکوٰۃ کے و جوب میں یہ فرق ہے کہ زکوٰۃ میں مالِ نامی ہونا لازمی ہے اورصدقۂ فطر میں یہ ضروری نہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ اس وقت واجب ہوتی ہے، جب کہ مال پرپورا سال گزر جائے اور صدقۂ فطر سال گزرنا شرط نہیں۔اگر کسی کے پاس ایک شوال کی صبح صادق طلوع ہونے کے وقت اتنا مال موجودہو تو اس پر صدقۂ فطر واجب ہو جائے گا البتہ صدقۂ فطر میں بھی زکوٰۃ کی طرح مال کا قرض اور ضرورتِ اصلیہ سے زائد ہونا ضروری ہے ورنہ صدقۂ فطر واجب نہیں ہوگا(مراقی الفلاح مع الطحطاوی )۔مندرجہ ذیل چیزیں حوائجِ اصلیہ میں داخل ہیں:(الف) رہائشی مکان(ب) گھر کا سازوسامان (ج) پہننے کے کپڑے (د) سواری (ہ) وہ آلات و سامان جس سے وہ اپنے حصولِ معاش میں مدد لیتا ہو۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ)سونا یا چاندی یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی قیمت کے برابر نقدی یا مالِ تجارت یا گھر میں روز مرہ استعمال کی چیزوں سے زائد سامان یا ان پانچوں یا ان میں سے بعض کا مجموعہ (نصاب کے بقدر) ہو تو صدقۂ فطر واجب ہے۔ تین جوڑوں سے زائد لباس اور ریڈیو اور ٹی وی جیسی خرافات انسانی حاجت میں داخل نہیں، اس لیے ان کی قیمت بھی حساب میں لگائی جائے گی(احسن الفتاویٰ)۔
صدقۂ فطر واجب ہونے کا وقت
صدقۂ فطر کے وجوب کے لیے فقط عید کے دن طلوعِ فجر کے وقت نصاب کا مالک ہونا شرط ہے(بدائع الصنائع)اور عیدالفطر کی صبح صادق طلوع ہونے کے بعد صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے لہٰذا اگر کوئی طلوعِ صبحِ صادق سے پہلے مر گیا یا مالدار غریب ہوگیا تو اس پر صدقۂ فطر واجب نہیں ہوگا۔ نیز طلوعِ صبح صادق سے پہلے کوئی شخص مسلمان ہوا یا فقیر مال دار ہوا یا بچہ پیدا ہوا تو اس پر صدقۂ فطر واجب ہوگا اور اگر کوئی طلوعِ صبح صادق کے بعد غریب ہوگیا تو اس کے ذمہ سے صدقۂ فطر ساقط نہیں ہوگااور طلوعِ صبح صادق کے بعد کوئی بچّہ پیدا ہوا یا کوئی مسلمان ہوا تو ان پر صدقہ فطر واجب نہیں ہوگا(تاتارخانیہ)۔صاحبِ نصاب شخص کے لیے درجِ ذیل افراد کی جانب سے صدقۂ فطر نکالنا ضروری ہے:(۱) اپنی جانب سے(۲) اپنے چھوٹے محتاج بچّوں کی طرف سے (۳) اگر اولاد مال دار ہو تو صدقۂ فطر اْنہی کے مال سے نکالا جائے گا۔(مسلم)شوہر پر ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کی طرف سے صدقۂ فطر نکالے لیکن اگر بیوی پر احسان کرے تو جائز ہے۔ اسی طرح والد پر بڑی اور باشعور اولاد کی جانب سے صدقۂ فطر نکالنا واجب نہیں لیکن اگر وہ ان پر احسان کرے تو ایسا کرناجائز ہے۔ ہاں اگر اولاد محتاج و مجنون ہو تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر نکالنا اس پر واجب ہے(الجوہر)۔خلاصہ یہ کہ ہر صاحبِ نصاب پر اپنی طرف سے اور جو نابالغ اولاد خود کسی نصاب کی مالک نہ ہو ان کی طرف سے ان کے والد پر صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے اور اگر وہ بچے خود نصاب کے مالک ہوں تو ان کے مال میں سے صدقۂ فطر ادا کیا جائیگا۔عاقل بالغ اولاد کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا والد پر ضروری نہیں ہے لیکن اگر وہ بچے باپ کی پرورش میں رہتے ہوں اور باپ ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کردے تو درست ہوجائے گا البتہ اگر کوئی بچہ عقل کے اعتبار سے کمزور یا پاگل ہو تو اس کی طرف سے بھی صدقۂ فطر ادا کیا جائے گا اگرچہ وہ بڑی عمر کا ہو۔ بیوی کا صدقۂ فطر شوہر پر واجب نہیںلیکن اس کی طرف سے ادا کردے تو ادا ہوجائیگاخواہ بیوی سے اجازت لی ہو یا نہ لی ہو(ہندیہ،الرد المحتار علی الدر)۔
صدقۂ فطر ادا کرنے کا وقت
بہتر یہ ہے کہ عیدالفطر کی صبح صادق طلوع ہونے کے بعد عید کی نماز پڑھنے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرے لیکن رمضان المبارک میں بھی صدقۂ فطر ادا کرنا بلا اختلاف درست ہے۔ اگر کسی پر صدقۂ فطر واجب تھا لیکن کسی وجہ سے ادا نہیں کرسکا یہاں تک کہ عیدالفطر کا دن بھی گذر گیا تو اس سے صدقۂ فطر ساقط نہیں ہوگا بلکہ موت سے پہلے پہلے ادا کرنا لازم ہوگا(ہندیہ) ۔ صدقۂ فطر کے مصارف بعینہ وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں ۔ان آٹھوں اقسام پر اسے تقسیم کرنا جائز ہے جن میں مال کی زکوٰۃ صرف کی جاتی ہے۔ n