عبدالماجد نظامی
برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کے طور پر جب سے ہندنژاد رشی سنک کا انتخاب عمل میں آیا ہے تب سے ایک عجیب نشہ ہندوستانی معاشرہ پر چڑھا ہوا ہے۔ خاص طور پر ہندوستانی الیکٹرانک میڈیا تو اسے اس طرح پیش کر رہا ہے کہ جیسے آج ہم نے اسی برطانیہ کو فتح کرلیا ہے جس نے کبھی ہمارے ملک غیر منقسم ہندوستان پر دو سو برسوں تک راج کیا تھا اور ہندوستان کی ثروت کو لوٹ کر اس عظیم استعماری نظام کی بنیاد ڈالی تھی جس کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ دو صدی کے طویل عرصہ تک استعماری قوت کے مظالم اور غیر انسانی سلوک کو برداشت کرنے اور پھر اس سے آزادی کی خاطر لمبی لڑائی لڑنے والی قوم کے اندر اس قسم کے جذبات کا ابھرنا بالکل فطری بات ہے۔ ایسے مواقع ہمیں پر امید بناتے ہیں اور یہ خیال دل میں آتا ہے کہ حالات خواہ کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں لیکن اگر صحیح جہت میں جہد مسلسل اور ایمان داری کے ساتھ محنت جاری رکھی جائے تو اس کا مثبت نتیجہ ایک دن ضرور سامنے آتا ہے۔ لیکن ایسے موقعوں پر ہمیں ایک دوسرے اہم پہلو پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہئے اور بطور ہندوستانی اس کی ضرورت ہمیں آج سب سے زیادہ ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ جب ہمارے مجاہدینِ آزادی نے برطانوی سامراج سے آزادی کی جد و جہد کی تھی تو ان کے سامنے کیا مقاصد تھے؟ کیا ان مقاصد کی تکمیل میں ہم بطور آزاد ہندوستان کامیاب ہوئے ہیں یا ہماری تنگ نظری نے ہمارے سماج کو پسماندگی و بے چارگی کے دلدل میں دھکیل دیا ہے؟ جو لوگ رشی سنک کی کامیابی پر خوش ہو رہے ہیں اور اس کو ایک ہندو یا ہندوستانی کی فتح قرار دیتے ہوئے نہیں تھکتے انہیں سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اصل میں یہ جیت کس کی ہے؟ ہندوستان اور ہندو قدروں کی کامیابی ہے یا اس مغربی معاشرہ کی جیت ہے جس نے انسان کو ترقی کے تمام مواقع فراہم کئے ہیں اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک نہیں برتا ہے؟
رشی سنک کا برطانیہ کا وزیر اعظم بننا اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا بھر میں اپنے استعماری عہد کے دوران انسانوں کے درمیان امتیاز اور بھید بھاؤ کرنے والا ملک بھی ماضی کی اپنی خرافات کو پس پشت ڈال چکا ہے اور جمہوری قدروں کے ساتھ اپنے سچے لگاؤ کی بنیاد پر آج وہ اس مرحلہ تک پہنچ چکا ہے کہ برطانیہ کی شہریت حاصل کرنے والا ہر شخص خواہ وہ کسی بھی رنگ و نسل اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو وہاں اپنی ترقی کی راہ ہموار کر سکتا ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ برطانوی معاشرہ ہر فرد کی ترقی کے مواقع فراہم کرتا ہے اور کسی بھی طرح سے اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا نہیں کرتا ہے۔ اس کے برعکس ہندوستانی معاشرہ میں بھید بھاؤ اور امتیازی سلوک کے اتنے بھیانک واقعات شب و روز رونما ہوتے ہیں کہ یہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا ہمارے آباء و اجداد نے استعمار کے خلاف جو طویل جنگ لڑی تھی ان کا مقصد ایسا ہی معاشرہ قائم کرنا تھا جہاں پسماندہ طبقات آج بھی سماج کے حاشیہ پر پڑے اپنی بے بسی و لاچاری پر آنسو بہا رہے ہوں؟ جہاں خواتین اور بچیاں اپنی زندگی بچانے میں ناکام ہوں۔ اگر زندہ بچ جائیں تو ان کی عصمت کی چادر اوباشوں کے ذریعہ تار تار کر دی جائے اور جب عدالت تک معاملہ پہنچے تو انہیں ذلت و رسوائی کے مزید مراحل طے کرنے پڑیں۔ کیا ہندوستان کے سماج میں بسنے والی اقلیتوں کو وہ حقوق آج تک مل پائے ہیں جن کا وعدہ دستورِ ہند میں کیا گیا ہے؟ کیا آج بھی اقلیتوں کے عبادت خانے، ان کا طرز معاش اور طریقہ لباس و گفتار محفوظ ہے؟ کیا بچیوں کو اس کی آزادی ہے کہ وہ اپنی مرضی کا باوقار لباس پہن کر اسکول اور کالج جائیں اور اپنی تعلیم و ترقی کے ساتھ ساتھ ملک اور معاشرہ کی ترقی کا راستہ بھی ہموار کریں؟ کیا شدید طبقاتی نظام والا ہندوستانی سماج کسی مسلمان کو وزیر اعظم کے عہدہ پر دیکھنا برداشت کر سکے گا؟ اگر ان سوالوں کے جوابات اثبات میں نہیں ہیں تو ہمیں خود احتسابی سے کام لینا چاہئے اور ایک ایسے شخص کی کامیابی کو اپنی کامیابی کے زمرہ میں شامل کرنے سے باز رہنا چاہئے جن کے آباء و اجداد ہندوستان کی آزادی سے کئی برس قبل اس ملک کو الوداع کہہ گئے تھے اور اب وہ ایک برطانوی شہری ہے جس کے کاندھے پر اپنے ملک کے مسائل کو حل کرنے کی بڑی ذمہ داری رکھی گئی ہے۔
ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنا معاشرہ ایسا بنائیں جہاں کسی شہری کے ساتھ مذہب، زبان، جنس، لباس اور طرز معاش کی بناء پر بھید بھاؤ اور امتیازی سلوک نہ ہوتا ہو۔ ہمارے لیڈروں کے لئے سیکھنے کا موقع ہے کہ وہ اقتدار کی ہوس میں ملک کی دستوری قدروں کو پامال نہ کریں اور اکثریتی طبقہ کو خوش کرنے کی غرض سے ملک کی اقلیتوں کا جینا دشوار نہ کریں۔ ہمارے منتخب قائدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، وہ ایسی پالیسیاں بنائیں جن سے ملک میں ترقی اور خیر سگالی کا ماحول قائم ہو۔ وہ ایسے معاشرہ کی تشکیل کا کام کریں جہاں رشی سنک جیسی شخصیتیں اسی ملک میں پیدا ہوں۔ ہماری جمہوریت کی اصل فتح اس دن ہوگی جس دن یہاں کی اقلیتوں میں اتنا اعتماد پیدا ہو سکے کہ وہ اپنے ملک کا وزیر اعظم بننے کا جب خواب دیکھیں تو ان کے مذہب اور ان کے طرز لباس کی وجہ سے ان کا راستہ نہ روکا جا سکے۔ جس دن ایسا ہو پائے گا اس دن اصلی جشن کے حق دار ہم ہو پائیں گے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]