روس کی عسکری تیاریاں زوروں پر، ایک لاکھ فوجی تعینات

0

ماسکو (ایجنسیاں) : اس وقت ٹینکوں، توپوں اور اسلحے سے لیس تقریباً ایک لاکھ روسی فوجی یوکرین کی سرحد پر تعینات ہیں لیکن روس کا اصرار ہے کہ وہ حملے کی تیاری نہیں کر رہاہے۔دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے متنبہ کیا ہے کہ یہ ’مخصوص امکان‘ موجود ہے کہ اگلے ماہ روس یوکرین پر حملہ کرسکتا ہے۔امریکی صدر نے جمعرات کو یہ بیان یوکرین کے صدر ولودومیر زیلینسکی سے ساتھ ٹیلیفونک رابطے میں دیا۔وائٹ ہاؤس میں نیشنل سیکورٹی کونسل کی ترجمان ایمیلی ہورن کہتی ہیں کہ ’صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ ایک مخصوص امکان موجود ہے کہ روسی فروری میں یوکرین پر حملہ کرسکتے ہیں۔‘

وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق بات چیت کے دوران صدر بائیڈن نے کہا کہ اگر روس یوکرین میں مداخلت کرتا ہے تو امریکہ، اس کے اتحادی اور شراکت دار بروقت ردعمل دیں گے۔صدر زیلینسکی نے کہا کہ انھوں نے ’کشیدگی کم کرنے کے لیے حالیہ سفارتی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا اور مستقبل میں مشترکہ اقدامات پر اتفاق کیا۔‘واضح رہے کہ عام حالات میں تقریباً 35000 روسی اہلکار مستقل بنیادوں پر یوکرین کی سرحد پر تعینات رہتے ہیں۔بدھ کے روز روسی وزارتِ دفاع نے چند تصاویر جاری کی ہیں جن میں روسی دستوں کو یوکرین کی سرحد کے قریب روستوو کے تربیتی مرکز کی جانب گامزن دیکھا جا سکتا ہے۔ان میں سے کچھ دستے ایسے بھی ہیں جو 4000 میل دور مشرقی روس سے آئے ہیں۔بیشتر اندازوں کے مطابق یوکرین کے گرد شمال، مشرق، اور جنوب میں تعینات روسی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ تاہم خبر رساں ادارے سی این این پر نشر کیے جانے والے یوکرین کے اپنے اندازے کے مطابق، 106000 روسی فوجیوں کے ساتھ 21000 بحریہ اور فضائیہ کے اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔منگل کو برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا تھا کہ ‘خفیہ اطلاعات میں یہ واضح ہے کہ 60 روسی جنگی گروپ یوکرین کی سرحد پر موجود ہیں‘ جو روس کی کل فوج کا تقریباً ایک تہائی بنتے ہیں۔روایتی روسی فوجیوں کے ساتھ ساتھ خیال کیا جاتا ہے کہ 15000 روسی علیحدگی پسند یوکرین کے لوہانسک اور ڈونیٹسک علاقوں میں بھی موجود ہیں۔تاہم مغربی تجریہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ کیا روس نے زمینی حملے کے لیے درکار تمام تر تیاریاں کر لی ہیں۔ان کا اشارہ موبائل فیلڈ ہسپتالوں کی عدم موجودگی کی طرف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیکل عملے کی آمد حملے کی مکمل تیاری کا عندیہ ہو سکتی ہے۔سیٹلائٹ تصاویر اس حوالے سے مزید معلومات فراہم کرتی ہیں۔کبھی کبھی فوجیوں کی موجودگی خیموں کے رنگ سے پتا چل جاتی ہے۔جن ٹینٹوں میں فوجی موجود ہوتے ہیں چونکہ انھیں گرم رکھا جاتا ہے اور ان کی چھتوں پر برف پگھل جاتی ہے، اسی لیے خلا سے دیکھنے پر ان کا رنگ زیادہ گہرا معلوم ہوتا ہے۔بکتر بند گاڑیاں اپنی شکل سے پہچانی جاتی ہیں۔ ٹائروں کے نشانات یا کیچڑ سے یہ پتا چل جاتا ہے کہ گاڑیوں کی آمد و رفت جاری ہے۔

دوسری جانب بیلاروس میں روس کے کئی ہزار فوجی بھیجے گئے ہیں جن کا مقصد مشترکہ عسکری مشقوں میں حصہ لینا بتایا گیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ ان کی تعداد 10 سے 20 فروری کے درمیان بڑھ جائے گی۔ بیلاروس کے رہنما ایلگزینڈر لوشنکو روسی صدر ولادمیر پوتن کے حمایتی ہیں۔ یوکرین کا دارالحکومت بیلاروس کی سرحد سے 100 میل سے کم فاصلے پر ہے۔ مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ مشترکہ مشقیں یوکرین کے خلاف آپریشن کی تیاری میں مدد دیں گی۔ان کا دعویٰ ہے کہ آن لائن پوسٹ کردہ تصاویر میں بکتر بند گاڑیوں، ٹینکوں اور راکٹ سسٹمز سمیت فوجی سازو سامان کو سمندر کی جانب پیش قدمی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ادھر روس نے اپنے جدید ترین لڑاکا طیارے ایس یو 35 بیلاروس میں بھیجنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ روس نے بیلاروس میں فضائی دفاعی نظام، اور طبعی سپورٹ کا عملہ بھی بھیجا ہے۔روس دنیا بھر میں بحری مشقیں اسی ماہ سے شروع کر رہا ہے جو تقریباً فروری تک چلیں گی۔ ان میں 140 جنگی بحری جہاز اور سپورٹ کشتیاں، 60 طیارے، اور تقریباً 10000 فوجی اہلکار شامل ہوں گے۔جنگی ٹینک، افرادی قوت، اور بکتر بند گاڑیوں کو لے جانے کے قابل 6 روسی بحری جہاز انگلش چینل عبور کر کے عسکری مشقوں کے لیے بحیرہِ روم جا رہے ہیں۔تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ ان کی منزل بحریہ اسود ہے یا یوکرین کا ساحل۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روسی فوجیوں کا بحری راستے سے آ کر زمینی حملہ کرنا انتہائی مشکل ہوگا اور شاہد ان بحری فوجوں کا مقصد زیادہ اہم زمینی حملوں سے یوکرینی زمینی فوج کی توجہ ہٹانا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS