ہندوستان کی ایک اوربڑی کامیابی

0

زیادہ دن نہیں ہوئے ابھی اگست میں ہندوستان ایک ماہ کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا صدر بنا تھا۔وہ 2022میںبھی پھرسے صدر بنے گا،اس سے قبل جون 2020میں ہندوستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 192 میں سے 184ووٹ حاصل کرکے 2سال کے لیے سلامتی کی غیر مستقل ممبر شپ کا الیکشن جیتا تھا، جس کا آغاز امسال یکم جنوری سے ہوگیا ۔ ہندوستان نے اب ایک اوربین الاقوامی سطح پر بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔وہ اس بار اقوام متحدہ کی 193رکنی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ کے ذریعہ دیگر 17ممالک کے ساتھ بین الاقوامی ادارے کی انسانی حقوق کونسل کا رکن منتخب ہوا ہے ۔یکم جنوری 2022سے شروع ہونے والی اس ممبرشپ کی میعاد 3سال ہوگی ۔بڑی بات یہ ہے کہ یہ لگاتار دوسری میعاد ہے جب ہندوستان رکن منتخب ہوا ہے۔ ابھی بھی وہ انسانی حقوق کونسل کا ممبر ہے اوراس کی میعاد سال کے آخر 31دسمبر کو پوری ہوگی اوراس کے دوسرے دن ہی نئی میعاد3سال کے لیے شروع ہوجائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ نے ٹرمپ سرکار کے دور میں اس ادارے سے خود کو الگ کرلیا تھا لیکن بائیڈن سرکار نے پھر سے اس میں شمولیت کا اعلان کیا اور انتخاب کے بعد امریکہ پھرسے اس کا ممبر بن گیا۔ اس طرح ہندوستان کے ساتھ ساتھ امریکہ کی بھی یہ بڑی کامیابی ہے۔ اقوام متحدہ اوراس کی ذیلی تنظیموں میں ہندوستان کو جوکامیابی مل رہی ہے یا اسے جو مقام مل رہا ہے، وہ پورے ملک کے لیے باعث فخر ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ بین الاقوامی محاذ پر یا سفارت کاری کے معاملے میں ہندوستان کو دنیا کے ممالک پسند کررہے ہیں اوربین الاقوامی اداروں اورپلیٹ فارموں پر اسے نمائندگی دے کر اس سے کافی توقعات وابستہ کررہے ہیںجس سے ملک کی ذمہ داری بڑھتی جارہی ہے اوروہ بہت خوش اسلوبی سے ذمہ داری نبھابھی رہا ہے۔
جنیوا میں واقع انسانی حقوق کونسل کاقیام 15مارچ 2006کو ہواتھا۔ اس کے 47 ممبر ہوتے ہیں جن کاانتخاب خفیہ ووٹنگ کے ذریعہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ممبران کرتے ہیں۔کونسل کا مقصد دنیا بھر میں انسانی حقوق پر نظر رکھنا اوران کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ کوئی بھی ملک مسلسل دوباراس کا ممبر بن سکتا ہے لیکن تیسری بار کے لیے امیدواری نہیں پیش کرسکتا۔چونکہ ممبران کاانتخاب جغرافیائی اور علاقائی بنیاد پر ہوتا ہے تاکہ دنیا کے ہر خطہ کو نمائندگی مل سکے، شاید اسی لیے کونسل پر تنقید کی جاتی ہے کہ جغرافیائی اور علاقائی نمائندگی کویقینی بنانے کے لیے سیٹیں مختص ہونے کی وجہ سے بعض وہ ممالک بھی منتخب ہوجاتے ہیں، جن کا انسانی حقوق کا ریکارڈ خراب رہتا ہے یا جو انسانی حقوق کا ویسا احترام نہیںکرتے جیساکونسل کے ضوابط کہتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ کوئی بھی ملک جب چاہتاہے، اس تنظیم سے علیحدگی اختیار کرلیتا ہے اور پھر عزت کے ساتھ واپس بھی آجاتا ہے جیساکہ امریکہ کے ساتھ ہوا ۔ ٹرمپ سرکار میں امریکہ اپنے مفادات کے لیے کونسل سے الگ ہوااور بائیڈن سرکار میں 3سال کے لیے ممبر کی حیثیت سے منتخب ہوکر واپس آگیا ۔
اقوام متحدہ اوراس کے ذیلی اداروں میں ہندوستان کو جس طرح یکے بعد دیگرے کامیابی مل رہی ہے، اس سے نہ صرف بین الاقوامی سطح پر اس کی اہمیت بڑھ رہی ہے بلکہ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لیے اس کی دعویداری بھی مضبوط ہوتی جارہی ہے جو وطن عزیزکی دیرینہ مانگ ہے اور جسے تسلیم کرنے میں 5مستقل ممبران ٹال مٹول کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ انفرادی طور پر وہ ہندوستان کی دعویداری کی حمایت تو کرتے ہیں لیکن اقوام متحدہ میں اصلاحات کے لیے تیار نہیں ہوتے۔لیکن جس طرح ملک کو بین الاقوامی سطح پر کامیابی مل رہی ہے ایک دن ضرور آئے گا جب دنیا اس کی دعویداری کی اہمیت کو تسلیم کرلے گی اوراس کی مہم ہندوستان ہی نہیں دنیا کے کئی ممالک بھی چلارہے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS