جینتی لال بھنڈاری
ان دنوں ملک میں خوردنی تیلوں کی بڑھی ہوئی قیمتیں سبھی کے لیے تشویش کا سبب بن گئی ہیں۔ حال ہی میں حکومت کی منسٹری آف کنزیومرافیئرس کے ذریعہ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ایک برس میں ملک کی خوردنی تیل کی مارکیٹ میں سبھی تیلوں کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ 9اکتوبر2021کو سویابین تیل کی قیمت 154.95روپے فی لیٹر رہی ہے، جبکہ ایک سال قبل یہ 106روپے فی لیٹر تھی۔ اسی طرح سرسوں کے تیل کی قیمت میں 43فیصد کا اضافہ ہوکر 184روپے فی لیٹر پہنچ گئی ہے، جو ایک سال قبل 129روپے تھی۔ ونسپتی تیل کی قیمت95.5روپے فی لیٹر سے بڑھ کر 136.74روپے ہوگئی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ملک میں خوردنی تیلوں کی بڑھتی قیمتوں پر قابو پانے کے مقصد سے حکومت کے ذریعہ مختلف کوششیں کی جارہی ہیں۔ خوردنی تیلوں کی امپورٹ ڈیوٹی کو معقول بنایا گیا ہے۔ ٹیکس میں رعایت دی گئی ہے۔ تلہن اور خوردنی تیلوں پر اسٹاک کرنے کی حد نافذ کی گئی ہے۔ مرکزی حکومت نے تلہن کی پیداوار کو بڑھا کر خوردنی تیلوں کے معاملہ میں ملک کو خودکفیل بنانے کے لیے 11,040کروڑ روپے کے مالی اخراجات کے ساتھ قومی خوردنی تیل-پام آئل مشن(این ایم ای او-اوپی)کو نافذ کیا ہے۔ ملک میں خوردنی تیلوں کی بڑھتی قیمتوں کی تین بڑی وجوہات واضح طور پر نظر آرہی ہیں۔ ایک ناکافی تلہن کی پیداوار۔ دو، ملک میں خوردنی تیلوں کی مسلسل بڑھتی کھپت اور تین، کئی ملکوں کی نئی بایوفیول پالیسیاں۔ اگرچہ اس وقت ہندوستان گیہوں، چاول اور چینی کی پیداوار میں خودکفیل ہے، لیکن تلہن کی پیداوار میں اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے لائق یہ پیداوار نہیں کرپارہا ہے۔
جہاں ملک میں ضرورت کے مطابق تلہن کی پیداوار میں اضافہ نہیں ہوا ہے، وہیں دوسری جانب معیار زندگی کو بہتر بنانے اور بڑھتی آبادی کے سبب خوردنی تیل کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔ 1990کے آس پاس ملک خوردنی تیل کے معاملہ میں تقریباً خودکفیل ہے۔ پھر خوردنی تیلوں کی درآمد پر ملک کا انحصار آہستہ آہستہ بڑھتا گیا اور اس وقت یہ تشویشناک سطح پر ہے۔ اس وقت ہندوستان اپنی ضرورت کے تقریباً 65فیصد خوردنی تیلوں کی درآمد کرتا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان کو سالانہ تقریباً 65,000 سے 70,000کروڑ روپے کا خوردنی تیل درآمد کرنا پڑرہا ہے۔ ہندوستان خوردنی تیلوں کی درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ ایسے میں، گزشتہ ایک سال سے خوردنی تیل کے گھریلو بازار پر عالمی خوردنی تیل بازار کی بڑھی ہوئی قیمتوں کا کافی اثر نظر آرہا ہے۔ کئی ممالک کی بایوفیول پالیسیاں بھی ہندوستان میں خوردنی تیلوں کی تیز مہنگائی کا سبب بن گئی ہیں۔ مثال کے طور پر، ہندوستان کو پام آئل کی برآمد کرنے والے ملیشیا اور انڈونیشیا میں پام آئل سے بایوفیول اور امریکہ میں سویابین آئل سے بایوفیول کی پیداوار کی جارہی ہے۔
گزشتہ کچھ برسوں سے ملک میں تلہن کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کے لیے خوردنی تیل کی درآمد میں کمی لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کے مطابق2020-21میں ملک میں ریکارڈ 36.10ملین ٹن تلہن کی پیداوار کا تخمینہ ہے جو 2019-20 کی پیداوار کے مقابلہ میں 2.88ملین ٹن زیادہ ہے۔ رواں سال 2021-22 کے لیے تلہن کی پیداوار کا ہدف بڑھا کر 38ملین ٹن کیا گیا ہے۔ اب تلہن کی پیداوار میں اضافہ کے لیے کاشتکاروں کے لیے بہتر بیج، تکنیک اور معلومات بآسانی دستیاب کرانی پڑے گی۔ کسانوں کو مونگ پھلی اور سویابین سمیت مختلف تلہنی فصلوں کی زیادہ پیداوار کرنے والے اور بیماری اور جراثیم سے تحفظ کی صلاحیت رکھنے والے بیجوں کے مِنی کٹ دستیاب کرانے ہوں گے۔ تلہن کا رقبہ ان علاقوں میں بڑھانا ضروری ہوگا، جہاں روایتی طور پر اس کی بوائی نہیں کی جاتی۔
اب کچھ غیرروایتی ذرائع سے اچھی کوالٹی والا خوردنی تیل نکالنے کی ڈگر پر بھی آگے بڑھنا ہوگا۔ چوں کہ ہندوستان دنیا کا دوسرا سب سے بڑا چاول پیدا کرنے والا ملک ہے، لہٰذا چاول کے ایک بڑے حصہ کا استعمال چاول تیل(رائس برآن آئل) نکالنے میں کیا جانا مناسب ہوگا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت تلہن کی پیداوار کے لیے نافذ کیے گئے پروگرام کے نفاذ کے لیے ہر ممکن طریقہ سے توجہ دے گی۔
(مضمون نگار ماہر معاشیات ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)