لباس اسلامی شریعت کی روشنی میں

0
لباس اسلامی شریعت کی روشنی میں

ڈاکٹر حافظ کرناٹکی

لباس یا کپڑے دراصل ستر پوشی اور موسم کی سختی و گرمی سے بچنے کے لیے ہوتے ہیں، مگر اب زمانہ بدل گیا ہے۔ لوگ کپڑے ستر پوشی کے لیے کم اور فیشن کے لیے زیادہ پہنتے ہیں۔ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا، دین کی دولت عطا کی اور جینے کا بہترین سلیقہ سکھایا۔ یہ اسلام کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ سونے ، جاگنے ، کھانے پینے، رہنے سہنے، ہنسنے مسکرانے اور لوگوں سے ملنے جلنے سے لے کر کپڑے پہننے تک کے آداب اور سلیقے سے آگاہ کیا تا کہ ہم ایک اچھے اور بہترین انسان کی صفات سے متصف ہوسکیں اور ہمارا ظاہر اور باطن ایسا ہو کہ اس سے ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائے۔
لباس ہر انسان کو ایسا پہننا چاہیے جو شرم و حیا، غیرت و شرافت، اور جسم کی ستر پوشی کے ساتھ ساتھ موسم کے تقاضے کے مطابق ہو اور جس سے تہذیب نفس، سلیقے، شرافت اور زینت و جمال کے ساتھ ساتھ انسانیت کا بھی اظہار ہو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے لباس جیسی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ؛’’اے اولاد آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے تاکہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے زینت اور حفاظت کا ذریعہ ہو۔‘‘ (الاعراف ۲۶)
قرآن کریم میں ’’ریشاََ‘‘کا لفظ استعمال ہواہے جس کا مطلب پرندوں کے پر ہیں، پرندوں کے پر دراصل اس کے لیے حسن و جمال کا بھی ذریعہ ہیں اور جسم کی حفاظت کا بھی۔ یہ پر ہی ہوتے ہیں جو پرندوں کو موسم کی سختی، گرمی اور بارش سے بچاتے ہیں اور انہیں خوب صورت بناتے ہیں۔
لباس کا مقصد زیبائش اور پوشش تو ہے ہی لیکن اس کا اصل مقصد قابل شرم حصوں کی سترپوشی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں شرم وحیا کا مادہ پیدا کیا ہے۔ اور اسلام نے تو صاف اعلان کیا ہے کہ حیا ایمان کا حصّہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوّا علیھا السلام سے جنت کا لباس اترگیا تو وہ جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنے جسموں کو ڈھانپنے لگے۔ اس لیے یہ بات ہمیشہ یاد رہنی چاہیے کہ دراصل لباس کا سب سے اہم مقصد سترپوشی ہے۔ ہاں لباس اپنے مزاج کے مطابق جائز کپڑوں اور تراش خراش سے بنوائے جاسکتے ہیں۔ موسم اور خطّے کے موسمی حالات کے مطابق بھی لباس کی تیاری درست ہے۔ زیب و زینت کا خیال رکھنا بھی غلط نہیں ہے۔ مگر سترپوشی کا ہر حال میں خیال رکھنا ضروری ہے۔ زمانے کے بدلتے فیشن، اور سستے مذاق کے چکر میں پڑ کر ایسا لباس نہیں پہننا چاہیے کہ دیکھنے والے غیرت مند اور شریف لوگوں کو برا لگے۔ یا لباس اس وضع کا بھی نہیں پہننا چاہیے کہ لوگ مذاق اڑائیں۔ لباس ایسا ہونا چاہیے جس سے انسان کے وقار میں اضافہ ہو، اس کی پوشش سے شرافت ٹپکے۔
اللہ نے دنیا میں انگنت جاندار پیدا کئے ہیں، لیکن اس نے اپنے خاص کرم سے لباس کی نعمت سے صرف انسانوں کو نوازا ہے۔ اس لیے کپڑے پہنتے وقت اللہ کی اس خاص نعمت کا خیال ضرور کرنا چاہیے۔ اور خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں اس بے بہا نعمت سے نوازا ہے۔ توجہ سے دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ لباس اللہ کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اس لیے لباس کی ناقدری اور اس کا جو حق ہے سترپوشی اس کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
لباس پر مزید غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ سترپوشی کرتا ہے اور انسان کے وقار میں اضافہ کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح تقویٰ انسان کو خدا سے قریب کرتا ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ سب سے بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ یعنی باطنی پاکیزگی کا لباس جس میں مایوس ہو کر روح مسکراتی ہے۔ اور ظاہری وجود شگفتہ اور پربہار نظر آتا ہے۔ لباس اور کپڑوں کے پہننے میں اس بات کا خیال رہے کہ ہم ایسے کپڑے پہنیں۔ اس وضع کا لباس اختیار کریں جو اللہ کے نیک بندوں نے اپنایا ہے۔ جو شرافت کے مطابق ہو، جس سے جھوٹی شان وشوکت اور تکبر کا اظہار نہ ہو اور نہ ایسا لباس پہننا چاہیے جس سے مرد عورت کے اور عورت مرد کے مشابہ نظر آئے۔ اپنی وضع اور پوشش ایسی رکھیے جس کو دیکھ کر دیکھنے والے کو لگے کہ واقعی یہ ایک نیک خصلت اور دیندار انسان ہے۔ عورتوں کو یہ زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ شریعت کی پابندی کو نظر انداز کرکے مردانہ لباس پہنیں اور نہ مردوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ عورتوں جیسے کپڑے اور لباس استعمال کرے، اس کے لیے وعیدیں ہیں۔
جب بھی کبھی نیا لباس پہنیں، یا نئے کپڑے خریدیں تو اس کا نام لے کر خدا کا شکرادا کریں کہ اس نے اپنے لطف و کرم سے اتنا عمدہ اور نیا کپڑا اور نیا لباس عنایت کیا۔ دنیا میں نہ جانے کتنے لوگ ہوں گے جنہوں نے برسوں سے کوئی نیا لباس نہ پہنا ہوگا۔ یا اتنی استطاعت نہ رکھتا ہوگا کہ اپنے لیے نئے کپڑے خرید سکے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں؛ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم جب کوئی نیا لباس چاہتے وہ عمامہ، کرتا یا چادر ہی کیوں نہ ہو پہنتے تھے تو اس کا نام لے کر فرماتے تھے؛’’خدایا تیرا شکر ہے تو نے مجھے یہ لباس پہنایا، میں تجھ سے اس کے خیر کا خواہاں ہوں اور میں اپنے آپ کو تیری پناہ میں دیتا ہوں اس لباس کی برائی سے اور اس کے مقصد کے اس برے پہلو سے جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے۔‘‘
اس دعا پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ بندہ اپنے رب سے دعاگو ہے کہ خدایا تو مجھے توفیق دے کہ میں تیرا بخشا ہوا لباس انہیں مقاصد کی تکمیل کے لیے پہنوں جو تیرے نزدیک پاکیزہ اور محبوب ہیں۔ اے خدا تو مجھے توفیق دے کہ میں اس لباس سے اپنی سترپوشی کرسکوں اور بے شرمی، بے حیائی کی باتوں اور حرکتوں سے اپنے ظاہر و باطن کو محفوظ رکھ سکوں اور شریعت نے جوحدود متعین کیے ہیں اس میں رہتے ہوئے اپنے جسم کی حفاظت کرسکوں اور اس کو اپنی زینت اور جمال کا ذریعہ بنا سکوں۔ اچھے، عمدہ اور بیش قیمت کپڑے پہن کر نہ تو دوسروں پر اپنی بڑائی جتاؤں اور نہ اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ کروں، اور نہ اپنے عمدہ کپڑوں پر اتراؤں اور غرور کروں اور نہ تیری بخشی ہوئی اس نعمت کو استعمال کرنے میں حد سے گزروں اور نہ شریعت کے حکم کو نظر انداز کروں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا؛’’جو شخص نئے کپڑے پہنے اور اگر وہ شخص گنجائش رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے پرانے کپڑے کسی غریب کو خیرات میں دے دے اور نئے کپڑے پہنتے وقت یہ دعا پڑھے‘‘’’ترجمہ: ساری تعریف اور حمد اس خدا کے لیے ہے جس نے مجھے یہ کپڑے پہنائے، جس سے میں اپنی سترپوشی کرتا ہوں اور جو اس زندگی میں میرے لیے حسن و جمال کا بھی ذریعہ ہے۔‘‘
اللہ اور رسولؐ کی اپنی امت اور اللہ کے بندوں سے محبت کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے، اسلام نے صرف کپڑوں کے استعمال پر ہی توجہ نہیں دی ہے اسے پہنتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے اس کا بھی طریقہ بتایا ہے اور کہا ہے کہ کپڑے پہنتے وقت دائیں جانب کا خیال رکھیں۔ قمیص، کرتا، کوٹ ، شیروانی، جمپر جو بھی کپڑے پہنیں تو پہلے دائیں آستین میں پہنیں اسی طرح پاجامہ، پینٹ جو بھی زیر جامہ کپڑے پہنیں تو پہلے دایاں پاؤں داخل کریں۔ حضورؐ جب کرتا پہنتے تھے تو پہلے دایاں ہاتھ آستین میں ڈالتے تھے اس کے بعد بایاں ہاتھ آستین میں ڈالتے تھے، اسی طرح جب آپؐ جوتا پہنتے تھے تو پہلے دایاں پاؤں جوتے میں ڈالتے تھے پھر بایاں پاؤں جوتے میں ڈالتے تھے اور جب جوتا اتارتے تھے تو پہلے بایاں پاؤں کا جوتا اتارتے تھے پھر دایاں پاؤں کا جوتا اتارتے تھے۔
اس کے علاوہ بھی اسلام نے بہت ساری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ مثلاً کپڑے پہننے ہوں تو پہلے انہیں اچھی طرح جھاڑ لیجئے، ممکن ہے کہ اس میں کوئی کیڑا مکوڑا گھسا بیٹھا ہو، جو کاٹ کر آپ کو تکلیف میں مبتلاکردے۔ حضورؐ ایک بار جنگل میں اپنے موزے پہن رہے تھے پہلا موزہ پہننے کے بعد جب آپ نے دوسرا موزہ پہننے کا ارادہ فرمایا تو اچانک ایک کوّا جھپٹا اور وہ موزہ لے کر اڑگیا اور کافی اوپر لے جا کر اسے چھوڑ دیا۔ موزہ جب اونچائی سے نیچے گرا تو اس میں سے ایک سانپ اچھل کر دور جا پڑا یہ دیکھ کر آپؐ نے خدا کا شکر ادا کیا اور ارشاد فرمایا کہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ جب موزہ پہننے کا ارادہ کرے تو اس کو اچھی طرح سے جھاڑ لیا کرے۔
لباس کے بہت سارے رنگ ہوتے ہیں، اب تو مختلف رنگوں کے لباس کا عام رواج ہوگیا ہے۔ مگر خیال رہے کہ سفید رنگ مردوں کے لیے سب سے پسندیدہ رنگ ہے۔حضورؐ نے فرمایا ہے کہ ’’سفید کپڑے پہنا کرو، یہ بہترین لباس ہے۔ سفید کپڑا ہی زندگی میں پہننا چاہیے اور سفید کپڑوں میں ہی مردوں کو دفن کرنا چاہیے۔‘‘ایک اور موقع پر آپ ؐ نے ارشاد فرمایا؛ ’’سفید کپڑے پہنا کرو اس لیے کہ سفید کپڑا زیادہ صاف ستھرا رہا کرتا ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو دفنایا کرو۔‘‘
زیادہ صاف ستھرا رہنے سے مراد یہ ہے کہ سفید کپڑے پر اگر ذرا سا بھی داغ دھبہ لگ جاتا ہے تو وہ صاف نظر آتا ہے۔ اور آدمی اسے فوراً صاف کرنے کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ جبکہ رنگین اور شوخ رنگوں کے کپڑوں اور چھینٹ کے کپڑوں کی خرابی یہ ہے کہ اگر اس میں چھوٹا سا داغ دھبہ لگ بھی جائے یا تھوڑا گردو غبار پڑبھی جائے تو پتہ نہیں چلتا ہے اور اس کے پہننے والا اس کی صفائی کی طرف دھیان نہیں دیتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود کپڑے پہنے انسان کو اس کا داغ اور دھبہ نظر نہیں آتا ہے۔ جبکہ دوسرے اسے دیکھ کر دل ہی دل میں اس کا مذاق اڑاتے ہیں یا پھر اس کی صفائی پسند طبیعت کی خرابی سے بددل ہوجاتے ہیں۔ جس سے دونوں کے دلی جذبات پر حرف آتا ہے۔ چوں کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے آئینہ ہوتا ہے اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ ایک دوسرے کے ذوق طبیعت اور صفائی پسند مزاج کا خیال رکھا جائے۔
اسلام نے کپڑوں کے اور لباس کے حوالے سے بہت ساری باتیں کھول کھول کر بیان کردی ہیں۔ اور کہا ہے کہ لنگی، پاجامہ، یا جو بھی لباس انسان پہہنے وہ ٹخنوں سے اونچا رکھے۔ جو لوگ غرور اور تکبر کی وجہ سے زمین پر جھاڑو لگانے جیسے لمبے کپڑے پہنتے ہیں نبی اکرمؐ کے قول کے مطابق وہ لوگ ناکام اور نامراد ہیں، اور سخت عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ؛’’تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ خدا تعالیٰ قیامت کے دن نہ تو ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف نظر فرمائے گا اور نہ ان کو پاک و صاف کر کے جنت میں داخل کرے گا بلکہ ان کو انتہائی دردناک عذاب دے گا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ؐ یہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا؛ ایک وہ جو غرور و تکبر میں اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے۔ دوسرا وہ شخص جو احسان جتاتا ہے۔ اور تیسرا وہ شخص جو جھوٹی قسموں کے سہارے اپنی تجارت کو چمکاتا ہے۔‘‘

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS