اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ کورونا وائرس کی پہلی اور دوسری لہر کی وجہ سے ملک کو بھیانک قسم کی بے روزگاری، مہنگائی کے طوفان اور بھکمری کے عفریت کا سامنا ہے۔صنعت اور کاروبار کو شدید بحران نے جکڑ رکھا ہے، کروڑوں لوگوں کی نوکریاں ختم ہوگئی ہیں اور لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کی آمدنی کم ہوکر سکڑگئی ہے۔ جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے آجروں کے غیر انسانی مظالم ان کا مقدر بنے ہوئے ہیں۔دوسری برہنہ حقیقت کا اظہار وزارت خزانہ کے کنٹرولر جنرل آف اکائونٹس کے دفتر نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے عوام غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں اور مرکزی حکومت امیر سے امیر تر ہوتی جارہی ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میںصرف پٹرولیم مصنوعات سے وصول کی جانے والی ایکسائز ڈیوٹی سے حکومت نے اپنی آمدنی میں48فیصد کا اضافہ کیا ہے۔یعنی ایک طرف پٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے عوام کے ہوش اڑے ہوئے ہیں تو دوسری طرف حکومت اس سے بے پناہ فائدہ اٹھارہی ہے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کیلئے قطعی تیار نہیں ہے۔ حکومت عوام کی بے بسی کا فائدہ اٹھاکر زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرلینا چاہتی ہے۔
مرکزی وزارت خزانہ کے کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اپریل سے جولائی 2021 کے دوران پٹرولیم مصنوعات پر ایکسائز ڈیوٹی کی وصولی ایک لاکھ کروڑ روپے رہی ہے۔ یہ پہلے کے مقابلے میں 48 فیصد اضافہ ہی نہیں ہے بلکہ پورے مالیاتی سال کیلئے آئل بانڈ کی ذمہ داری سے چار گنا زیادہ ہے۔ گزشتہ سال کی اسی مدت میںیہ آمدنی 67,895 کروڑ روپے تھی۔
گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے نفاذ کے بعدسے ایکسائز ڈیوٹی صرف پٹرول، ڈیزل، اے ٹی ایف اور قدرتی گیس پر عائد ہوتی ہے اور دیگر تمام اشیا جی ایس ٹی کے تحت آچکی ہیں۔ مالی سال2021-22یعنی اپریل2021سے مارچ 2022 تک کے پہلے چار مہینوں میںہی 32,492کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے جو کہ پورے سال کیلئے 10 ہزار کروڑ روپے کی ادائیگی سے چار گنا زیادہ ہے۔یہ آئل بانڈ سابقہ کانگریس حکومت نے پٹرولیم پر سبسڈی دینے کیلئے جاری کیے تھے۔اسی طرح رسوئی گیس کی سبسڈی بند کرکے حکومت نے رواں مالی سال کے چار مہینوں میں 1,233کروڑ روپے کی بچت کی ہے۔رسوئی گیس کی آسمان چھوتی قیمتوں کے باوجود سبسڈی گزشتہ سال مئی کے مہینہ سے ہی بند کردی گئی ہے۔
گزشتہ سات برسوں میں کوئی ایسا ہفتہ نہیں گزرا ہے جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیاگیا ہو۔ ملک کے بیشتر شہرو ںمیں پٹرول کی قیمت ایک سو روپے فی لیٹر کی حد بھی عبور کرچکی ہے۔بڑھتی قیمتوں سے حاصل ہونے والی آمدنی حکومت کے منھ لگ چکی ہے اور وہ کسی بھی حال میں اسے کم کرنے کی روادار نہیں ہے۔درجنوں بار عوامی مطالبات اور مظاہرے ہوچکے ہیں لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے۔پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کا راست اثر دوسری تمام چیزوں پر پڑتا ہے اور وہ مہنگی ہوکر غریب، مزدور اور محنت کش عوام کی رسائی سے دور ہوتی جارہی ہیں۔
یہ صورتحال ایک ایسے وقت میں ہے جب بین الاقوامی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی آرہی ہے لیکن حکومت اسے مہنگے داموں میں بیچ کر عوام کی ہڈیوں سے گودا تک نچوڑ لینے کے درپہ ہے۔ تاریخ کی بھیانک ترین بے روزگاری سے گزرتے مجبور، بے کس اور بے بس مہنگائی کو اپنے خون کا خراج دے رہے ہیں۔
کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس کے اعداد و شمار کی روشنی میں یہ کہنا بالکل بے جانہیں ہوگا کہ حکومت غریبوں کا خون نچوڑ کر اپنا خزانہ بھر رہی ہے۔ایک طرف حکومت یہ بھی کہتی ہے کہ اس کا کام صنعتیں لگانا اور کاروبار کرنا نہیں ہے اوراسی دلیل کو بنیاد بناکر وہ قومی اثاثے بیچ رہی ہے تو دوسری طرف اپنے حکومتی اختیارات کو صرف اور صرف منافع بٹورنے کا ہی ذریعہ بنائے ہوئے ہے۔ عوام سے نچوڑی جانے والی دولت کا کچھ حصہ حکومت کی عیش و عشرت پر خرچ ہو رہا ہے تو کچھ حصہ حکومت اپنے حلقہ بگوشوں کی تعداد میں اضافہ کیلئے استعمال کررہی ہے۔
یہ صورت حا ل ایک ہی سمت میں دولت کے ارتکازکا سبب بن گئی ہے جس کی وجہ سے دوسری سمت یعنی معاشرہ کے غریب، مزدور، محنت کش اورعام طبقہ کے حصہ میں سخت جاں گسل محنت، ظلم اور اذیت ہی باقی رہ گئی ہے۔یہ حالات کسی جمہوری ریاست کیلئے جو عوامی فلاح کی ڈھنڈورچی بھی ہو، انتہائی خطرناک اور فوری اصلاح کے متقاضی ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پٹرول، ڈیزل، قدرتی گیس اور رسوئی گیس کی قیمتوں میں کمی کرکے عوام کی راحت کا سامان کرے۔
[email protected]
امیر حکومت، غریب عوام
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS