دہلی فسادات پر رپورٹ

0

ترقی کے حصول کے لیے امن ضروری ہے، فسادات امن کے دشمن ہوتے ہیں، اس لیے ترقی کی طرف گامزن کسی ملک کے لیے فسادات نیک فال نہیں سمجھے جاتے۔ وطن عزیز ہندوستان میں آزادی سے پہلے فسادات ہوتے تھے تو سمجھا جاتا تھا کہ انگریزوں کی ’تقسیم کرو، حکومت کرو‘ پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ آزادی سے ذرا پہلے اور فوراً بعد ہونے والے فسادات کے بارے میں سمجھا گیا کہ یہ قابض حکومت کے ہندوستان کو آزادی دینے میں پہلے تاخیر اور پھر تعجیل کی وجہ سے ہو رہے ہیں مگر آج تک فسادات کو روکنے میں کامیابی کیوں نہیں ملی، یہ سوال جواب طلب ہے؟ 2019 تک یہ بات کہی جاسکتی تھی کہ فساد کہیں بھی ہو جائے، دہلی میں کبھی نہیں ہوگا، یہ اس ملک کی راجدھانی ہے مگر 23 فروری، 2020 کو یہ بات خوش فہمی ثابت ہوئی۔ 29 فروری، 2020 تک دہلی میں فسادات ہوتے رہے، مذموم واقعات ہوتے رہے، لوگوں کی جانیں جاتی رہیں، اس ایک ہفتے کے فسادات میں ایسا لگا نہیں کہ امن کا قیام زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ان فسادات میں 53 لوگوں کی جانوں کا اتلاف ہوا تھا۔ ان میں 36 مسلمان اور 15 ہندو تھے جبکہ دو لوگوں کی شناخت نہیں ہو سکی تھی۔ مجروح ہونے والوں کی تعداد 200 سے زیادہ تھی۔ فسادات میں کروڑوں روپے کی جائیداد کا بھی نقصان ہوا تھا۔ 2200 لوگ مختلف الزامات کے تحت حراست میں لیے گئے تھے۔ دہلی کے فسادات نے ہر ذی ہوش شخص کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ مرکزی اوردہلی سرکاروں میں کام کر چکے سابق نوکرشاہوں کے گروپ، ’کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ ‘نے یہ تہیہ کیا کہ فسادات کی غیر جانب دارانہ اورآزاد جانچ ہونی چاہیے۔ اس کے لیے اس نے ایک کمیٹی بنائی۔ اس کمیٹی کا سربراہ سپریم کورٹ کے سابق جج، جسٹس مدن لوکرکو بنایا گیا۔ اس کمیٹی کے چار ارکان کے لیے دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس اے پی شاہ، دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج، جسٹس آر ایس سوڑھی، پٹنہ ہائی کورٹ کی سابق جج، جسٹس انجنا پرکاش، سابق داخلہ سکریٹری، جی کے پلئی منتخب کیے گئے تھے۔ آج اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ ’اَن سرٹن جسٹس: اے سٹیزنس کمیٹی رپورٹ آن دی نارتھ ایسٹ دہلی وائلنس 2020‘ نام سے پیش کر دی۔ 171 صفحات کی اس رپورٹ میں کمیٹی نے پولیس کی تفتیش پر سوالات اٹھائے ہیں۔ رپورٹ میں وزارت داخلہ،دہلی سرکار اور میڈیا پر بھی سخت تنقیدی کی گئی ہے۔
یہ رپورٹ تین ابواب پر مشتمل ہے۔ ان ابواب سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تفتیشی کمیٹی کے سربراہ اور ارکان نے پہلے تفتیش کے منظم طریقے پر غور کیا اور اس کے بعد تفتیش کی۔ ابواب سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ تفتیشی کمیٹی کے سربراہ اورارکان نے فسادات سے پہلے، ان کے دوران اور بعد کے حالات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کی۔ پہلے باب میں جن اہم نکات کی جانچ کی گئی، ان میں یہ اہم تھے کہ فسادکا ماحول کیسے بنایا گیا، فسادات کے دوران پولیس اور سرکارکا رول کیسا رہا، فسادات کے دوران کیا ہوا۔ دوسرا باب قومی دھارے کے میڈیا اور سوشل میڈیا کے کردار پر مختص ہے۔ تیسرا باب ایک اور اہم باب ہے،کیونکہ اس میں دہلی پولیس کی تفتیش، خاص کر ملزمین پر یو اے پی اے لگانے پر، قانون کے نقطۂ نظر سے کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے آنے سے پہلے بھی یہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ کیا دہلی کے فسادات اسی دن روکے نہیں جا سکتے تھے جس دن یہ شروع ہوئے تھے، کیونکہ ’نمستے ٹرمپ‘ پروگرام کے سلسلے میں ڈونالڈ ٹرمپ 24فروری، 2020 کو ہندوستان آئے تھے اور ان کی واپسی 25 فروری، 2020 کو ہوئی تھی تو ایسی صورت میں عالمی میڈیا کی موجودگی کی وجہ سے ان فسادات کو بڑی کوریج ملنی فطری تھی اور ایسا ہی ہوا۔ اس سے ملک کی بدنامی ہوئی، دہلی پولیس کی ساکھ خراب ہوئی۔ پہلے فساد ہونے پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ حکومت فسادیوں کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے مگر مغربی بنگال کے وزیراعلیٰ رہتے ہوئے جیوتی بسو نے اپنے قول و عمل سے یہ ثابت کیا کہ فسادات روکے جا سکتے ہیں۔ بعد میں لالو پرساد یادو نے بہارکا وزیراعلیٰ رہتے ہوئے فسادات کو روکنے میں کامیابی حاصل کی، اس لیے اب یہ سوال بے معنٰی ہو گیا ہے کہ کیا فسادات روکے نہیں جا سکتے؟ البتہ اس سوال کی اہمیت بڑھ گئی ہے کہ فسادات روکے کیوں نہیں جاتے؟ دہلی فسادات پر آج جاری رپورٹ پر سپریم کورٹ کے مشہور وکیل سنجے ہیگڑے کا کہنا ہے کہ ’چار سابق ججوں اور ایک سابق داخلہ سکریٹری کی اس رپورٹ کو موجودہ سرکار کی طرف سے کوئی توجہ ملنے کی امید نہیں ہے لیکن مستقبل میں مؤرخ اورمحقق اس رپورٹ کو دہلی میں 2020 میں صحیح معنوںمیں کیا ہوا تھا، اس کے لیے ایک صحیح دستاویز کے طور پر ریفرنس کی طرح استعمال کریں گے۔‘
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS