روسی فوج یوکرین میں داخل، 2ریاستوں کوآزاد قرار دیا

0
Us News.com

پتن کو ملک سے باہر فوج استعمال کرنے کی پارلیمنٹ سے اجازت،امریکہ اور ناٹو ممالک کا سخت ردعمل، ہندوستانی طلبا کویوکرین چھوڑنے کا مشورہ
ماسکو / نئی دہلی (ایجنسیاں) : جنگ کے اندیشوں کے دوران روسی فوج یوکرین کی 2 ریاستوں میں داخل ہوگئی اور اسے یکطرفہ آزادبھی قرار دے دیا گیا۔اس پر امریکہ اور ناٹو ممالک نے سخت ردعمل کا اظہار کیاہے اور اقتصادی پابندیوں کی دھمکی دی بلکہ کچھ نے عائد کردی ہے۔ لیکن روسی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں فیڈریشن کونسل اور دومانے ردعمل اور اقتصادی پابندیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ان دونوں ریاستوں کے ساتھ دوستی اور تعاون کے معاہدوں کی توثیق کردی ہے، جن کو روس نے آزادملک قرار دیاہے۔ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ روس کی پارلیمنٹ نے صدرولادیمیرپتن کو ملک سے باہر فوج استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ادھر امریکہ نے روس کے قدم کو حملہ بتایا ہے، جبکہ ناٹو نے کہا ہے کہ یوکرین پر حملے کے روسی منصوبے کے تمام اشارے موجود ہیں۔ساتھ ہی ناٹو نے فوری اجلاس طلب کرنے کا اعلان کیا ہے۔وہائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ روس نے حالیہ ہفتوں میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ فوجی یوکرین کے قریب تعینات کردیئے ہیں، جبکہ روسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ فی الحال مشرقی یوکرین میں فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
روسی صدر پتن نے یوکرین کی2ریاستوں لوہانسک اور ڈونیتسک (ڈونباس ایریا) کو آزاد قرار دیے جانے کے بعد فوج کی تعیناتی کا حکم دے دیا، جس کے بعد روسی فوج کے ٹینک ان علاقوں کی طرف بڑھ گئے۔ روس نے مغربی ممالک کو ایسا کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ یوکرین بحران پر آج یو این ایس سی کا اجلاس ہوا، جس میں روس نے کہاکہ اس معاملے میں امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک کے منفی کردار نے ہمیں مجبور کیا ہے۔ ہمارا ڈونباس کے علاقے میں خونی تنازع کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس مسئلے کے سفارتی حل کے راستے ہماری طرف سے کھلے ہوئے ہیں۔صدر پتن نے یوکرین کی ان دونوں ریاستوں کو ہندوستانی وقت کے مطابق منگل کی رات 3 بجے آزاد ملک قرار دیا تھا۔ اس کے بعد فوجیوں کی تعیناتی کی بات ہوئی۔ خطے میں فوج کی موجودگی کے بارے میں پتن نے کہا کہ لوہانسک، ڈونیتسک اور علیحدگی پسندوں کے زیر قبضہ علاقے میں امن برقرار رکھنا ضروری ہے۔یو این ایس سی نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا جب پتن نے لوہانسک اور ڈونیتسک (ڈونباس علاقہ) کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا۔ اقوام متحدہ نے روس سے بات کرنے اور فوج واپس بلانے کی بات کی ہے۔ ادھر برطانیہ نے یوکرین میں روس کی دراندازی کی تصدیق کر دی ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری تنازع نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک طرف امریکہ سمیت ناٹو کے تمام ممالک نے روس کے جارحانہ اقدام کی مذمت کی ہے تو دوسری طرف ہندوستان اور چین جیسی بڑی قوتوں نے اس پورے تنازع پر غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ روس نے اس کشیدگی کا ذمہ دار امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ٹھہرایا ہے۔ اس کے علاوہ آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ ماریسن بھی کھل کر یوکرین کی حمایت میں آ گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روس کو فوری طور پر مشرقی یوکرین سے دستبردار ہونا چاہیے، جہاں اس نے اپنی افواج کو بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ نیوزی لینڈ نے بھی یوکرین میں روسی کارروائی کی مخالفت کی ہے۔ ان ممالک کے علاوہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک بھی روس کے خلاف ہیں۔ یوکرین- روس تنازع کا براہ راست اثر دنیا بھر میں لوگوں پر پڑے گا،کیونکہ خام تیل کی قیمت 95 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی ہے۔ ایسا تقریباً 8 سال پہلے ہوا تھا۔ خام تیل کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے آنے والے دنوں میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے۔ گھریلو گیس اور سی این جی بھی مہنگی ہو گی ۔دریں اثنا گزشتہ 24 گھنٹوں میں دوسری بار ہندوستانی طلبا کو یوکرین چھوڑنے کو کہا ہے۔
ہندوستانی سفارتخانے نے کہا کہ طلبا یونیورسٹی سے کسی منظوری کا انتظار کیے بغیر یوکرین چھوڑ دیں۔ایئر انڈیا کی پرواز آج رات 254 ہندوستانیوں کو لے کر کیف سے دہلی کیلئے اڑان بھرے گی۔ ہندوستان اپنے شہریوں کو نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندے ٹی ایس تریمورتی نے کہا کہ 20 ہزار سے زیادہ ہندوستانی طلبا اور شہری یوکرین کے مختلف حصوں اور سرحدی علاقوں میں رہتے اور پڑھتے ہیں۔ ہندوستانیوں کی حفاظت ہماری ترجیح ہے۔ ادھریورپی یونین نے روس پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS