ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
گزشتہ ہفتہ مشرق وسطیٰ میں خارجہ پالیسی کی سطح پر دو اہم واقعات رونما ہوئے ہیں جو نہایت دلچسپ ہیں۔ ایک طرف ترکی کے اسلام پسند صدر طیب اردگان نے 10سال تک سرد بستہ میں پڑے اسرائیل کے ساتھ اپنے دفاعی تعلقات کو نئی زندگی عطا کر دی ہے تو دوسری طرف فلسطین کی معروف مزاحمتی تحریک حماس نے دیگر فلسطینی جماعتوں کے ساتھ مل کر ملک شام کا دورہ کیا اور جنگی جرائم کے ملزم بشار الاسد کے ساتھ ملاقات کی اور اس کے بعد باضابطہ طور پر پریس کانفرنس کے ذریعہ تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا گیا۔ سرسری طور پر مشرق وسطی کے مسائل پر نظر رکھنے والوں اور بالخصوص مسئلہ فلسطین سے جذباتی لگاؤ رکھنے والوں کے لئے یہ دونوں معاملے بہت عجیب معلوم ہوتے ہوں گے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ صدر اردگان کی سیاسی پارٹی اور حماس دونوں کا سیاسی مکتب فکر ایک ہی شمار کیا جاتا ہے۔ حالانکہ صدر طیب اردگان نے کبھی بھی اس کا دعوی نہیں کیا کہ وہ ایک اسلام پسند پارٹی ہے لیکن جن رموز و علامات کو انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا ہے ان سے صاف واضح رہا ہے کہ ان کا سیاسی منبع فکر کیا ہے۔ تو آخر ایسی کیا تبدیلی پیش آگئی کہ ترکی نے اسرائیل کے ساتھ اور حماس نے بشار الاسد کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنا ضروری سمجھا؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اس خطہ کی بدلتی تصویر اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی مجبوریاں۔ جہاں تک ترکی کا اسرائیل کے ساتھ دفاعی تعلقات کی بحالی کا سوال ہے تو اس میں زیادہ پیچیدگی اس وجہ سے نظر نہیں آتی ہے کیونکہ یہ دو ملکوں کے درمیان کے سفارتی تعلقات سے وابستہ مسئلہ ہے جس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کی سطح پر ایسا اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسی سنگین مسئلہ پر دو ملکوں کے روابط خراب ہوجاتے ہیں اور سفراء بلا لئے جاتے ہیں جیسا کہ ہند و پاک کے پس منظر میں جنوبی ایشیا کی سیاست میں نظر آتا ہے۔ یہ قطع تعلق محض وقتی نوعیت کا ہوتا ہے اور بعض مواقع پر قدرے طویل بھی ہوجاتا ہے لیکن اس سے سفارتی تعلقات ختم نہیں ہو جاتے۔ یہی معاملہ ترکی اور اسرائیل تعلقات کا بھی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1949 میں ترکی پہلا مسلم اکثریت والا ملک تھا جس نے اسرائیل کے وجود کو قبول کیا تھا اور دونوں کے درمیان اچھے روابط قائم ہو گئے تھے جس کا سلسلہ 2008 تک جاری رہا۔ اس تحریر میں چونکہ حماس کا ذکر بھی ہو رہا ہے اس لیے اس تناظر میں یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ 2008 میں ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات خراب بھی فلسطین کے مسئلہ کی وجہ سے ہی ہوئے تھے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ اسرائیل نے 2008 میں غزہ پر سخت بمباری کی تھی جس کے نتیجہ میں بے شمار قیمتی اور معصوم فلسطینی زندگیاں ہلاک ہوگئی تھیں۔ اس حملہ کو وجہ بتاکر ترکی نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کے دائرہ کو تنگ کر لیا تھا۔ اس کے بعد 2010 میں ترکی کے تعلقات اسرائیل کے ساتھ مزید خراب ہوگئے جب اسرائیل نے ترکی کے جہاز ماوی مرمرہ پر حملہ کرکے دس لوگوں کو مار ڈالا تھا۔ یہ جہاز بھی غزہ پر نافذ کردہ اسرائیلی حصار کو توڑنے اور غزہ کے باشندوں کے لئے امدادی اشیاء پہنچانے کے لئے جا رہا تھا۔ اس کے بعد 2016 سے 2018 کے درمیان دونوں ممالک میں تعلقات کی نوعیت کچھ بہتر ہوئی لیکن پھر 2018 میں بھی غزہ پر ہی اسرائیلی جارحیت کے نتیجہ میں اردگان نے اسرائیل کے سفیر کو اپنے ملک سے نکال دیا اور اپنے سفیر کو اسرائیل سے واپس بلوا لیا تھا۔ اس پوری مدت میں اسرائیل کا وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو ہوا کرتا تھا۔ اسرائیل کے عہدہ وزارت عظمیٰ سے نتن یاہو کی برطرفی کے بعد سے اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تعلقات میں بہتری کے آثار پیدا ہونے لگے تھے اور اس کو مزید مضبوط بنانے کے لئے اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ نے مارچ 2022 میں ترکی کا دورہ کیا تھا اور اس کے بعد موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم یائیر لپید کا دورہ ترکی جون کے مہینہ میں عمل میں آیا تھا۔ ان دنوں وہ وزیر خارجہ کے عہدہ پر فائز تھا۔ اس قسم کی مسلسل کوششوں کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں حرارت کا اضافہ ہوا اور آخر کار 17 اگست کو دونوں ملکوں نے اپنے اپنے سفراء بحال کر دیے۔ ترکی نے تعلقات کی اس بحالی پر اپنا ردعمل پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطین کے ساتھ ساتھ خطہ کے دیگر موجودہ مسائل پر الگ انداز سے سوچنے کا موقع ملے گا۔ ترکی کا یہ بھی ماننا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی سے مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی اور استحکام کا ماحول سازگار ہوگا۔ اس پہلو سے کیا کچھ حاصل ہوسکتا ہے یہ کہنا ابھی بہت مشکل ہے لیکن اتنی بات وثوق سے ضرور کہی جا سکتی ہے کہ مشرق وسطیٰ کا خطہ ہر روز بہت دلچسپ ہوتا جا رہا ہے اور یہاں کے لیڈران اب صرف روایتی انداز میں اپنے تعلقات کی جہت طے نہیں کر رہے ہیں۔ اس کا عکس ہمیں اوپیک پلس کے فیصلہ میں بھی نظر آتا ہے اور اس خطہ کے قدیم روایتی حریفوں کے درمیان چل رہی بات چیت اور بڑھتی قربت سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جرأت مندی کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ اسی تناظر میں بشار الاسد کے ساتھ حماس کے تعلقات کی نوعیت کو بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کے نئے باب کا آغاز 19 اکتوبر کو دمشق میں ہوا۔ 2012 کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب حماس کے سیاسی شعبہ کے ممبر اور عرب اسلامی تعلقات شعبہ کے صدر خلیل الحیہ نے دیگر فلسطینی جماعتوں کے ایک وفد کے ساتھ دس سال کے قطع تعلق کے بعد دمشق کا دورہ کیا۔ اس دورہ سے قبل جون اور ستمبر کے مہینہ میں حماس نے اپنے بیانات کے ذریعہ یہ اشارہ دے دیا تھا کہ وہ دمشق کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنے کے لئے پر عزم ہے اس لئے یہ دورہ زیادہ حیرت انگیز نہیں ہے۔ البتہ بشار الاسد نے شام میں جو بدنْما کردار ادا کیا ہے اس کی وجہ سے حماس کے اس اقدام کو سراہا نہیں گیا ہے اور ناقدین کی اکثریت کا تعلق ان علماء و دانشوران اور اسلام پسند تحریکات سے ہے جو اب تک حماس کے حامی رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اس قدم کو شرعا حرام اور اخلاقی تضاد سے بھی تعبیر کیا ہے۔ خود حماس نے بھی بشار الاسد کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی وجوہات کو بیان کرنے میں وضاحت سے کام نہیں لیا ہے جیسا کہ اس کے سیاسی شعبہ کے نائب صدر صالح العاروری کے بیان سے واضح ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم تعلقات کی اس بحالی کے اسباب و محرکات کو سر عام بیان نہیں کر سکتے ورنہ جن مقاصد کے حصول کے لئے یہ اقدام کیا گیا ہے اس پر زد پڑے گی۔ لیکن گزشتہ چند سالوں کے حالات کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حماس نے یہ اقدام اس لئے کیا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے عمل کو جاری رکھنے کے لئے شام کی سر زمین سب سے اہم ہے گرچہ اس وقت شام پر اسرائیل کی بمباری روز افزوں ہے لیکن مستقبل میں اس سرزمین کی ضرورت زیادہ پڑے گی۔ حماس کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ جس تیزی کے ساتھ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں اس کے پیش نظر فلسطینی حقوق کے تحفظ کے لئے ایسے اقدامات ضروری ہوں گے جو ان کے مفادات کو محفوظ رکھ سکیں۔ اسی لئے ایران اور حزب اللہ سے بھی حماس نے اپنے روابط مضبوط کئے ہیں جن سے انہیں اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ حماس کے اس اقدام کو ترکی کے موقف سے بھی الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ کیونکہ ترکی نے گزشتہ مہینوں میں یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ بشار الاسد کے ساتھ روابط قائم کر سکتا ہے۔ ایسے میں حماس کا شام کی طرف رْخ کرنا طویل مدتی پلان کا غماز کہلائے گا۔ بس حماس کو اس بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ بشار الاسد اور شام کی اپوزیشن جماعتوں کے معاملہ میں مداخلت کے بجائے غیر جانبداری کا راستہ اختیار کرے ورنہ غیر ضروری پیچیدگیوں میں پھنسنے کا خطرہ ہے اور ناقدین کی یہ بات درست ثابت ہوجائے گی کہ بشار کے ساتھ حماس کا تعلق اخلاقی تضاد پر مبنی ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں