پروفیسرعتیق احمد فاروقی
وزیراعظم نریندرمودی نے 2015 سے خلیجی ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو استوا ر کرنے کیلئے ایک مہم چھیڑی تھی جس کے خوش کن نتائج آج سامنے ہیں۔خام تیل کیلئے ہماری بسیار خور بھوک کے سبب 2021-22 میں خلیج ممالک کے ساتھ ہندوستان کی تجارت 175بلین ڈالر کو تجاوز کرگئی۔ ہندوستان میں ان کی مجموعی سرمایہ کاری 16بلین ڈالر تک پہنچ گئی اورمتحدہ عرب امارات میں ہندوستان کی سرمایہ کاری کا تخمینہ 80بلین ڈالر سے اوپر کا ہے۔ اس علاقے میں ہماری نو ملین مضبوط آبادی سالانہ پچاس بلین ڈالر زرمبادلہ اپنے گھر بھیجتی ہے۔دبئی کی سیر کرنے والا سب سے بڑا سیاحوں کا گروپ ہندوستانی ہوتاہے۔ حالیہ کمپری ہنسیو اکنامک پارٹنرشپ ایگریمنٹ، جو ہمارے ملک کا جی سی سی کے ساتھ ہوا، نے بلاشبہ دوطرفہ روابط کواستوار کیا۔جی سی سی اوراسرائیل کے ساتھ اسی نوعیت کے سمجھوتوں کا مذاکرہ چل رہاہے۔ پھربھی ایک مزیدتقابلی تفصیل کچھ الگ سچائی پیش کرتی ہے۔ خلیجی ممالک کے ساتھ مبینہ اقتصادی شراکت داری کو چھوڑ کر درحقیقت ہمارا ملک ان کے اقتصادی یا مالی دریا کی ایک چھوٹی سی مچھلی سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ خلیج ممالک کی کل دولت یا مالی وسائل 3ہزار 644 ملین ڈالر بتائے جاتے ہیں جس میں ہندوستان کی شراکت محض پوائنٹ 5فیصد ہے۔ خلیجی علاقہ میں ہمارے تعمیری کاموں کے اہلکاروں کے غلبہ کے باوجود چھ خلیجی ممالک سے گزرنے والی پائپ لائن کے منصوبے سے متعلق 1.9ٹریلین ڈالر انفرااسٹرکچر پروجیکٹ میں ہندوستان کی حصہ داری بہت معمولی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں علامتی موجودگی کے علاوہ دنیا کے دوسرے سب سے بڑے خام تیل کے خریدار کا مقام رکھتے ہوئے بھی ہمارا ملک نہ تو روایت سے ہٹ کر اساسہ بن سکااورنہ روایتی مشترک ترقی کے منصوبوں کا حصہ بن سکا۔ قطر کے دوسرے سب سے بڑے گیس کاخریدار ہونے کے باوجود ہماری کمپنیوں کو اب تک تیس ملین ڈالر شمالی میدان کی توسیع کے پروجیکٹ میںکوئی حصہ داری نہیں ملی ہے۔ ہاں 2020 میں جی سی سی ممالک نے 414بلین ڈالر کی اشیاء ہمارے ملک کو تقریباً 10 فیصد مارکیٹ حصہ داری دے کر برآمد کی جس کی سب سے بڑی وجہ چاول اوردیگر اشیاء کی ان کی ضرورت تھی۔
2021 کی ایک معتبر رپورٹ کے مطابق اگلی دودہائیوں میں ہندوستان توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ میں صف اول میں داخل ہوجائے گاجو عالمی نمو کا 25فیصد ہوگا۔ 2030 تک ہندوستان کی تیل برآمدگی کی وصول طلب رقم (بل)دوگنی ہوکر تقریباً 181بلین ڈالرتک پہنچنے کی توقع ہے۔ لہٰذا ملک کی توانائی تحفظ کی ضرورت ہمیں خلیج کے سینئراکنامک لیگ میں شامل ہونے کیلئے مجبور کرتی ہے۔ اس کیلئے ہندوستان کو ایک جامع خلیجی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو یہاں کی سیاسی،اقتصادی اورسلامتی کی پریشانیوں پرغالب ہوسکے۔ ملک کی طاقت اورمفاد کے نظریہ سے خلیجی حکومتوں کے بڑے بڑے اقتصادی پروگرام زیادہ تر ان کے سیاسی اورسلامتی مفاد کے مدنظر فروغ پاتے ہیں۔ اتفاق سے حالیہ رجحان ہماری خلیجی پالیسی کو دوبارہ وضع کرنے کا نادر موقع فراہم کرتا ہے۔ تیل برآمد کرنے والے خلیجی ممالک پیٹرو ڈالر سے مالامال ہیں۔ امریکی صدر نے شروعاتی ٹال مٹول کے بعد بالآخر اس علاقہ کا دورہ کیا جو ایک جغرافیائی تزویری نئی گروہ بندی کا سبب بنا۔ ایک دہائی قبل جی سی سی ممالک امریکہ کے مکمل طور پر وفادار تھے اوراس علاقہ میں تیل کی فراہمی اورسرمایہ کاری کے عوض امریکہ اس کے تحفظ اوراستحکام کو یقینی بنانے کیلئے پرعزم تھا۔ لیکن موجودہ دور میں خلیجی ممالک میں امریکہ کا اثر کم ہواہے اوران ممالک کے بادشاہ وہاں کے جمہوری نظام کے صدر کو ایک قابل اعتماد شراکت دار نہیں سمجھتے۔ اگرچہ جوبائیڈن کا اس علاقہ میں گزشتہ دورہ کا مقصد وہاں کے شیوخ کے اس تاثر کو دورکرناتھا لیکن خلیجی ممالک سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی پسند کے دائرے کو وسعت دینا جاری رکھیں گے اور بہت سے ممالک پہلے سے ہی اس خلاء کو پرکرنے کیلئے دست وگریباں ہورہے ہیں۔ ان حالات میں اپنے ملک کیلئے ایک سنہرا موقع ہے کہ مزید دلچسپی اورچستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ا س کھیل میں بازی مارلے اوران حکومتوں کو سیاسی حمایت خصوصاً سلامتی اورتحفظ کی عملداری میں پورے جوش وخروش کے ساتھ فراہم کرے۔ ہمارے تعلقات کی شرائط واضح ہونی چاہئیں۔ ہمیں داخلی خلیجی تنازعوں سے بھی گریزکرناہے اور ان کے درمیان حالیہ طاقت کی آزمائش سے بھی بچناہے۔ 12-یو 2 (اسرائیل، ہندوستان، متحدہ عرب امارات اور امریکہ) گروہ بندی اورمشرق وسطیٰ فضائی دفاع اتحاد (ایم ای اے ڈی اے )نے ہمیں علاقے میں اپنا رتبہ بڑھانے کا موقع فراہم کیا۔
لیکن ابھی باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے کیلئے ہمیں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ بڑھتے ہوئے روابط کے باوجود ہمارے یہاں خلیج مرتکز اقتصادی پلیٹ فام اورماہرین کی کمی ہے۔ ہمیں خلیج کی ترقی پذیر اقتصادی تصویر پرنظر رکھنے کیلئے، نئے دوطرفہ مواقع پہچاننے کیلئے اورمتعلقہ فرد یا ادارہ کو فعال رکھنے کیلئے ایک مزید مؤثر صلاحیت رکھنے والے ماہرین کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر خلیجی علاقہ میں جنگی ماحول کے قریب خاتمہ کے بعد اورایران میںامریکہ کی جانب سے عائد پابندی کے تناظر میں رونماہونے والے عظیم اقتصادی مواقع کو سمجھنے کیلئے ہمیں گہرے مطالعے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں وہاں پر امکانات کو بڑے پروجیکٹوں میں تبدیل کرنے کیلئے سرکاری -نجی شراکت داری ناگزیر ہے۔ آج جو اقلیتوں کے ساتھ ہمارے سلوک اوررویہ کی شبیہ وہاں بن گئی ہے، اسے بہتر بناناہوگا۔ہندوستان اورخلیجی ممالک کے تاریخی عوامی سطح پر جو روابط رہے ہیں، اس کی تجدید کی بھی اشد ضرورت ہے۔ حالیہ دنوںمیں حضوراکرمؐ کی بے ادبی سے متعلق جو تنازع پیدا ہوا ہے، اس کیلئے ہمارے یہاں ایک خود مختار ادارہ ہوناچاہیے جو عرب کے عوام کے ساتھ مصلحت اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تصفیہ کرے اور انہیں یقین دلائے کہ ایسے عناصر سے ہماری حکومت سختی سے نمٹے گی۔ خلیجی ممالک میں باہر سے آئے ہوئے ملازمین میں ہندوستانیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہونے کے باوجود ہمارے پاس اشتراکی،سماجی اورثقافتی پلیٹ فارم جیسے ثقافتی مرکز، فلمیں، اشاعت اورٹیلی ویژن وغیرہ کی کمی ہے۔ان سب باتوں کا علاج لازمی طور پر ہوناچاہیے۔
[email protected]