صبیح احمد
بھارت جوڑو یاترا نے بھلے ہی کانگریس پارٹی کو مجموعی طور پر کافی مضبوط کیا ہو اور اس کے رہنما راہل گاندھی کی شبیہ کو بہتر بنانے میں مدد کی ہو، لیکن 2024 میں پارلیمانی انتخابات کے لیے پارٹی کا راستہ بہت سارے چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے اور اسے پر خار راہوں سے گزرنا ہوگا۔ اس عظیم اور قدیم پارٹی پر فی الحال اپنی بے جان تنظیم کی تعمیر نو کی مشکل ذمہ داری ہے جو قیادت کے بحران پر قابو پانے اور ووٹروں کے درمیان دوبارہ اعتماد بحال کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہی ہے۔ اسے ایک ایسا سیاسی بیانیہ بھی تیار کرنا ہوگا جو نہ صرف حکمراں بی جے پی کے ہندوتوکی تحریک کا مقابلہ کرے بلکہ اس سے ٹھوس انتخابی فوائد بھی حاصل ہوں۔ 4,000 کلومیٹر سے زیادہ کی بھارت جوڑو یاترا مکمل ہو چکی ہے۔ اب اس کی کامیابی کا اندازہ 2024 کے قومی انتخابات سے قبل ریاستی انتخابات کے نتائج سے لگایا جائے گا۔ اگر کانگریس ان انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے توعلاقائی اپوزیشن پارٹیاں کانگریس کو 2024 میں بی جے پی مخالف اتحاد کے ’محور‘ کے طور پر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ ترک کر سکتی ہیں۔
فی الحال ہوا کا رخ کانگریس پارٹی کے حق میں نظر آ رہا ہے۔ کیڈروں میں نئے سرے سے جوش و خروش پیدا ہوا ہے۔ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے جارحانہ، جنگجویانہ انداز میں تقریریں کر رہے ہیں جو بظاہر بی جے پی کے بہت اندرتک وار کر رہی ہیں۔ اس لیے کانگریس کیلئے 2023 کو سیمی فائنل ناک آؤٹ اور ’کرو یا مرو‘ کے طور پر لینے کی ضرورت ہے۔ اس سال 9 ریاستوں – میگھالیہ، میزورم، تریپورہ، ناگالینڈ، کرناٹک، راجستھان، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور تلنگانہ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان میں سے 4 شمال مشرقی ریاستوں میں کانگریس کے حق میں کچھ خاص ہونے کی امید نہیں ہے، جہاں اگلے ماہ اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔بہرحال سب سے اہم انتخابی امتحان سال کے اواخر میں آئے گا، جب 4 دیگر بڑی ریاستوں میں انتخابات ہوں گے۔ اگر کانگریس 2024 میں مقابلے میں رہنا چاہتی ہے تو اس کے لیے کرناٹک، راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں پارٹی کی انتخابی کارکردگی بہت اہم ہے۔ یہ 4 ریاستیں 543 رکنی لوک سبھا میں 93 ممبران پارلیمنٹ بھیجتی ہیں۔ ایک بڑا چیلنج اتر پردیش، بہار، مغربی بنگال اور گجرات جیسی ریاستوں میں پارٹی کے ڈھانچے کو مضبوط کرنے کا ہے جہاں کانگریس اب نظر آنے والی سیاسی قوت نہیں رہی ہے۔
جب سے بھارت جوڑو یاترا اتر پردیش کے ہندی بیلٹ میں داخل ہوئی تھی، تب سے ہی یہ بحث شروع ہو گئی تھی کہ آیا یہ یاترا کامیاب ہوگی یا نہیں یا اس کا انتخابی اثر پڑے گا یا نہیں۔ یہ یاترا ان 2 ریاستوں سے نہیں گزری جہاں حال ہی میں انتخابات ہوئے ہیں، گجرات اور ہماچل پردیش۔ کانگریس کو ایک ریاست میں کامیابی ملی تو دوسری ریاست میں اسے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے اس یاترا کے اثرات کا ابھی صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ یاترا میں بڑی بھیڑ جمع ہو رہی تھی، لوگ راہل گاندھی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے، جو ان کے لیے ایک نئی بات ہے۔ راہل کو مختلف آبادی کے لوگوں سے ملنے اور ہندوستان کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ پہلی بار انہوں نے زمین پر حقیقی مسائل کو محسوس کیا ہے۔ اس سے پہلے وہ اس تجربے سے محروم تھے۔ جنہوں نے واٹس ایپ پیغامات کے ذریعہ راہل گاندھی کے بارے میں اپنی رائے قائم کی تھی، وہ اب انہیں ذاتی طور پر جانتے اور سمجھ رہے ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ جب وہ اپنے مسائل بتائیں تو کوئی ان پر توجہ دے۔ راہل کو براہ راست مسائل سے سابقہ پڑا ہے۔ ’بھارت جوڑو یاترا‘ نے کانگریس کو وہ حوصلہ دیا ہے جس کی اسے ضرورت تھی۔ حالانکہ اسے انتخابی کامیابی میں تبدیل کرنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
کانگریس پارٹی اپنے سفر کے ایک اہم مرحلہ میں ہے۔ مرکزی اقتدار سے باہر ہوئے 9 سال ہوچکے ہیں۔ انتخابی تاریخ میں یہ پارٹی کبھی بھی اتنے طویل عرصہ تک اقتدار سے دور نہیں رہی۔ بی جے پی کو موجودہ پوزیشن سے ہٹانے کی کوشش میں داخلی چیلنجز سمیت پارٹی کو لامتناہی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ یہاں تک کہ ایک اہم اپوزیشن پارٹی کے طور پر اسے علاقائی پارٹیوں سے مسلسل منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن میں مثلاً قومی عزائم والی اے اے پی، ترنمول کانگریس، بی آر ایس وغیرہ شامل ہیں۔ پارٹی کو تنظیمی مسائل کا بھی سامنا ہے جنہیں جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ پارٹی نے ملکارجن کھڑگے کی شکل میں ایک غیر گاندھی صدر کا تقرر کیا ہے، لیکن تنظیم اب بھی انتخابات کے لیے تیار نہیں ہے۔ 2017 میں جب راہل گاندھی کانگریس کے صدر بنے تھے، تب سے پارٹی میں نائب صدر کا عہدہ خالی ہے۔ حریف بی جے پی کے 13 نائب صدور ہیں۔ ملکارجن کو مددگاروں کی ضرورت ہے۔ قابل نوجوان لیڈروں کو نائب صدر بنایا جا سکتا ہے اور اس سے پارٹی چھوڑ کر جانے والوں کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ کانگریس نے نہ صرف اپنے ووٹ بی جے پی کے پاس کھوئے ہیں بلکہ اپنے ووٹ علاقائی پارٹیوں جیسے ٹی ایم سی، وائی ایس آر سی پی، ٹی آر ایس/بی آر ایس، ایس پی، بی ایس پی، آر جے ڈی، اے اے پی وغیرہ کے پاس بھی کھوئے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ کانگریس مرکز میں بی جے پی کے متبادل کے طور پر اپنی پوزیشن مضبوط کرتے ہوئے علاقائی پارٹیوں سے اپنے ووٹ واپس لے۔ بنیادی طور پر اس نے مسلم، ایس سی-ایس ٹی اور او بی سی ووٹ علاقائی پارٹیوں کے پاس کھو دیے ہیں۔
کانگریس کو جو بات ثابت کرنی ہے وہ یہ ہے کہ کانگریس واحد پارٹی ہے جو درحقیقت قومی سطح پر بی جے پی کے خلاف کھڑی ہے۔ دیگر پارٹیوں کی افہام و تفہیم یا تو ماضی میں بی جے پی کے ساتھ ہوئی ہے یا اب بھی وہ ایک مفاہمت کی بنیاد پر بی جے پی سے وابستہ ہیں۔ یہ صرف کانگریس ہے جو کبھی بھی بی جے پی کے ساتھ اتحاد نہیں کر سکتی۔ بی جے پی مخالف ووٹروں میں یہ کانگریس کی یو ایس پی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی او بی سی کے سب سے بڑے لیڈر بن کر ابھرے ہیں۔ کانگریس کے 2 وزرائے اعلیٰ اشوک گہلوت اور بھوپیش بگھیل او بی سی برادری سے ہیں، لیکن پارٹی اب تک اسے بھنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ بے روزگار، نوجوان اور ناخوش کسان، جو مایوسی کا شکار ہیں، پر گرفت مضبوط کی جا سکتی ہے یا مہنگائی جیسے جذباتی مسائل پر پرینکا گاندھی واڈرا کے ذریعہ خاتون ووٹروں کو راغب کیا جا سکتا ہے۔ بی جے پی کے پروگراموں اور پالیسیوں کے متوازی وزرا کی شیڈو کونسل قائم کرکے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف بی جے پی کی پالیسیوں کی خامیوں کو عوام کے سامنے بیان کیا جاسکے گا بلکہ اس کے ذریعہ کانگریس مختلف قومی مسائل پر اپنا فلسفہ یا نقطہ نظر بھی عوام کے سامنے پیش کر سکتی ہے۔ یہ ایک متبادل بیانیہ فراہم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے جو نہ صرف حکومت کے خلاف ہو بلکہ عوام کے مفاد میں بھی ہو۔
کسی بھی حکومت کے خلاف فطری طور پر اقتدار مخالف رجحان پیدا کرنے کے لیے 10 سال کافی ہیں۔ آج مہنگائی، زرعی شعبے میں مایوسی، بے روزگاری کچھ سلگتے ہوئے مسائل ہیں۔ مگر اقتدار مخالف رجحان خود بخود اپوزیشن کے ووٹوں میں تبدیل نہیں ہوتا۔ کانگریس کو نچلی سطح پر کام کرنا ہوگا۔ یہیں سے بھارت جوڑو یاترا کا کردار سامنے آتا ہے۔ اس یاترا نے بنیاد کو مضبوط کیا ہے اور اب اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ یہ لاکھوں کا سوال ہے۔ حالانکہ پارٹی نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا مقصد سیاسی نہیں، ملک کے لوگوں کو جوڑنا ہے، پھر بھی اس کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ انتخابی پیمانے پر ضرور لگایا جائے گا۔
[email protected]