قاری محمد توصیف عالم
اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے سچے دل سے توبہ کرلی وہ ایسا ہوگیا کہ اس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا تھا ہر انسان کو چاہیے کہ اس خالقِ حقیقی کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کرکے رجوع الی اللہ ہوجائے تاکہ اللہ تعالی اس کی توبہ کو قبول کرکے اس کے تمام گناہوں کو بخش دے۔ وہ تو رحیم و کریم ہے۔ اپنے بندوں کو پکار پکار کر کہتا ہے اے میرے بندے! اگر تیرے گناہ آسمان وزمین کے برابر، سمندر کے جھاک کے برابر ہوگئے ہوں اگر تو میری بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کرلے گا تو میں تیرے تمام گناہوں کو بخش دوں گا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ سچے دل سے تائب ہو کر خالقِ کائنات کی بارگاہ میں جھک جائے۔ وہ رب العالمین توبہ کا دروازہ کھول کر اپنے بندوں سے مخاطب ہورہا ہے مگر عوام عیش و عشرت، مال و دولت، اور دنیا کی محبت میں مگن ہے۔
اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو! سب کے سب اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ(سورہ النور)
جو کوئی فلاح کا امیدوار ہے اسے چاہئیے کہ توبہ کرے۔ اب معلوم ہونا چاہیئے کہ توبہ کی شرط اگر ادا ہوگی تو توبہ ضرور درجہ قبولیت کو پہنچے گی۔ جب تم نے توبہ کی ہے تو پھر اس کے مقبول ہونے میں شک نہ کرو بلکہ اندیشہ اور فکر اس بات کی ہونی چاہئے کہ توبہ کی شرط ادا بھی ہوئی یا نہیں۔اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی بندہ ایسا بھی ہوگا کہ وہ اپنے گناہ کے سبب سے بہشت میں جائے گا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یہ کس طرح! تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جب بندہ گناہ کرکے پشیمان ہوتا ہے تو وہ ندامت بہشت میں داخل ہونے تک اس کے ساتھ رہتی ہے۔
علمائے کرام نے کہا کہ ایسے تائب کے حق میں ابلیس کہتا ہے کہ کاش میں اس کو گناہ میں مبتلا نہ کرتا۔مگر آج گناہوں کی فراوانی ہے انسان قدم قدم پر گناہ کررہا ہے مگر گناہ سے بچنے کی کوشش نہیں کرتا اس لئے کہ آج لوگوں کے دل میں فکر آخرت کے بجائے فکر دنیا ہے اور اس مختصر سی زندگی کے لئے گناہوں میں زندگی گزر رہی ہے۔ سوچئے وہ گناہ جو جان بوجھ کر کیا اور اس گناہ پر توبہ نہیں کیا جب بارگاہ الٰہی میں پیشی ہوگی اس وقت رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اللہ کے پیارے حبیب سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے جیسے جیسے اس کے گناہ بڑھتے ہیں وہ دھبہ بڑھتا چلا جاتا ہے لیکن جب وہی انسان خالقِ کائنات کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کرلیتا ہے اور کہتا ہے اے اللہ! میں بڑا سیاہ کار، بدکار ہوں بہت گناہ کئے ہیں تب اللہ تعالی اس کی توبہ کو قبول کرلیتا ہے اور اس کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔
عوام آج بھی اگر اس خالقِ حقیقی سے رشتہ مضبوط کرلیں۔ اور اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوجائے۔ اور زندگی میں عاجزی و انکساری پیدا کرلیں تو ہم دنیا وآخرت میں کامیاب ہوں گے۔
اگر انسان سچے دل سے خالق حقیقی کی بارگاہ میں جھک جاتا ہے تو اللہ تعالی توبہ بھی قبول کرتا ہے اور اس کے گناہوں کو درگزر فرمادیتا ہے۔ دوسری جگہ فرمان الٰہی ہے: اے ایمان والو! توبہ کرو ایسی توبہ کرو جو توبہ کے بعد دوبارہ گناہوں کی طرف پلٹ کر نہ دیکھو اللہ تعالی اتنا سخی اور کریم ہے کہ وہ اپنے بندوں کا انتظار کرتا ہے کہ وہ گناہوں کی گٹھری لے کر، کب ہمارے در پر آئے اور توبہ کرے۔ وہ اتنا کریم و غفور ہے کہ ہر وقت اپنے بندوں کی توبہ کا انتظار کرتا ہے، چاہے وہ دن میں توبہ کریں یا رات میں توبہ کریں۔ جب بندہ توبہ کرتا ہے تو پروردگار کو خوشی ہوتی ہے۔ ذاتِ باری تعالی اس بندہ سے راضی ہوجاتا ہے اور اپنی غفاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بندے کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہیں۔
اب جس انسان کے دل میں خدا کا خوف ہوگا وہ انسان ہر وقت اللہ سے ڈرتا ہے توبہ کرتا ہے۔ مگر جس انسان کے دل میں خدا کا خوف ہے ہی نہیں، وہ اپنے آپ کو سب کچھ سمجھتا ہے، وہ سمجھتا ہے میرے پاس مال و دولت ہے، عیش و عشرت میں زندگی گزارنا ہے آخر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ اندھیری قبر میں سوجاتا ہے۔ اس وقت مال و دولت کام نہیں آتا ہر انسان کو چاہیے کہ توبہ کو لازم کرلیں۔ تاکہ دنیاوی زندگی میں کامیابی ہو اور آخرت میں سرخروئی حاصل ہو۔