طاقتور ملکوں کے بنتے، بگڑتے رشتے

0

عباس دھالیوال

کورونا وبا کے بعد دنیا کے ممالک کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں میں مختلف تبدیلیاں آئی ہیں۔ جب ہم دو دہائی پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھتے ہیں تو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جہاں امریکہ نے دنیا کے بیشتر ممالک پر اپنا تسلط و دبدبہ برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے وہیں افغانستان سے انخلا کے بعد ایسا لگتا ہے کہ وہ دنیا پر اپنی گرفت کھوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ جس طرح سے افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا ہوا، اس سے عالمی سطح پر امریکہ کی شبیہ مسخ ہوئی ہے۔ ادھر امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد سے امریکہ کے پرانے اور نئے حریف یعنی روس اور چین بہت خوش نظر آرہے ہیں۔ جس طرح سے چین اور روس نے افغانستان پر نرمی و سخاوت کا اظہار کیا ہے، وہ ناقابل فہم نہیں ہے۔ دریں اثنا آسٹریلیا نے 2016 میں فرانس کے ساتھ ہونے والے 66 ارب ڈالر مالیت کے معاہدے کو ختم کر دیا۔ اس کے تحت وہ فرانس سے ڈیزل اور بجلی کی توانائی سے چلنے والی 12 روایتی آبدوزیں خرید رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس، امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے مابین ہوئے نئے ’اوکس‘ معاہدے سے آگ بگولہ ہے، کیونکہ اسی کی وجہ سے آسٹریلیا سے اس کا معاہدہ منسوخ ہوا۔
دوسری طرف چین امریکہ اور برطانیہ کے آسٹریلیا کو جوہری صلاحیت والی آبدوزوں کی تیاری میں مدد کرنے کے معاہدے سے کافی ناراض و برہم ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے گزشتہ دنوں وہائٹ ہاؤس خصوصی طور پر کوششیں کرتا نظر آیا۔ امریکہ کے پریس سکریٹری جِن ساکی کا کہنا ہے کہ اوکس امریکہ کے دفاعی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ہے جس میں بحرالکاہل علاقے میں امن و استحکام کے فروغ کے لیے بین الاقوامی قاعدوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے لیکن اوکس کی وجہ سے آسٹریلیا نے فرانس کے ساتھ جو اربوں ڈالر کا معاہدہ کیا ہوا تھا، وہ منسوخ کر دیا، کیونکہ اس نے امریکی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے جوہری صلاحیتوں والی آبدوزوں کے حصول کا فیصلہ کیا ہے۔ اوکس پر فرانس کے وزیر خارجہ ژان-ایولو دریان کا کہنا ہے کہ یہ ’پیٹھ میں چھرا گھونپنے‘ کے مترادف ہے۔ ہم نے آسٹریلیا کے ساتھ بھروسے والے تعلقات قائم کیے اور یہ بھروسہ توڑ دیا گیا ہے۔ فرانس کے وزیر خارجہ نے امریکہ کے صدر جو بائیڈن پر بھی تنقید کی ہے اور انہیں منفی انداز میں اپنے پیش رو صدر ڈونالڈ ٹرمپ جیسا قرار دیا ہے۔ بقول ان کے ، ’یہ سنگ دلانہ، یکطرفہ اور غیر متوقع فیصلہ ہمیں بہت کچھ یاد دلاتا ہے جو ماضی میں ٹرمپ کیا کرتے تھے۔ میں اس پر نالاں اور برہم ہوں۔ ایسا اتحادیوں کے درمیان نہیں ہوتا۔‘

آسٹریلیا نے امریکی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے جوہری صلاحیتوں والی آبدوزوں کے حصول کا فیصلہ کیا ہے۔ اوکس پر فرانس کے وزیر خارجہ ژان-ایولو دریان کا کہنا ہے کہ یہ ’پیٹھ میں چھرا گھونپنے‘ کے مترادف ہے۔ ہم نے آسٹریلیا کے ساتھ بھروسے والے تعلقات قائم کیے اور یہ بھروسہ توڑ دیا گیا ہے۔ فرانس کے وزیر خارجہ نے امریکہ کے صدر جو بائیڈن پر بھی تنقید کی ہے اور انہیں منفی انداز میں اپنے پیش رو صدر ڈونالڈ ٹرمپ جیسا قرار دیا ہے۔

ادھر وہائٹ ہاؤس کی ترجمان جِن ساکی کا کہنا ہے کہ امریکہ اب بھی فرانس کو اپنا اہم اتحادی سمجھتا ہے۔ہم عالمی برادری کو درپیش متعدد مسائل کے حل میں فرانس کے ساتھ اپنے تعلقات اور اپنی شراکت داری کو اہمیت دیتے ہیں۔ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کے مطابق، ان کا ملک آسٹریلیا کے ساتھ معلومات کے تبادلے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ یاد رہے کہ آسٹریلیا برطانیہ کی سابق نو آبادیات کا حصہ رہا ہے اور اب بھی دولت مشترکہ کا حصہ ہے۔ دولت مشترکہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کی قیادت ملکہ الزبتھ دوم کے پاس ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ اوکس ممالک کے درمیان معاہدہ برطانیہ کی کئی نسلوں پر محیط مہارت کے حصول کا متقاضی ہے جو اس نے 60 برس قبل رائل نیوی کی پہلی نیوکلیئر سب میرین ایجاد کرتے ہوئے حاصل کی تھی۔ نئی شراکت داری تینوں ملکوں کے لیے اہم ٹیکنالوجی، جیسے کہ مصنوعی ذہانت، سائبر ٹیکنالوجی، کوانٹم ٹیکنالوجی، انڈر واٹر سسٹم سمیت مختلف شعبوں میں معلومات اور مہارت کے تبادلے کو مزید آسان بنائے گی ۔
وہائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اوکس کو درست تناظر میں نہیں دیکھا گیا۔ امریکہ اور فرانس کے صدور اکتوبر کے آخر میں اس وقت بالمشافہ ملاقات کریں گے جب روم میں منعقد ہونے والے ’جی 20‘ کے اجلاس میں شرکت کے لیے دونوں اٹلی میں موجود ہوں گے۔ وہائٹ ہاؤس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’دونوں سربراہان نے فیصلہ کیا ہے کہ قریبی مشاورت کا عمل اپنایا جائے گا جس کا مقصد یکساں مقاصد کے حصول کے لیے ٹھوس اقدامات تجویز کرنا اور باہمی اعتماد کو یقینی بنانا ہو گا۔‘ بیان میں مزید باتوں کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ آسٹریلیا کے ساتھ بحری آبدوز کے سودے کے اعلان کے بعد میکروں نے واشنگٹن میں تعینات فرانس کے سفیر، فلپ اتانے کو پیرس واپس بلا لیا تھا لیکن بعد میں وہائٹ ہاؤس نے کہا کہ میکروں نے فیصلہ کیا ہے کہ اتانے آئندہ ہفتے واپس آ جائیں گے جس کے بعد وہ ’امریکی اہل کاروں کے ساتھ انتہائی اہم بات چیت کریں گے۔ ادھر مذکورہ ضمن میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جاسنڈا آرڈن نے کہا ہے کہ ایک دہائی قبل جوہری آبدوزوں کو اپنے پانیوں میں داخل ہونے پر انہوں نے جو روک لگا ئی تھی، اس کو نہیں ہٹائیں گی۔ ان کا یہ بیان اس وقت آیا ہے جب آسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ ماریسن نے انہیں نئے اتحاد کے بارے میں بتایا ہے۔ دوسری طرف چینی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان ’گلوبل ٹائمز‘نے اپنے اداریے میں نہایت ہی توہین آمیز زبان استعمال کرتے ہوئے آسٹریلیا کو امریکہ کا ’پالتو کتا‘ قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی اس میں لکھا گیا ہے کہ ’ہم آسٹریلیا کو مشورہ دیں گے کہ اگر وہ ایٹمی آبدوزیں یا کلر میزائلیں حاصل بھی کرلیتا ہے تو بھی اس کے پاس چین کو دھمکی دینے کی طاقت نہیں ہوگی۔‘
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS