روس -یوکرین جنگ اور ہندوستان

0

روس اور یوکرین کے مابین جنگ کا آج دوسرا دن ہے۔ یہ جنگ کتنے دنوں تک چلے گی اور اس میں کون کون سے ممالک شامل ہوں گے، کہا نہیں جاسکتا ہے۔ اب تک تو یہی نظرآرہاہے کہ امریکہ سمیت ناٹو کے تمام ممالک اس وقت یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں اور اپنے اپنے طریقے سے روس پر پابندیاں لگا رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یوکرین کی مدد کیلئے امریکہ کوئی عملی اقدام نہیں کر رہا ہے اور ناٹو نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ یوکرین ان کا رکن ملک نہیں ہے اس لیے وہ براہ راست اپنی افواج نہیں بھیج سکتاہے۔تاہم برطانیہ اور امریکہ میں روس کے اربوں ڈالر اثاثے منجمد کرکے یہ اشارے ضرور دیے گئے ہیں کہ جلد یا بدیر اس جنگ میں امریکہ اور ناٹو ممالک بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
دوسری جانب چین بھی روس کے ساتھ بالواسطہ طور پر کھڑا نظرآرہاہے۔ چین نے روس پر لگائی گئی کئی ایک پابندیوں کو اٹھاکر امریکہ اور یوروپی ممالک کے عزائم کو چیلنج کردیا ہے۔ اس خدشہ سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ اس تنازع میں امریکہ اپنے عزائم کو وسعت دینے کے امکانات اور اپنی عسکری سرگرمیوں کیلئے زمین تلاش کر رہا ہے۔ روس یوکرین تنازع میں امریکہ کے فریق بننے سے صورتحال عالمی جنگ جیسی ہوجائے گی اور پھر دنیا کے ممالک کو روس یا یوکرین یعنی روس یا امریکہ کی حمایت کا آپشن پیش کیا جائے گااور اپنے اپنے اسٹرٹیجک اور معاشی مفادات کی وجہ سے تمام ممالک کسی ایک طرف جھکنے پر مجبور ہو ں گے۔
مادی اور تکنیکی اعتبار سے یوکرین روس سے چاہے جتنا بھی کمزور کیوں نہ ہو، اس کے باوجود اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ روس کیلئے یوکرین کی فوج اور ریاست کو محض چند دنوں میں شکست دینا ممکن نہیں ہوگا۔ اگرحالات میں فی الفور کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی تو عین ممکن ہے کہ یہ جنگ طول پکڑے گی اور ایک طویل مدتی خونریز جنگ ہوگی جس میں عام انسانوں کو بھیانک صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا اور قربانیاں بھی عام لوگوں کو ہی دینی ہوں گی۔جنگ چاہے روس نے شروع کی ہو یایوکرین نے، اس جنگ میں جیت اور ہار چاہے روس کی ہو یا یوکرین کی ہو مجموعی طور پر یہ انسانیت کی ہار ہوگی اوراس کے نتائج پوری دنیا کو بھگتنے ہوں گے۔
جنگ شروع ہونے سے قبل ہی جس طرح کا ماحول بنا تھا، اس میں دنیا نے دیکھا کہ صرف جنگ کے خدشات کی وجہ سے عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں آگ لگ گئی اور خام تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی۔اس کا اثر ہندوستان پر بھی پڑا اور جنگ کی صبح دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان کے اسٹاک مارکیٹ کا آغاز بھی زبردست گراوٹ کے ساتھ ہوا۔ ہندوستان دنیا میں خام تیل کے سب سے بڑے درآمد کنندگان میں سے ایک ہے اور اپنے خام تیل کا تقریباً 80 فیصد روس سے درآمد کرتا ہے۔ ایسے میں خام تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ہندوستانی بازاروں پر اس کامنفی اثر پڑے گا۔ ابھی اسمبلی انتخابات کی وجہ سے حکومت نے تیل کی قیمتوں کو بڑھنے سے روکا ہوا ہے، جب کہ اس سے پہلے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں روزانہ سوروپے سے تجاوز کر چکی تھیں۔ تیل کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی کو پر لگ جائیں گے۔ مغربی ممالک میں روس کے اثاثے منجمد کردیے جانے کے سبب ڈالر کی قیمتوں میںاضافہ اور روپے کی قدر کم ہوگئی ہے۔اس سب کا اثر کمزور معیشت کو مزید بگاڑ دے گا۔ ہندوستان اور روس کے درمیان دو طرفہ تجارت رواں مالی سال میں اب تک 9.4 بلین امریکی ڈالر رہی ہے۔ تجارت کا یہ حجم گزشتہ سال 8.1بلین ڈالر تھا۔ روس سے ہندوستان آنے والی مصنوعات میں ایندھن، معدنیاتی تیل، موتی،قیمتی پتھر، جوہری ری ایکٹر، بوائلر، مشینریز، میکانیکل آلات اور کھاد شامل ہیںاور ہندوستان روس کو دوائیں، بجلی کی مشینری، نامیاتی کھاد اور گاڑیاں برآمد کرتاہے۔ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ہندوستان اور روس کے درمیان درآمدات اور برآمدات دونوں کیلئے ادائیگی متاثر ہوگی۔
یہ صورتحال ہندوستان کیلئے ایک معقول ناوابستہ خارجہ پالیسی کا تقاضا کرتی ہے کہ جس سے سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے لیکن بظاہر ایسامحسوس نہیں ہورہاہے کیوں کہ گزشتہ چند برسوں میں ہندوستان کی امریکہ اوراسرائیل جیسے ممالک سے قربت بڑھی ہے تو دوسری جانب روس سے دفاعی معاہدہ کے باوجودہندوستان کو بہت سے تحفظات ہیں۔
چند دہائی قبل تک ہندوستان ناوابستہ تحریک( نان الائمنٹ موومنٹ )کی قیادت کرچکا ہے لیکن اب ہندوستان نے اپنی خارجہ پالیسی کی جو صورت گری کی ہے، اس میں ناوابستگی امر محال محسوس ہو رہا ہے۔اس جنگ کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے کسی ایک خیمہ میں جانے کے بجائے ہندوستان کو نان الائمنٹ موومنٹ کی ضرورت ہے۔ کسی فریق سے وابستہ ہوئے بغیر اس تنازع کو سفارتی طریقے سے حل کیاجاناچاہیے اور ہندوستان ناوابستہ رہ کر ہی یہ کام کرسکتا ہے کیوں کہ جنگ ہندوستان کی معیشت کیلئے بھی اتنی ہی نقصان دہ ہے جتنی کہ روس اور یوکرین کی معیشت اور عوام کیلئے۔یہ جنگ ہندوستان کی سفارتی دانائی کا بھی امتحان ہے۔اس سے پہلے کہ جنگ کے یہ بادل دوسرے ممالک پر بھی برسیں، ضرورت ہے کہ ہندوستان پوری سفارتی حکمت کے ساتھ امن بحالی کیلئے پیش قدمی کرے اور حالات کو معمول پر لانے میں نمایاں کردار ادا کرے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS