صبیح احمد
یوکرین پر روس کے فوجی حملے کے بعد پوری دنیا میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہو گیا ہے کیونکہ اس حملے کو اکثر لوگوں نے تیسری عالمی جنگ کے نقطہ آغاز کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اس حملہ کے آغاز کے وقت ہی مقامی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے خطاب میں دیگر ممالک کو خبردار کر دیا تھا کہ انہوں نے اگر اس معاملے میں مداخلت کی کوشش کی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ حملوں کے دوران پوتن نے ملک کی نیوکلیائی طاقتوں کو بھی الرٹ رہنے کا حکم دیا۔ اسے روس کی جانب سے عالمی برادری کو ایک دھمکی تصور کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ تنازع کوئی نیا نہیں ہے، اس کی طویل تاریخ ہے لیکن حالیہ کشیدگی اس وقت اپنے عروج پر پہنچی جب کئی روز قبل روس نے یوکرین کے 2 علیحدگی پسند علاقوں ڈونسک اور لوہانسک کی آزاد حیثیت تسلیم کر لی تھی اور وہاں اپنی فوج داخل ہونے کے احکامات جاری کیے تھے۔ یوکرین اور روس کے درمیان جاری حالیہ تنازع کو گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران یوروپ میں سلامتی کا سنگین ترین بحران قرار دیا جارہا ہے۔البتہ یوکرین اور روس کے درمیان تنازعات کی تاریخ طویل ہے اور حالیہ بحران کی جڑیں بھی اسی تاریخی تناظر میں پیوست ہیں۔
1991 میں سوویت یونین کے خاتمہ کے وقت یوکرین سمیت 14 آزاد ریاستیں قائم ہوئیںلیکن یوکرین کو علیحدہ ملک کے طور پر تسلیم کرنا کئی تاریخی اسباب سے روس کے لیے مشکل رہا ہے۔ روس اور یوکرین کے تعلق کی تاریخ نویں صدی سے شروع ہوتی ہے جب کیف قدیم روسی سلطنت کا دار الحکومت بنا تھا۔ آج یہی شہر یوکرین کا دارالحکومت ہے۔ 1654 میں روس اور یوکرین ایک معاہدہ کے تحت زارِ روس کی سلطنت میں ضم ہوگئے تھے اور بعد میں یہ سوویت یونین میں بھی ساتھ رہے لیکن یوکرین کی علیحدہ شناخت برقرار رکھنے کی کوششوں کو ہمیشہ دبایا گیا۔ یوکرین کی زبان پر بھی کڑی پابندیاں عائد کی گئیں۔ 1917 کے انقلاب کے بعد بھی بالشویک فوجوں نے یوکرین پر حملے جاری رکھے اور یوکرین کے علیحدہ ملک بننے والی کسی آواز کو سر نہیں اٹھانے دیا۔ اس تاریخی پس منظر کی وجہ سے آزادی کے بعد یوکرین نے مغربی ممالک سے اپنے روابط بڑھانا شروع کیے۔ ناٹو نے بھی مشرقی یوروپ میں اپنا دائرہ اثر بڑھانے کے لیے کئی ممالک کو دفاعی اتحاد کا حصہ بنانا شروع کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین ایک بالادست قوت کے طور پر ابھری تھی۔ اسی لیے سرد جنگ ختم ہونے کے بعد سوویت یونین کا حصہ رہنے والے یوروپی ممالک نے روس کے اثر سے نکلنے کے لیے ناٹو کا رخ کرنا شروع کیا۔ یوکرین بھی ان ممالک میں شامل تھا لیکن سوویت یونین میں شامل دیگر ممالک کے مقابلے یوکرین کی ناٹو میں شمولیت روس کے لیے ایک حساس معاملہ رہا ہے۔ یوکرین کی سیاست میں روس کے حامی اور مغربی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی حمایت کرنے والے گروہوں میں کشمکش جاری رہتی ہے۔ روس کی جانب جھکاؤ رکھنے والے یوکرین کے اس وقت کے صدر وکٹور یانوکووچ کو 2014 میں ایک احتجاجی لہر کے نتیجے میں اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔ اس کے ردعمل میں 2014 میں یوکرین کے علاقہ کریمیا پر روس نے حملہ کردیا۔ کریمیا پر روس کے قابض ہونے کے بعد علیحدگی پسندوں نے مشرقی یوکرین میں پیش قدمی شروع کر دی۔ گزشتہ برس کے دوران مشرقی یوکرین میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو گیا اور اس وقت جنگ کے خطرات منڈلانے لگے جب روس نے یوکرین کی سرحد پر بڑی تعداد میں فوج تعینات کر دی۔ دراصل روس کے صدر پوتن کو خدشہ ہے کہ مغربی ممالک سے بڑھتے ہوئے تعاون کی وجہ سے یوکرین روس کے خلاف ناٹو کے میزائلوں کا لانچ پیڈ بن جائے گا۔ وہ یوکرین کی ناٹو میں شمولیت کو ریڈ لائن قرار دیتے ہیں۔ حالیہ تنازع میں روس کشیدگی بڑھا کر دراصل یوکرین کو ناٹو میں شامل نہ کرنے کی یقین دہانی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ صدر پوتن کویہ خدشہ لاحق ہے کہ سرد جنگ میں ناٹو کے اثر و رسوخ کی جو حد بندی ہوئی تھی، مشرقی یوروپ میں ناٹو کے ارکان بڑھنے سے امریکہ اور مغربی ممالک ان حدود سے آگے بڑھ چکے ہیں اور ان کے اثرات روس کی سرحدوں تک پہنچ گئے ہیں۔ روس فکر مند ہے کہ اگر ناٹو میں مزید توسیع ہوئی تو اسے خطہ میں اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔
روس -یوکرین جنگ نے بہرحال دنیا کے لیے ایک بہت سنگین خطرہ پیدا کر دیا ہے اور لوگ اسے ایک اور عالمی جنگ کے پیش خیمہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یوکرین کے وزیر خارجہ دمترو کولیبا نے یوکرین پر موجودہ راکٹ باری کا موازنہ جرمنی کے 1941 کے حملہ سے کیا ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد جس طرح دمترو کولیبا نے اس کا موازنہ دوسری عالمی جنگ کے واقعات سے کیا ہے اسی طرح عالمی سطح پر یہ سوال گردش میں ہے کہ کیا یوکرین پر روس کا حملہ تیسری عالمی جنگ کا آغاز ثابت ہو گا؟ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر تیسری عالمی جنگ (WWIII) کے ٹرینڈس بھی چل رہے ہیں۔حالانکہ یوکرین پر روس کے حملے اور دوسری عالمی جنگ کے آغاز میں کچھ مماثلت پائی جاتی ہے لیکن اس تنازع کے عالمی سطح پر پھیلاؤ کے بارے میں کوئی حتمی رائے فی الحال قبل از وقت ہوگی۔ بہرحال اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ہم تیسری عالمی جنگ سے بہت دور تھے لیکن گزشتہ48 گھنٹوں میں اس صورت حال تک پہنچنے کا یہ فاصلہ کچھ کم ضرور ہوا ہے۔ اس جنگ نے دنیا کے کئی ممالک بالخصوص خطہ (جنوب مشرقی ایشیا) کے ملکوں کو شش و پنج میں ڈال دیا ہے۔ حالانکہ ہندوستان اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ اس معاملے میں وہ غیر جانب دار رہے اور متوازن مؤقف اختیار کرے لیکن روس اور امریکہ دونوں سے ہی قریبی تعلقات کی وجہ سے وہ ایک نئی مشکل کا شکار ہو گیا ہے۔ ہندوستان کے روس کے ساتھ طویل عرصہ سے تاریخی اور دوستانہ رشتے ہیں جبکہ امریکہ کے ساتھ اس کے اسٹریٹجک تعلقات فی الحال کافی بہتر ہوئے ہیں جو گزشتہ ڈیڑھ دہائیوں میں تیزی سے آگے بڑھے ہیں۔ ہندوستان کی معیشت پر اس جنگ کے سنگین اثرات مرتب ہونے کے بھی خدشات کافی بڑھ گئے ہیں۔ حملے کے بعد خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور حصص بازاروں میں مندی پر بھی ہندوستان میں تشویش پائی جا رہی ہے۔ ادھر چین روس کا نہایت ہی طاقتوراتحادی ہے۔ چین کی جانب سے یوکرین پر روس کے حملے پر فوری ردعمل نہ دینے سے ماسکو کی کسی حد تک مدد ہوتی ہے، چونکہ بیشتر دنیا یہی چاہتی ہے کہ ماسکو کو فوری طور پر اقتصادی اور سفارتی سطح پر تنہا کردیا جائے۔ بیجنگ بھی مخمصے میں ہے۔ وہ یوکرین پر روسی حملے کی حمایت یا جواز پیش نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس سے مغربی دنیاکے ساتھ اس کے سیاسی او ر تجارتی تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس نے یوکرین پر حملہ ایسے وقت میں کیا جب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان دو روزہ سرکاری دورے پر ماسکو میں موجود تھے۔ وزیر اعظم عمران خان یہ واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان کسی بھی تنازع کے فوجی حل کے حق میں نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس تنازع میں فریق بنے گا، تاہم اس جنگ کے سیاسی اثرات سے زیادہ پاکستان پر اس کے معاشی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
[email protected]