20 کروڑ ہم وطن نظرانداز نہ ہوں

قومی سیاست میں مسلمانوں کی موجودگی غیرمتعلقہ ہوگئی ہے!

0

شیکھر گپتا

اس ہفتہ تین مختلف لیکن سنجیدہ آرا سامنے آئیں، جنہوں نے ہندوستان کے تقریباً 20کروڑ مسلمانوں پر پھر سے توجہ مبذول کرائی ہے اور ساتھ ہی بتایا کہ کیسے قومی سیاست میں ان کی موجودگی غیرمتعلقہ ہوگئی ہے۔
ان تین میں پہلی بات سپریم کورٹ کی۔ ملک کے چیف جسٹس این وی رمنا اور جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس اے ایس بوپنّا نے اس بات پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ میڈیا کا ایک طبقہ کچھ ایشوز پر اپنی کوریج کو اتنا زیادہ فرقہ وارانہ رنگ دیتا ہے کہ اس سے ہندوستان کا نام خراب ہوسکتا ہے۔ تبصرہ وبا کی پہلی لہر کے دوران تبلیغی جماعت کے ایشو کے تناظر میں تھا۔
دوسرے تھے اداکار نصیرالدین شاہ، جنہوں نے طالبان کی جیت پر ’کچھ ہندوستانی مسلمانوں‘ کی طرف سے جشن منائے جانے پر زبردست مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا اسلام ہمیشہ سے الگ رہا ہے۔ حالاں کہ تمام لوگوں کی رائے رہی کہ ہندوستانی اسلام کو الگ کہہ کر انہوں نے خود فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔
تیسری آواز جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی تھی، جنہوں نے حکومت سے باربار یہ جاننا چاہا کہ کیا اسے اب بھی لگتا ہے کہ طالبان دہشت گرد ہیں یا نہیں۔ اس کا مطلب یہ جاننا تھا کہ آپ امید کرتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان طالبان کو دہشت گرد سمجھ کر ان کی مذمت کریں گے اور تسلیم نہیں کریں گے۔ لیکن انہیں اب کیا مانتے ہیں؟ ظاہر ہے حکومت یا بی جے پی میں سے کوئی بھی اس کا جواب نہیں دے سکتا۔
اگر وہ ’طالبان مطلب دہشت گرد‘ کی پرانی لائن دہراتے رہتے ہیں تو سبھی متبادل کو بند کردیں گے اور افغانستان، ٹینک، ہیلی کاپٹر اور رائفل سبھی کچھ بطور تحفہ پاکستان کو دے دیں گے اور دوسرا پوری دنیا میں ہندوستان الگ تھلگ پڑجائے گا۔ عبداللہ ایک اہم پوائنٹ اٹھارہے ہیں۔ کیوں کہ یوپی میں آئندہ الیکشن کے دوران زمینی سطح پر سیاسی گفتگو میں اسلام- مطلب- دہشت گرد- مطلب- آئی ایس آئی ایس – مطلب – لشکر/ جیش- طالبان کی لائن وسیع پیمانہ پر عام فہم/مقبول ہورہی ہے۔ چار سوال اٹھتے ہیں:
.1حکومت نئے طالبان زدہ جیو اسٹرٹیجک حقائق کا جواب کیسے دے گی؟ سعودی، یو اے ای و دیگر خلیجی ممالک کو گلے لگانا الگ بات ہے، لیکن طالبان؟

سـی جـے آئـی نـے حـال مـیـں کـہـا کـہ عـدلـیـہ کـو نـہ صـرف ہـنـدوسـتـان کـے تـنـوع کـے لـیــے آواز اٹـھـانــی چـاہـیــے بلکہ اس کــی نـمـائـنـدگـی بـھـی کـرنـی چـاہـیـے۔ وہ چاہتـے تھـے کـہ کـالـجـیـئـم جـجـوں کـے سلـیـکـشـن میں اس کی عکاسی کریں۔ لـیـکن ہـوا کـیـا، سـپـریـم کـورٹ کے9 نئـے جـجـوں میں تـیـن خـواتـیـن، او بـی سـی، دلت شـامـل ہـیـں۔ لیکن کوئی بھـی مسلـم نہیں ہـے۔ سپریم کورٹ کـے 33 جـجـوں میں مـحـض ایک مسـلـم جـج ہـیـں۔

.2مسلمانوں پر نشانہ لگانے والی بات چیت کے ساتھ بی جے پی کیا رُخ اپنائے گی؟ سرحد پار سے نزدیک نئے خطرے کا جواب دے گی اور حالات نارمل کرے گی؟ یا پھر اسے جاری رکھے گی اور نوجوان ہندوستانی مسلمانوں کے ایک دم سے معمولی سے طبقہ کے شدت پسند ہونے کا خطرہ مول لے گی؟
.3دیگر پارٹیوں کے ردعمل کیا ہوں گے؟ افغانستان ایک مرتبہ پھر یاد دلاتا ہے کہ وہ صرف یہ سمجھ کر نہیں چل سکتے کہ بی جے پی کے ڈر سے مسلمان انہیں ووٹ دیں گے۔ وہ پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ نئی مسلم پارٹیاں، اسدالدین اویسی کی اے آئی ایم آئی ایم اور بدرالدین اجمل کی اے آئی یو ڈی ایف، ان کی عوامی حمایت میں نقب لگارہی ہیں۔
.4یہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کیا متبادل چھوڑتا ہے؟ کیا انہیں طالبان کی مذمت کا اخلاقی بوجھ اٹھانا چاہیے؟ ایسا کرنے کا مطلب یہ قبول کرنا ہے کہ کچھ مسئلہ ہے، ان کی عقیدت میں بے چینی ہے۔ ایسا نہیں کرنے پر اسے ان کی سازباز کے طور پر نمایاں کیا جاسکتا ہے۔ چار سوالوں کے آخری دو کے گہرے تجزیہ کی ضرورت ہے، خاص طور پر اس لیے کیوں کہ یہ آپس میں وابستہ ہیں۔ بی جے پی نے مسلمانوں کے ساتھ اور ہندوستانی مسلمانوں نے بی جے پی کے ساتھ اپنی علیحدگی کو تسلیم کرلیا ہے لیکن وہ ’سیکولر‘ پارٹیوں پر انحصار کرتے ہیں۔
اس کے تمام ثبوت موجود ہیں کہ بی جے پی/آر ایس ایس نے پہلے ہی اپنے حریفوں کو کچھ اہم باتیں اپنے نظریہ سے جوڑنے کے لیے مجبور کردیا ہے۔ بی جے پی مخالف کسی بھی اہم پارٹی نے نہ تو اجودھیا پر فیصلہ اور رام مندر کی تعمیر کی مخالفت کی اور نہ ہی جموں و کشمیر کی حالت میں تبدیلی کو پلٹنے، سی اے اے اور تین طلاق قانون کو مسترد کرنے یا پھر سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلہ کی اجازت دینے والے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
ہندوستانی سیاست ایک ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں کوئی بھی اپوزیشن پارٹی ٹیلی ویژن پر ہونے والے مباحثوں میں کسی اہم مسلم ترجمان کو کھڑا نہیں کرتی۔
کتنی اپوزیشن لیڈروںنے یہ کہا ہوگا کہ طالبان کے عروج کا استعمال ہندوستان کے مسلمانوں پر دباؤ بنانے کے لیے نہ کیاجائے۔ آسام میں حال ہی میں کانگریس نے اجمل کی اے آئی یو ڈی ایف سے ناطہ توڑ لیا ہے۔ یہ کچھ ایسا ہے جیسے وہ 2014کی انتخابی شکست پر اے کے انٹونی کی رپورٹ(جو ابھی خفیہ سمجھی جارہی ہے) میں دیے گئے انتباہ پر عمل کررہے ہوں، جس میں مبینہ طور پر پارٹی کی ’انتہائی مسلم نواز‘ شبیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ صورت حال تھوڑی عجیب ہے۔ بڑی حکمراں جماعت ان کے ووٹوں کی کوئی پروا نہیں کرسکتی اور اس کے مخالفین بھی انہیں پانے کی خواہش کرتے ہوئے نظر نہیں آنا چاہتے۔
بہرحال آپ بھلے ہی کسی بھی سیاسی پالے میں کیوں نہ ہوں، بس ایک منٹ کے لیے پورے منظرنامہ کو عام محب وطن ہندوستان کی طرح دیکھئے۔ 20کروڑ ہم وطنوں کو الگ تھلگ چھوڑ دیا جانا ہندوستان کی ضرورت نہیں ہے۔
(مضمون نگار ’دی پرنٹ‘ کے
ایڈیٹر ان چیف ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS