آر ایس ایس سربراہ کا شکوہ

0

عدیل اختر
ایسا لگتا ہے کہ آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت کے ذہن پر مسلمانوں کا بہت بوجھ ہے، یا یوں کہئے کہ ان کے اعصاب پر مسلمان سوار ہیںیہی وجہ ہے کہ کچھ دن گزرتے ہیں اور مسلمانوں کے تعلق سے ان کا کوئی بیان سامنے آجاتا ہے۔ اب ان کے اس انٹر ویو کا چرچا ہے جس میں انہوں نے مسلمانوں پر یہ اعتراض کیا ہے کہ وہ برتری کے زعم میں رہتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں پر یہ احسان بھی جتانے کی کوشش کی ہے کہ انہیں زبردستی ہندو نہیں بنایا جائے گا وہ اپنے مذہب پر قائم رہ سکتے ہیں لیکن انہیں یہ اور وہ کرنا ہوگا۔
آر ایس ایس سربراہ کی اس طرح کی باتوں کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ اس طرح کی باتیں بر سر عام کہنا ہندو مسلم اتحاد کی اخلاقی بنیاد کے خلاف ہے۔ ہندو اور مسلمان ہندستانی سیاسی قوم کے دو الگ الگ فرقے ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہونے کے باوجود ایک متحدہ سیاسی قوم اس مفاہمت کی بنیاد پر بنے ہوئے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے وجود کو خوش دلی سے تسلیم کریں گے اور ایک دوسرے کے ثقافتی تشخص کا احترام کریں گے۔ آزادی کے بعد کے ہندو سیاسی اور مذہبی قائدین نے اس مفاہمت کا بڑی حد تک لحاظ رکھا ہے اور مسلمانوں کو اس طرح سے مخاطب نہیں کیا ہے جس طرح سے آج آر ایس ایس لیڈران اور دیگر ہندوتوا دی نیتا و بعض دھرم گرو کرنے لگے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ آج ہندو فرقے کی مذہبی و سماجی اور بڑی حد تک سیاسی قیادت آر ایس ایس ہی کررہا ہے لیکن پورے ہندو فرقے کی طرف سے مسلمانوں کو اس طرح کے انتباہ دیتے ہوئے آر ایس ایس سربراہ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ اس طرح کے بیانات دونوں فرقوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کرنے کی وجہ بن سکتے ہیں۔ اس صورت میں دونوں فرقوں کا ایک متحدہ قوم بن کر رہنے کا جذبہ کمزور ہو گا۔
رہا یہ الزام کہ مسلمان برتری اور حکمرانی کے گھمنڈ میں ہیں تو اگر واقعی ایسا ہے تو پھر مسلمانوں سے یہ کہنے کی ضرورت کیا ہے کہ وہ ڈریں نہیں، ان کے وجود کو بھارت میں خطرہ نہیں ہے۔ ایک ہی وقت میں گھمنڈ اور خوف دونوں کیسے جمع ہو سکتے ہیں؟ دراصل بات یہ ہے کہ جو مسلمان دین و دنیا سے بے خبر اپنی پرانی نوابیوں اور بادشاہتوں کے نشے میں مست خود پسندی کے خمار میں جی رہے تھے ان کا گھمنڈ تو پہلے ہی ٹوٹ چکا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے لئے طرم خاں بنے رہنے والے خود فراموش مسلمانوں کے کس بل بڑی حد تک نکل چکے ہیں۔ اب تو وہ اپنی آبائی بستیوں میں بھی دبک کر رہنے کے عادی ہونے لگے ہیں۔
دوسری طرف وہ عام مسلمان ہیں جن کی دوڑ دھوپ روزی روٹی کی حد تک رہتی ہے ان کی گپ شپ میں اگر پچھلے زمانے کے قصے بھی چلتے ہیں تو بس وہ عوامی گپ شپ ہے ان بیچاروں کے قصے کہانیوں میں کوئی عزم نہیں ہوتا جس سے کسی فرقے کے لیڈر خطرہ محسوس کریں۔
البتہ مسلمانوں کی ایک تیسری قسم ہے جو مذہب و ملت کی فکر رکھتی ہے۔ اس طبقے کو ماضی میں مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کا زعم نہیں بلکہ اس بات کا ملال ہے کہ اکثر مسلم بادشاہوں اور نوابوں نے اسلامی کردار کا حامل بننے کے بجائے متکبر اور عیش پسند دنیا دار بادشاہی والا کردار کو اپنایا۔ انھوں نے ہندستانی سماج کے تئیں اپنی اسلامی ذمہ داریوں کی طرف توجہ نہیں کی اور ہندستانی سماج میں پھیلی چھوت چھات، اونچ نیچ، اندھ وشواس اور آڈمبروں کی اصلاح کے لئے فعال رول ادا نہیں کیا۔ اسلام کے اصلاحی پیغام کو واضح کرنے اور سمجھانے کے لئے بھی حکومت کی سطح سے باقاعدہ کوششیں نہیں کیں۔ جس کی وجہ سے، مسلمان ہو جانے والے قدیم ہندوستانیوں کی اصلاح کا کام بھی ادھورا رہا اور فکر و عمل کی بہت سی خرابیاں ان میں باقی رہ گئیں۔
اس طرح کے تاثرات رکھنے والے مسلمانوں کو بھارت میں اپنے یا اسلام کے مٹ جانے کا ڈر نہیں ہے بلکہ ان کی عام فکر یہ ہے کہ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کریں تاکہ ان کا وہ کردار برادران وطن کے سامنے آئے جس سے اچھائی پسند لوگوں کی بدگمانیاں اور اندیشے دور ہوں اور اسلام کو اپنا نجات دہندہ سمجھنا ان کے لئے آسان ہو جائے۔ یہ مسلمان اپنے مسلمان ہونے پر گھمنڈ نہیں کرتے بلکہ شکر کرتے ہیں۔ وہ خود کو ایک برتر اور بالاتر قوم نہیں سمجھتے بلکہ خیر امت سمجھتے ہیں اور اسلام کو ہی اللہ کا دین سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہی اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ اللہ کے نزدیک اسلام ہی دین ہے اور اسلام پر چلنے والی امت خیر امت ہے۔اقوام متحدہ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ دنیا اسلامو فوبیا سے متاثر ہے اور اسلامو فوبیا پر قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔ یہ اسلامو فوبیا کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے اسلام سے ڈرنا اور ڈرانا اور اسلام کو ایک خطرے کے طور پر پیش کرنا۔ جن تنظیموں اور عناصر کو اسلامو فوبیا پھیلانے کا ذمہ دار مانا جاتا ہے ان میں آرایس ایس بھی نمایاں طور پر شمار ہوتا ہے۔ چنانچہ آر ایس ایس سربراہ کی یہ باتیں ایک اسلامو فوبیا ہی ہیں۔ لیکن ہم ان سے کہنا چاہتے ہیں کہ اسلام سے ڈرنے یاڈرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسلام دوسرے مذاھب کے وجود کو تسلیم کرتا ہے اور ہر ایک کے لئے مذہبی آزادی میں یقین رکھتا ہے۔ اسلام کو اپنانا یا نہ اپنانا بھی ہر فرد کا اپنا اختیار ہے، اس کے لئے کسی بھی طرح کا جبر اسلام سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS