اے- رحمان
اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ موجودہ بی جے پی حکومت نہ صرف آر ایس ایس کے ایجنڈا کو نافذ کرنے کے لیے پر عزم ہے بلکہ تیزی سے اس سیاسی سفر پر گامزن ہے جس کی منزل اورراستہ سنگھ نے مکمل طور سے طے کر دیا ہے۔ دوسری جانب آر ایس ایس کے رہبران و اکابرین بھی اب کھلم کھلا اس محاورے میں بات کرتے ہیں جس سے سیاسی تفوق اور اقتدار کی بو آتی ہے۔ یعنی اب اس حقیقت کی پردہ پوشی نہیں کی جا رہی کہ حکومت کا کنٹرول پوری طرح ہندو تنظیم کے ہاتھ میں ہے۔ گزشتہ کل یعنی12 مارچ کو احمد آباد میں چل رہے اکھل بھارتیہ پرتی ندھی سبھا کے اجلاس میں پیش کی گئی سالانہ رپورٹ کا مزاج اور اس کے مشمولات کو مذکورہ صورت حال کا دستاویزی ثبوت سمجھا جا سکتا ہے۔واضح ہو کہ اکھل بھارتیہ پرتی ندھی سبھا آر ایس ایس کی اعلیٰ ترین سطح کی فیصلہ کن اور پالیسی ساز مجلس یا کمیٹی ہے جسے ہر قسم کے تنظیمی اور سیاسی فیصلے نیز منصوبے نافذ و عائد کرنے کا اختیار ہے۔ مذکورہ رپورٹ گزشتہ ایک سال کی کارروائیوں اور حصولیابیوں کا گوشوارہ بھی ہے اور آئندہ منصوبوں کے لیے رہنما خطوط بھی قائم کرتی ہے۔ اس رپورٹ میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے حوالے سے مسلمانوں پر نہایت سنگین الزام عائد کرتے ہوئے ان ( یعنی مسلمانوں) کی ’’ مذہبی عصبیت‘‘ کے عفریت کا مکمل طور سے قلع قمع کرنے کا عزم کیا گیا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے،’’ ملک میں آئینی اور مذہبی حقوق کی آزادی کے پردے میں شدید مذہبی عصبیت ابھر کر سامنے آ رہی ہے اور ایک مخصوص مذہبی اقلیت کے ذریعے حکومت کی مشینری میں گھس کر ہندو معاشرے کو تہہ و بالا کرنے کے منظم اور مفصل منصوبے بنائے گئے ہیں جنہیں صرف منظم اور متحد قوت کے ذریعے ہی شکست دی جا سکتی ہے ۔ ایک ہولناک مذہبی عصبیت کو فروغ دیا جا رہا ہے جس کے زیر اثر کیرالہ اور کرناٹک میں بعض ہندو تنظیموں کے کارکنان کو بے رحمی سے قتل کیا گیا اور آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کے نام پر احتجاج ، ریلیاں اور سماج دشمن کارروائیاں عمل میں لائی گئیں جو اس فرقے کے روز افزوں مذہبی جنون کا بین ثبوت ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر عوام کو تشدد کے لیے اکسا کر قومی سلامتی کے پرخچے اڑائے جا رہے ہیں اور یہ سب ایک گہری سازش کے تحت ہو رہا ہے جس سے نہایت دوررس نتائج مقصود ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ یہ رپورٹ ایسے موقع پر تیار کی گئی ہے جب حجاب بندی کے خلاف خصوصاً کرناٹک میں طالبات کا احتجاج پورے زوروں سے چل رہا ہے۔ اس احتجاج کے واسطے سے آر ایس ایس کے سینئر لیڈروں کا واضح طور پر الزام ہے کہ یہ سب کچھ پاپو لر فرنٹ آف انڈیا کے ایما پر ہو رہا ہے اور علمی درسگاہوں اور یونیورسٹیوں میں فرنٹ اپنا اثر تبدریج بڑھا رہا ہے جو ایک خطرناک پیش رفت ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں تبدیلیٔ مذہب کے معاملات کا بھی ذکر ہے اور اس بات پر نہایت تردد کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملک کے بیشتر علاقوں خصوصاً پنجاب ، کرناٹک ، تامل ناڈو اور آندھرا پردیش وغیرہ میں منصوبہ بند طریقے سے ہندوؤں کو تبدیلیٔ مذہب پر اکسایا جا رہا ہے اور ان کا مذہب تبدیل کرانے کے لیے نئے نئے طریقے عمل میں لائے گئے ہیں۔(ان نئے طریقوں کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی) ہندو سوسائٹی کے تحفظ اور بقا کے لیے ضروری ہے کہ ان طریقوں اور تبدیلیٔ مذہب کی کوششوں کو پوری طاقت سے کچلا جائے۔ رپورٹ میں ’’افتراقی قوتوں‘‘ کا بھی ذکر ہے جو ہندو معاشرے میں پھوٹ ڈال کر قومی سالمیت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ اس سلسلے میں الزام لگایا گیا ہے کہ بعض ہندو ’ہندو فرقوں‘ (اشارہ ہے جین، سکھ، بدھسٹ اور شمالی مشرقی ریاستوں کے قبائل کی طرف) کو باور کرایا جا رہا ہے کہ وہ’ ہندو‘ نہیں ہیں اور اس طرح ہندوتو کے تصور کو مسخ کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ اس کا منفی اثر آئندہ سال ہونے والی مردم شماری پر پڑے گا۔ نام نہاد ’ دانشوری‘ کی آڑ میں ہندوتو پر فرضی اور رکیک قسم کے الزام لگا کر ہندو شناخت کو تحلیل کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال ہے مغربی بنگال میں انتخابات کے بعد ہونے والے تشدد کے واقعات۔
پوری رپورٹ اسی قسم کے سنگین الزامات سے پر ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آر ایس ایس کے ایجنڈا میں یوں تو سیکولرازم او رجمہوریت کو ملک سے ختم کرنا شامل ہے لیکن اس رپورٹ میں جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ویسے مقابلہ ایک صحتمند معاشرے کا جزو لازم ہے لیکن مقابلہ جمہوریت کی مقرر کردہ حدود میں ہونا اور رہنا چاہیے۔ مقابلے سے مخاصمت کی بو نہیں آنی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔
اب ذرا اس رپورٹ کے معنی و مفاہیم پر غور کیجیے۔ اس کے مشمولات سے جو پیغام پوری شدت سے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ہندو معاشرے کو سب سے زیادہ خطرہ مسلمانوں سے ہے۔ دیکھا جائے تو یہ کوئی نئی بات بھی نہیں کیونکہ گورو گولوالکر بڑے صاف الفاظ میں لکھ گئے ہیں کہ ہندوتو کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہیں اور ان کا صرف یہ علاج ہے کہ یا تو وہ ہندو معاشرے میں ’ضم‘ ہو جائیں یا ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ لیکن اس رپورٹ کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس میں حکومت کے لیے ایک فرمان جاری کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو سرکاری نوکریاں نہ دی جائیں اور حکومت میں ان کا کسی قسم کا عمل دخل روا نہ رکھا جائے۔ اس کے علاوہ رپورٹ جگہ جگہ ’’ مذہبی عصبیت‘‘ کا حوالہ دے کر آگاہ کرتی ہے کہ مسلمان ہندو معاشرے کو تتر بتر کر رہے ہیں او ران کی سرگرمیوں کو ’’ متحد طاقت‘‘ سے کچلا جانا چاہیے۔ ایک طرف تو یہ حکومت کے لیے ایک ’ہدایت‘ ہے وہیں دوسری طرف آر ایس ایس کے انتہا پسند عناصر کے لیے مسلمانو ںکے خلاف آمادۂ تشدد ہونے کی تلقین۔ ابھی پریاگ راج (الہ آباد) اور دہلی میں منعقدہ’’دھرم سنسد‘‘ کو زیادہ دن نہیں گزرے جن میں بھگوا پوش سنتوں نے چیخ چیخ کر مسلمانوں کی نسل کشی کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے ہندوؤں سے ہتھیار اٹھانے کا تقاضا کیا تھا۔ ایسے ماحول میں اس قسم کے دستاویز کی نشر و اشاعت کس قسم کے نتائج کا سبب ہوگی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ قومی روز ناموں میں صرف انڈین ایکسپریس نے اس رپورٹ کی مفصل خبرشائع کی ہے۔ گودی میڈیا میں تو کہیں اس کا ذکر تک نہیں۔ لیکن آر ایس ایس کا تنظیمی ڈھانچہ اور اس کے شعبۂ اطلاعات کی کارکردگی دیکھتے ہوئے پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ آر ایس ایس کے تمام فعال کارکنان کو اس رپورٹ کی تفصیلات اور اس میں مضمر پیغام ہر مطلوبہ زبان میں پہنچ چکا ہوگا۔
ہندوتو کے ایجنڈا اور متصورہ ’ہندو راشٹر‘ کے مقصد کے تحت مسلمانوں کے خلاف کی جارہی جلی اور خفی کارروائیوں میں آر ایس ایس نے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا ہے اور ہر پینترہ جائز سمجھا ہے لیکن ایسا پچھلے ستّر سال میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایسا تباہ کن اور خطرناک دستاویز عوامی سطح پر شائع کیا گیا ہو۔ اس کے ممکنہ نتائج بھی بہت جلد سامنے آ جائیں گے۔ بالفاظ دیگر مسلمانوں کے لیے اور بھی برا وقت آنے والا ہے۔
[email protected]