مولانا عبدالحفیظ اسلامی
قرآن کریم میں ہے ۔(ترجمہ) اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، خدا پرستی کی نشانیوں کو بے حرمت نہ کرو نہ حرام مہینوں میں سے کسی کو حلال کرلو، نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو، نہ ان جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں، نہ ان لوگوںکو چھیڑ وجو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میںمکان محترم (کعبہ) کی طرف جا رہے ہوں۔ ہاں احرام کی حالت ختم ہوجائے تو شکار تم کرسکتے ہو۔ اور دیکھو، ایک گروہ نے جو تمہارے لئے مسجد حرام کا راستہ بند کردیاہے تو اس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کردے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو۔ نہیں! جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو، اس کی سزا بہت سخت ہے۔خدا پرستی کی کئی کئی نشانیاں ہیں جن کی تعظیم ہرمسلمان پر ضروری ہے۔ آیت مبارکہ میںیہ لفظ یوں ادا کیا گیا ہے ’’لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللّہِِ ‘‘’’اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو‘‘دراصل یہ لفظ شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ’’علامت‘‘ یعنی آنکھوں سے دیکھے جانے والی چیزیں اور محسوس کی جانے والی باتیں وغیرہ۔ اللہ تبارک تعالیٰ یہاں پر جن ’’شعائر‘‘ کی طرف اہل ایمان کو متوجہ فرما رہے ہیں یہ شعائر حج سے متعلق ہیں غرض کہ شعائر اللہ کے احترام کے عام حکم دینے کے بعد آگے کے فقرے میں چند خاص شعائر کا نام لیکر ارشاد ہورہا ہے’’وَلاَ الشَّہْرَ الْحَرَامَ ‘‘’’نہ حرام مہینوں میںسے کسی کو حلال کرلو‘‘ سال کے کل مہینوں کی تعداد بارہ ہے جن میں کے چار مہینے ادب والے ہیں۔ (۱) ذوالقعدہ (۲)ذی الحجہ (۳) محرم(۴) رجب۔ جیسا کہ سورۃ التوبۃ کی آیات 63 میں ارشاد ہوا ہے فرمایا۔ ’’منہااربعۃ حرم‘‘ ’’اور ان میں چار مہینے حرام ہیں‘‘ یعنی ادب کے ہیں۔ تفاسیر کے مطالعہ سے ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ مذکورہ چار مہینوں کا ادب و احترام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے ہی چلتا آیاہے اور آخری نبیؐ سے ایک عرصہ قبل تک بھی لوگ ان مہینوں کا لحاظ کرتے رہے اور ان مہینوں میں نہ جھگڑا کرتے اور نہ ہی خونریزیاں ہوا کرتیں لیکن عرب کی جہالت جب اپنی انتہا کوپہنچ چکی تو لوگ ان ادب والے مہینوں کا پاس و خیال رکھنا چھوڑ دیئے اور خود ساختہ طریقے پر عمل کرتے ہوئے ’’نسی‘‘ کی رسم نکالی گئی، اور جب چاہتے حرمت والے مہینوں کی ترتیب میں الٹ پھیر کرتے اور اللہ نے جن مہینوں کو ادب والے مہینے قرار دیا ہے اس کی نافرمانی کرتے ہوئے ایک قبیلہ دوسرے پر چڑھائی کرتا اور کسی چیز کا انتقام لینا ہوتا تو لے لیتا۔ اس طرح اللہ تبارک تعالیٰ عرب کے ان جاہلانہ فکر و عمل سے اہل ایمان کو بچانے کیلئے حکم فرما رہے ہیںکہ اے میرے پیارے بندو ادب والے مہینوں کو بے حرمت نہ کرو۔
قربانی کے جانور اور بے حرمتی: آیت مبارکہ میںتیسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ۔’’نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو، نہ ان جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خدا وندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں‘‘۔ آیت مبارکہ میں قربانی کے جانوروں سے متعلق دو باتیں آئی ہیں۔ (۱) وَلاَ الْہَدْیَ’’ھدی‘‘ ایسے جانور کو کہتے ہیں جو قربانی کیلئے حاجی اپنے ساتھ حرم کو لے جاتے ہیں۔(۲) وَلاَ الْقَلآئِدَقلادہ کی جمع قلائد ہے اس طرح قلادہ کے معنی پٹے کے ہوئے غرض کہ حرم (کعبۃ اللہ شریف) کو نذر خداوندی کیلئے لیجائے جارہے ان جانوروں کو نہ روکو، اور نہ ہی ان کے ساتھ دست درازی کرو جن کے گلے میں ’’فی اللہ‘‘ کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں مطلب یہ کہ ان قربانی کے جانوروں کو کسی سے چھینا جائے اور نہ ہی حرم شریف تک پہنچنے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ کھڑی کی جائے۔ اس سلسلہ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمت اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں جسے مختصر طور پر نقل کیا جاتا ہے وہ لکھتے ہیں کہ۔(۱) ’’شعائر اللہ سے مراد وہ تمام علامات یا نشانیاںہیں جو شرک و کفر اور دہریت کے بالمقابل خالص خدا پرستی کے مسلک کی نمائندگی کرتی ہوں‘‘۔(۲)یاد رکھنا چاہئے کہ شعائر اللہ کے احترام کا یہ حکم اس زمانے میںدیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں اور مشرکین عرب کے درمیان جنگ برپا تھی، مکہ پر مشرکین قابض تھے، عرب کے ہر حصہ سے مشرک قبائل کے لوگ حج و زیارت کیلئے کعبہ کی طرف جاتے تھے اور بہت سے قبیلوں کے راستے مسلمانوں کی زد میں تھے۔اس وقت حکم دیاگیا کہ یہ لوگ مشرک ہی سہی، تمہارے ان کے درمیان جنگ ہی سہی، مگر جب یہ خدا کے گھر کی طرف جاتے ہیں تو انہیں نہ چھیڑو، حج کے مہینوں میںان پر حملہ نہ کرو، خدا کے دربار میں نذر کرنے کیلئے جو جانور یہ لئے جارہے ہوں ان پر ہاتھ نہ ڈالو کیونکہ ان کے بگڑے ہوئے مذہب میں خدا پرستی کا جتنا حصہ باقی ہے وہ بجائے خود احترام کا مستحق ہے نہ کہ بے احترامی کا۔
قربانی کے جانور اور تعظیم : علامہ ابن کثیرؒ نے یوں تحریر فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب حج کیلئے نکلے تو آپؐ نے وادی عقیق یعنی ذوالحلیفہ میں رات گزاری، صبح اپنی نو (۹) بیویوں کے پاس گئے پھر غسل کر کے خوشبو ملی اور دو رکعت نماز ادا کی اور اپنی قربانی کے جانور کے کوہان پر نشان کیا اور گلے میںپٹہ ڈالا اور حج اور عمرہ کا احرام باندھا، قربانی کیلئے آپؐ نے بہت خوش رنگ مضبوط اور نوجوان اونٹ ساٹھ سے اوپر اپنے ساتھ لئے تھے۔ جیسے کہ قرآن کا فرمان ہے جو شخص خدا تعالیٰ کے احکام کی تعظیم کرے اس کا دل تقوی والاہے۔
بعض سلف کا فرمان ہے کہ تعظیم یہ بھی ہے کہ قربانی کے جانوروں کو اچھی طرح رکھا جائے اور انہیں خوب کھلایا پلایا جائے اور مضبوط اور موٹا کیا جائے۔حضرت علی بن ابو طالبؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم قربانی کے جانوروں کی آنکھیں اور کان دیکھ بھال کر خریدیں۔
مسجد الحرام کا قصد اور بے حرمتی:آیت مبارکہ میں چوتھا فرمانِ ربانی یوں ہورہا ہے کہ جس کامطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی بھی بے حرمتی نہ کرو جو عظمت والے گھر کعبۃ اللہ شریف کے قصد سے جارہے ہیں اور جو یہ چاہتے ہیں کہ پروردگار کا فضل اور اس کی خوشنودی حاصل کریں۔ بے حرمتی نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسافرین حج و عازمین حج کے اس سفر میں ان سے کسی بھی طرح کی کوئی مزاحمت نہ کرو اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی تکلیف و ایذا نہیں پہنچاؤ کہ شعائر اللہ کے یہ احکام ایسے حالات میں دیئے گئے ہیں جبکہ مشرکین مکہ اور مسلمانوں کے درمیان سخت قسم کی، حق و باطل کی محاذ آرائی چل رہی تھی اور سارے عرب میں ماحول گرم تھا اور دوسری جانب مسلمانوں کو یہ مواقع حاصل تھے کہ حج کو جانے والے مشرک قبیلوں پر آسانی سے ہاتھ ڈال سکیں ظاہر بات ہے کہ اس سے شعائر اللہ کی توہین ہوتی ہے اس طرح اللہ تبارک تعالیٰ اہل ایمان کو حکم فرماتے ہوئے، توہین شعائر اللہ سے بچا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہاں پر مشرکین کی تعظیم مقصود نہیں ہے بلکہ یہ لوگ شعائر اللہ کی علامتوں کے ساتھ جو سفر کررہے ہیں اس کی اصل تعظیم مقصود ہے۔