مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایسے زہریلے مالیکیولز کی ایجاد کا انکشاف

جس نے سائنسدانوں کی نیندیں اڑا دی ہیں

0

داہلیہ وینتورا
2020 میں امریکی ریاست شمالی کیرولینا کے شہر رالی میں قائم کولیبوریشنز فارماسوٹیکلز کے سی ای او شان ایکنز کو سپیز کنورجنس کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے دعوت نامہ موصول ہوا۔انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’میں نے کبھی اس کانفرنس کا نام نہیں سنا تھا۔ دراصل مجھے جس چیز نے اس کی طرف زیادہ متوجہ کیا وہ اس کا محل وقوع تھا کیونکہ یہ سوئٹزرلینڈ میں تھا اور تصاویر میں بہت خوبصورت معلوم ہو رہا تھا۔‘تاہم عالمی وبا کے باعث یہ کانفرنس منسوخ کر دی گئی۔ ایکنز اور ان کی ٹیم اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول رہے۔ ان کی کمپنی میں نایاب بیماریوں کے لیے ادویات ڈھونڈنا شامل تھا، خاص طور پر وہ جنھیں بڑی فارما سوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے نظر انداز کیا جاتا ہے کیونکہ انھیں وہ منافع بخش محسوس نہیں ہوتیں۔
وہ ایسی بیماری کے بارے میں بھی تحقیق کرتے ہیں ’جو بچوں کی زندگیوں کو مختصر کرتی ہے اور دنیا بھر میں 100 کے لگ بھگ افراد کو متاثر کرتی ہے۔‘ اس کے علاوہ وہ ملیریا جیسے انفیکشن کے بارے میں بھی تحقیق کرتے ہیں کیونکہ ’اگرچہ کچھ معاملات میں دوائیں تو موجود ہوتی ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ مؤثر ہونا بند ہو جاتی ہیں۔‘ایکنز کہتے ہیں کہ ’اس سے ہم امیر تو نہیں ہوں گے لیکن کم از کم ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم معاشرے کے لیے کچھ کر رہے ہیں۔‘ایک سال بعد انھیں دوبارہ اس کانفرنس کا دعوت نامہ ملا، تاہم اس مرتبہ انھیں اس پرفضا مقام پر پہنچنے کا موقع نہیں مل سکتا تھا کیونکہ یہ کانفرنس زوم پر منعقد ہونا تھی۔اس مرتبہ ایکنز نے اس کانفرنس کو پہلے سے زیادہ توجہ دی کیونکہ یہ بائیولوجیکل اور کیمیکل ریسرچ میں ایسے نئے رجحانات کے بارے میں تھی جن سے سیکورٹی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
ایکنز کہتے ہیں کہ ’اس کانفرنس میں وہ ٹیکنالوجی کے غلط استعمال، سائنس اور سائنسی طریقوں میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ان سے کانفرنس کی جانب سے ایک پریزینٹیشن بنانے کو کہا گیا تھا جو ایکنز کو ’بہت عجیب‘ محسوس ہوئی۔’اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ہم جو کرتے ہیں اس کا غلط استعمال کیسے کر سکتے ہیں۔‘
کمپنی کا مصنوعی ذہانت پر مبنی ماڈل:کلیبوریشنز فارماسوٹیکلز نے ان نایاب بیماریوں کے لیے ادویات ایجاد کرنے کے لیے ایک مصنوعی ذہانت کا پلیٹ فارم میگاسن بنایا تھا۔ایکنز کہتے ہیں کہ ’یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس آپ خریدتے ہیں لیکن آپ اسے جوڑ سکتے ہیں، جیسے بچوں کے کھلونوں میں ہوتا ہے۔‘اس کو بنانے کے لیے درکار وہ تمام اشیا انھوںنے ’اوپن سورس سافٹ ویئر ڈیٹا بیس‘ سے حاصل کر لی تھیں۔ ایکنز بتاتے ہیں کہ ’پھر ہم معلومات کے ڈیٹا بیس میں گئے اور اس کے ذریعے مشین لرننگ ماڈلز بنائے اور پھر انھیں میگاسن میں لگا دیا۔ اس سے ایسے مالیکیول ڈیزائن کرنے میں مدد ملتی ہے جن کی مخصوص خصوصیات ہوں۔‘یعنی ایس اے آئی ماڈل کو ایک انسانی کیمسٹ کی طرح کام کرنے کی ٹریننگ دی گئی لیکن اس کی کام کرنے رفتار بہت زیادہ تھی۔ادویات اصل میں مالیکیولز سے مل کر بنتی ہیں اور میگاسن کمپنی نہ صرف ایسے مالیکیولز میں چھان بین کرتی ہے جو پہلے سے موجود ہوتے ہیں تاکہ یہ علم ہو سکے کہ کوئی مخصوص مالیکیول کسی بیماری کے لیے مفید ثابت ہو گا یا نہیں لیکن اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ ایسے مالیکیول بھی ڈیزائن کر سکتا ہے جو اس نے کبھی نہ دیکھے ہوں۔
کانفرنس کے آغاز سے قبل ایکنز اور ان کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر فابیو اربینا نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اگر میگاسن غلط ہاتھوں میں چلا جائے تو کیا ہو سکتا ہے۔اس طرح اس تجربے کی بنیاد رکھی گئی جسے وہ ’ڈاکٹر مالواڈو پراجیکٹ‘ کہتے ہیں۔یہ انتہائی اہم مرحلہ ثابت ہوا، کیونکہ ایک نئی دوا بنانے کی کوشش میں اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ وہ زہریلی نہ ہو۔اگر وہ اس کے فلٹر سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر کیا ہو گا؟’ہم نے ماڈل میں سوئچ کی سمت کو بدلا۔ ہم نے اسے غیر زہریلے کی جگہ زہریلے کی کمانڈ دی، یہ کسی پروگرام میں زیرو اور ون کو تبدیل کرنے جیسا تھا، انتہائی آسان۔‘انھوں نے اینٹر دبایا اور میگاسن کام کرنے لگا۔ اگلے روز اس ماڈل نے انھیں ایسے لاکھوں مالیکیولز کی فہرست دے دی۔ اب انھیں یہ دیکھنا تھا کہ ان میں سے کتنے ایسے ہیں جنھیں وہ جانتے ہیں۔وہ اس حوالے سے نتائج دیکھ کر حیران ہو گئے۔ایکنز کہتے ہیں کہ ’اس انتہائی سادہ سی تبدیلی کے پروگرام پر ڈرامائی اثرات پڑے۔‘
صرف ایک بٹن دبانے سے میگاسن نے ایک انتہائی خوفناک وی ایکس نرو ایجنٹ کے مالیکیول کو انجینئر کر دیا تھا جس پر اقوامِ متحدہ کی جانب سے پابندی عائد کی گئی ہے اور اسے بڑے پیمانے پر تباہی کے آلہ کار کے طور پر لسٹ کیا گیا ہے۔یہ اب تک بنائے جانے والے کیمیکلز میں سے سب سے زیادہ ہلاکت خیز سمجھا جاتا ہے کیونکہ اگر انسانی جلد سے اس کا ایک قطرہ بھی چھو جائے تو یہ کسی بھی انسان کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں یہ بھی علم ہوا کہ میگاسن ’ایسے مالیکیولز بھی ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا ہے جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں لیکن ان میں بہتری لا کر انھیں انتہائی طاقتور کیمیکل ہتھیاروں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔‘اس بارے میں تشویشناک بات یہ بھی تھی کہ جہاں ڈاکٹر مالواڈو ایک تھیوریٹیکل تجربہ تھا، شر پسند افراد بھی ’ایسا کر سکتے تھے، اگر انھوں نے اب تک نہیں کیا۔‘
انھوں نے اس حوالے سے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو پی ایچ ڈی کرنے کی بھی ضرورت نہیں، صرف کوڈنگ آنی چاہیے، ایک عام سا لیپ ٹاپ اس کے علاوہ سب کچھ ہی مفت میں آن لائن دستیاب ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کسی کیمسٹ کو اس کے بارے میں علم ہو جائے وہ ان مالیکیولز کو اسلحے میں تبدیل کرنا چاہیے، تو کیونکہ کسی کو بھی ان کی موجودگی کے بارے میں علم نہیں ہے، اس لیے ان ہتھیاروں کا پتا چلانا یا ان کا حل ڈھونڈنا تقریباً ناممکن ہو گا۔‘
سوچ بچار کا موقع:اس حوالے سے ان کو جو مشکل درپیش تھی وہ یہ کہ اگر وہ اچھی نیت والے افراد کو اس کے خطرات کے بارے میں بتایا گیا تو شرپسندوں کو اس کے امکانات کے بارے میں بھی علم ہو جائے گا۔ایکنز اور اربینا نے فیصلہ کیا کہ وہ سپیز کو اپنی پریزینٹیشن میں ڈاکٹر مالواڈو منصوبے کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کریں گے۔ انھوں نے ان معلومات کو وسیع تر تفصیل میں بیان کرنے کی کوشش کی اور اس طرح ماہرین کو خبردار بھی کر دیا۔ اس ڈھکے چھپے انداز میں کی گئی بات کے اثرات پھر بھی سب سے زیادہ ثابت ہوئے۔اس کے کچھ دنوں بعد ایک آرٹیکل شائع ہوا جس میں کانفرنس میں ہونے والی گفتگو کا جائزہ لیا گیا اور اسے نیچر مشین انٹیلی جنس نامی جرنل میں چھاپا گیا اور اس نے اخبارات اور میگزین کی توجہ بھی حاصل کی۔ واشنگٹن پوسٹ اور دی اکانومسٹ نے بھی اس تحریر کو چھاپا اور اس سے کیمیائی ہتھیاروں، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، فارماسوٹیکل یا یہاں تک فلسفیوں کے درمیان بھی بحث کا آغاز ہو گیا۔
ایکنز اور ان کی ٹیم کو کو وائٹ ہاؤس می آفس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پالیسی اینڈ دی نیشنل سکیورٹی کونسل میں بھی مدعو کیا گیا۔ایکنز کہتے ہیں کہ ’یہ ہمارے لیے سب غیر معمولی تھا۔‘ان ابتدائی اندیشوں کے باوجود کہ اس بارے میں بات کرنے سے روکنے کی بجائے انھیں اس حوالے سے حوصلہ افزائی کرنی ہو گی، ایکنز نے خطرہ مول لیتے ہوئے آگاہی بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نہ صرف اس حوالے سے دلچسپی بہت زیادہ تھی بلکہ ’میں اب سکون سے سو بھی نہیں سکتا تھا۔‘تاہم وہ اب تک وہ فہرست منظرِ عام پر لانے پر آمادہ نہیں ہیں جس میں میگاسم نے وہ ہزاروں زہریلے مالیکیولز کے بارے میں بتایا تھا۔ انھوں نے یہ فہرست وائٹ ہاوس سے بھی شیئر نہیں کی۔
اس میں مزید کیا بہتری کی جا سکتی ہے؟:تاہم اس سب کے باوجود اس میں مصنوعی ذہانت میں بہتری کو نہیں روکا جا سکتا۔ میگاسن جیسے پلیٹ فارمز بہت زیادہ مفید ہیں اور ایکنز سے زیادہ اس بارے میں کوئی نہیں جانتا۔اس کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے ایک حکمتِ عملی ’لوگوں کو ان مسائل سے آگاہ کرنا ہے۔‘’اب جبکہ حکومت کو بھی اس کا علم ہو گیا ہے تو ہمیں اس مسئلے پر حکومتی ایجنسیوں کی جانب سے بلایا جاتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’مئی میں مثال کے طور پر ہم برازیل میں ایک کانفرنس میں جائیں گے، تاکہ امریکی محکمہ داخلہ کی جانب سے اکیڈیمکس اور انڈسٹری سے منسلک افراد سے جینریٹو اے آئی کے ممکنہ مسائل کے بارے میں بات کریں گے۔‘
ایکنز بتاتے ہیں کہ ’پراجیکٹ ڈاکٹر ایول کے بعد سے جینریٹو اے آئی زیادہ عوامی ہو چکی ہے اور چیٹ جی پی ٹی اور ڈیل ای جیسے پلیٹ فارم سامنے آ چکے ہیں۔’چیٹ ایپس میں بھی مالیکیولز کو ڈیزائن کرنے کی صلاحیت آ گئی ہے۔ اسے استعمال کرنا آج سے ڈیڑھ سال پہلے کی نسبت زیادہ آسان ہے۔ اس لیے سائنسدانوں کو آگاہی فراہم کرنا اہم ہے جن کا وہ تجربہ نہیں ہے جو ہمارا ہے۔‘کچھ ماہرین جن سے میڈیا نے بات کی ہے انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فی الحال خطرے کی گھنٹیاں بجانے کی ضرورت نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ کسی مالیکیول کی نشاندہی کرنا اسے کسی دوا یا ہتھیار میں تبدیل کرنے کا پہلا مرحلہ ہے اور یہ سفر عموماً بہت طویل ہوتا ہے اور ان میں سے اکثر کے آخر میں مایوسی ہوتی ہے۔اس بحث کے بارے میں دونوں اطراف سے ہی ایسی ہی توجیہات پیش کی جاتی ہیں۔
’ترکیب پتا ہو تو کیک کوئی بھی بنا سکتا ہے‘:کچھ ماہرین اس صورتحال کو زیادہ سنگین نہیں سمجھتے، ان کا ماننا ہے کہ میگا سن نے ایک اجزا کی فہرست فراہم کی ہے۔ان کا ماننا ہے کہ اس کے لیے متعدد باورچیوں کی ضرورت ہو گی اور تب بھی ایک بہترین ترکیب چاہیے ہو گی۔ایکنز کہتے ہیں کہ ’ایک سال پہلے تک میں اس صورتحال سے مطمئن ہوتا۔ اس طرح کے لوگ تو ہمیشہ سے موجود رہے ہیں جنھوں نے ادویات اور ہتھیار غیر قانونی طور پر بنائے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ ایک مخصوص کام ہے۔ تاہم اے آئی نے باورچیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔‘ایکنز کے لیے میگاسن جیسی ٹیکنالوجیز صرف اجزا نہیں بناتیں بلکہ ترکیب بھی بتا سکتی ہیں جو اگر کام نہ بھی کریں تو انھیں بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب آپ ایک مرتبہ ترکیب فراہم کر دیتے ہیں تو کوئی بھی کیک بنا سکتاہے۔ کچھ دوسرے افراد سے بہتر بنا سکتے ہیں، لیکن خطرہ پھر بھی برقرار رہتا ہے۔‘ تاہم ان کے پاس ایک ایسی ترکیب بھی ہے جس سے سائنسدان بہتر انداز میں سو سکتے ہیں۔’ہم ان ٹیکنالجیز کے ذریعے اپنا دفاع کر سکتے ہیں لیکن ان کے ذریعے نئے زہریلے مالیکیولز بھی بنا سکتے ہیں اور پھر انھیں کنٹرول بھی کر سکتے ہیں۔‘
سوئٹزرلینڈ میں متعدد ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو اس حوالے سے متحرک ہیں اور اس بارے میں بحث جاری ہے (او پی سی ڈبلیو) نامی تنظیم کیسے ان مالیکیولز کی نگرانی کر سکتا ہے اور اپنے فریم ورک میں اے آئی کو کیسے رکھ سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS