زین شمسی
کچھ مصدقہ باتیں ہیں، جیسے کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس سے اس کی زبان چھین لو، کسی مذہب کو کمزور کرنا ہو تو اس سے اس کی تہذیب چھین لو، کسی ملک کی کمر توڑنی ہو تو اس سے تجارتی تعلقات منقطع کر لو، وغیرہ وغیرہ۔گویااپنے دشمن کو مارنے کے لیے ضروری نہیں کہ اسے سامنے سے مارا جائے۔ لطف تو اس میں ہے کہ مرنے والا قاتل کو ہی ہمنوا سمجھتا رہے۔ دنیا کی بڑی بڑی سلطنتوں، بڑی بڑی معیشتوں اور مضبوط و مستحکم نظریوں کے خاتمہ کی تاریخ اس بات کی گواہ رہی ہیں۔قوم کی ترقی کاپورا دار و مدار اس کی تعلیم اور اس کے کاروبار پر منحصر کرتا ہے۔ ایماندارانہ قیادت عوام کے تئیں ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتی ہے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنی قوم کو ترقی کی بلندیوں پر لے جاتی ہے، وہیں مفادپرستی خود کی فلاح کے علاوہ اور کسی باتوں پر دھیان نہیں دیتی۔زندہ قومیں اپنے تمام کیل کانٹے درست رکھتی ہیں اور موقع ملنے پر حملہ آور بھی ہوتی ہیں اور دفاعی نظم کابہترین نمونہ بھی پیش کرتی ہیں۔
عیسائی مشنریوں کی کارگزاریوں پر نظر ڈالیں تو دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی عیسائی مبلغ نے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو عیسائی بننے کی دعوت نہیں دی، بلکہ اپنے عمل سے، اپنی کارکردگیوں سے غیروں کو متاثر کیا۔انسانی مدد کا معاملہ ہو یا جذباتی مدد کا، تعلیم کا یا پھر طب کا، مشنریاں اپنا کا م کرتی رہیں اوراپنی کارکردگیوں سے دوسرے لوگوں تک پہنچ بناتی رہیں۔ انہوں نے کسی سے یہ نہیں کہا کہ آپ میرا مذہب اختیار کر لیں۔ لوگ خود ان کے پاس گئے کہ ہمیں اپنے مذہب میں شامل کر لیں۔ انہوں نے اسکول کھولے، اسپتال بنوائے اور کبھی یہ تفریق نہیں کی کہ اس میں صرف عیسائی پڑھیں گے یا صرف اسپتالوں میں عیسائیوں کا علاج ہوگا۔ انہوں نے انسانیت دوستی کا حوالہ دے کر دوسری قوموں کو اپنی طرف راغب کیا۔ اسکولوں میں ایسے ڈریس پہنائے جو ان کے کلچر کا حصہ تھے، وہ دراصل انسانیت یا تعاون کو سامنے رکھ کر تہذیب کو ٹارگیٹ کرتے رہے اور دوسری قومیں ان کے اس خوبصورت جال میں پھنستی رہیں۔ وہ لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر تہذیب کو مسمار کر دیا گیا تو انہیں مذہب سے بیگانگی کا احساس پیدا ہوگا اور آخر کار وہ ہم جیسے ہوجائیں گے۔
عیسائیت اوراسلام کا موازنہ اگر تہذیب و زبان کے حساب سے کیا جائے تو سب سے بڑا فرق یہی نظر آئے گا کہ دنیا بھر میں جہاں بھی عیسائی ہیں،خواہ وہ کسی گلی، کسی کوچے میں رہ رہے ہوں، وہ انگریزی زبان ضرور سیکھتے، سمجھتے اور بولتے ہیں، خواہ ان کا کنبہ کتنا بھی غریب ہو، زبان کے معاملہ میں وہ لوگ کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔اس لیے انہیں اپنے مذہب یا اپنے کلچر سے متعلق جانکاری رکھنے میں کسی بھی طرح کی کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔جب بادشاہت کا زمانہ تھا تب بھی اور آج بھی جب جمہوریت کا زمانہ ہے تب بھی، وہ اپنی زبان انگریزی کی وجہ سے دنیا میں ایک مضبوط قوم بنے ہوئے ہیں۔جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زبان کی کوئی زبان نہیں ہوتی اور زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اس مقولہ کو مان بھی لیا جائے تو انگریزی مذہب اور تہذیب دونوں کی زبان شروع سے رہی اور اب تک رہی۔ وہیں دوسری طرف اسلام کا لازوال عروج اور دنیا میں چھا جانے کا جنون10ویں،11ویں صدی کے بعد مدھم پڑگیا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، مگر سب سے بڑی وجہ یہی رہی کہ مسلم فاتحین یا مسلم مبلغین نے عربی زبان کو اس وسیع پیمانے پر پھیلانے کی کوشش نہیں کی، جتنا اسلام کو پھیلانے کی کی۔ہندوستان میں خاص طور پر شمالی ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ کی زبان اردو رہی اور دیگر خطوں میں علاقائی زبان میں مذہب اسلام کو سمجھنے اور سمجھانے کا عمل مکمل ہوا۔اسی طرح مسلمانوں کی تہذیبی یگانگت میں بھی علاقائی تہذیب کا اثر اور عمل دخل ہوا۔ چونکہ اسلام ایک مکمل اور سماجی مذہب ہے، اس لیے اسلام کے پیروکار مذہب سے بیگانہ تو نہیں ہوئے، لیکن اس کے فروغ اور اس کی تشہیر کو اس پیمانہ تک نہیں لاسکے جس کی سخت ضرورتھی۔وہیں برادران قوم نے سناتن دھرم کے فروغ کے لیے ہندی زبان کو اپنا وسیلہ بنایا اور چونکہ ہندی کا فروغ بھارت سرکار کے ایجنڈے میں ہے، اس لیے ہندی زبان کا بھی فروغ ہوا اور دھرم کے لیے انہیں دوسری زبانوں کا سہارا نہیں ڈھونڈنا پڑا۔ موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو یہ صاف طور پر دیکھا جارہا ہے کہ جیسے جیسے اردو زبان تنزلی کا شکار ہو رہی ہے اور اس کے قارئین میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے، ویسے ویسے دین کی جانب بھی لوگوں کا رجحان گھٹ رہا ہے۔ نئی نسل اردو سے بیگانہ ہورہی ہے، اس لیے گھروں میں رکھی ہوئی دینی کتابیں گرد آلود ہونے لگیں۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ زبان کا مذہب ہو یا نہ ہو، مذہب کی ایک زبان تو ہونی ہی چاہیے۔ ایسا کیسے ممکن ہوتا آیا ہے کہ نماز یں توعربی میں ہوں اورخطبہ اردو زبان میں۔ خطبہ سب سمجھیں اور نماز کی کوئی سمجھ ہی نہ ہو۔ اسے صرف اور صرف ثواب کی نیت سے پڑھیں۔ وہی معاملہ قرآن شریف کے ساتھ بھی ہے کہ اس مقدس اور ہدایت نامہ کو سب پڑھیں اور سمجھے کوئی نہیں، جبکہ قرآن پاک دستور اسلامی ہے۔وہ انسان کی ہدایت کے لیے اتارا گیا ہے، مگر عربی زبان سے ناآشنائی کی وجہ سے اسے صرف اور صرف ثواب کے لیے پڑھا جاتا ہے۔قرآن پاک کوسمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے بجائے اسے ثواب کمانے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ قوم کے پاس وہی اسلام پہنچ پایا ہے جو کسی کے ذریعہ بتایاگیا ہے۔ خود سے اسلام کا مطالعہ کرنے سے لوگ اس لیے قاصر رہے کہ انہیں وہ زبان آتی ہی نہیں جو زبان قرآن پاک کی ہے۔
جب زبان ہی نہیں رہے گی یا زبان چھین لی جائے گی تو قوم و مذہب میں کئی طرح کے نئے شوشے چھوٹیں گے، جو مسلکوں، ذاتوںاور رواجوں کے نام پر اصل مذہب میں سرایت کر جائیں گے یا کر گئے ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک سے اسلامیت میں کمی کی ایک بڑی وجہ زبان ہی ہے۔اردو کو یوں ہی ختم نہیں کیا جا رہا ہے، اسے ختم کرنے کی داغ بیل تب ہی پڑ گئی تھی جب بھارت میں کانوینٹ اور ششومندر کی شروعات ہوئی تھی۔ مسلمان اسکول قائم نہیں کرسکے، اس لیے ان کے بچے کانوینٹ میں جا کر اپنی تہذیب اور اپنی زبان بھول گئے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]