پنکج چترویدی
جیسا کہ ہر حادثہ کے بعد ہوتا ہے، گروگرام میں کثیرمنزلہ عمارت کے پھلتے کی چھتیں جس طرح گریں، اس کا ڈر نوئیڈا، غازی آباد میں بھی نظر آیا، آناً فاناً کئی ریزیڈنشیل کمپلیکس کی ریزیڈنس ایسوسی ایشنز نے مطالبہ کردیا کہ ان کی عمارت کے ڈھانچہ کی مضبوطی کی پرکھ یعنی اسٹرکچرل آڈٹ کروا دیا جائے؟ سوال یہ ہے کہ ہم اس کے لیے کسی حادثہ کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟ یہ ایک مستقل عمل کیوں نہیں ہے؟ بالخصوص دہلی این سی آر کا علاقہ جو کہ زلزلہ کے انتہائی حساس زون میں آتا ہے، یہاں جس دن زمین ذرا زور سے ڈول گئی، تباہی مچنا طے ہے، حالاں کہ بڑھتی آبادی اور زمین کی کمی اور بے تحاشہ قیمتوں کے سبب کثیرمنزلہ عمارتوں کا رجحان اب دوردراز اضلاع تک ہورہا ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ نہ تو تعمیر سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد عمارت کی مضبوطی کی جانچ کا کوئی التزام سرکاری دستاویزات میں ہے۔
گروگرام کے سیکٹر-109 چنٹلس پیراڈسو سوسائٹی کے ڈی ٹاور میں ہوئے حادثہ کے بعد دیگر ٹاوروں میں رہنے والے لوگ بھی سہمے ہوئے ہیں۔ انہیں اب اپنے اور کنبہ کی حفاظت کی فکر ستا رہی ہے۔ تشویش کا سبب یہ بھی ہے کہ زیادہ تر لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی اور قرض لے کر یہ آشیانہ آباد کیا ہے، اگر بلڈنگ کے کمزور ہونے کے سبب انہیں کسی اور جگہ جانا پڑا تو وہ کیا کریں گے؟ کہاں جائیں گے؟ جس دن گروگرام میں بلڈنگ گری، اس کے اگلے دن ہی دہلی میں بھی 2008میں غریبوں کے لیے بنے اپارٹمنٹ میں سے ایک زمیں بوس ہوگیا۔ حالاں کہ یہ کسی کو الاٹ نہیں ہوئے تھے اور خالی تھے لیکن وہاں گھوم رہے یا بیٹھے چار لوگوں کی جان چلی گئی۔ یہ حادثہ نمونہ ہے کہ پرائیویٹ بلڈروں کی عمارتیں جنہیں عام طور پر خواندہ اور بیدار لوگ لیتے ہیں، میں تو جانچ جیسا مطالبہ اٹھایا جاسکتا ہے لیکن جب سرکاری عمارتیں ہی لاپروائی کی مثال ہوں تو کس سے فریاد ہو؟
واضح ہو کہ نوئیڈا میں تعمیراتی اصولوں کی خلاف ورزی کے سبب سپرٹیک ایمرالڈ کے دو آسمان چھوتے ٹاورس کو گرانے کے احکام سپریم کورٹ دے چکا ہے لیکن نوئیڈا انتظامیہ ان 1757 عمارتوں پر خاموش ہے جنہیں خود نوئیڈا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سروے میں چار سال پہلے خستہ حال اور غیرمحفوظ قرار دیا گیا تھا۔ ہم فراموش کرچکے ہیں کہ 17جون 2018کو نوئیڈا کے دیہی علاقہ شاہ بیری گاؤں میں 6منزلہ عمارت بھربھراکر زمیں بوس ہوگئی تھی جس میں 9لوگ مارے گئے تھے۔ آج بھی نوئیڈا سے یمنا ایکسپریس وے تک گاؤوں میں ہزاروں 6منزل تک کے مکان بن رہے ہیں جن کا نہ نقشہ پاس ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی کوئی جانچ پڑتال۔ ویسے قانونی طور پر ہر عمارت کی اوسی یعنی آکیوپیشن سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے پہلے اس طرح کی جانچ کا سرٹیفکیٹ ضروری ہوتا ہے۔ ٹاؤن پلاننگ ڈپارٹمنٹ یا اتھارٹی کا ایک طے شدہ پروفارما ہوتا ہے جسے بلڈر ہی باضابطہ بھر کر جمع کرتا ہے، اس میں اسٹرکچرل انجینئر کی تصدیق اور مہر ہوتی ہیں۔ اس طرح کے انجینئر کو بلڈر ہی طے کرتا ہے، کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب ایک رسمی طور سے زیادہ ہوتا نہیں۔ آج جس طرح سے زیرزمین پانی کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے اور ساتھ ہی زیرزمین سیور گٹر کی آپریٹنگ بھی، بلڈنگ کی تعمیر سے پہلے مٹی کی جانچ-صلاحیت کی پیمائش تو محض کاغذوں کی خانہ پری رہ گئی ہے، کثیرمنزلہ عمارت میں گہرا کھود کر گراؤنڈ فلور پر پارکنگ بنانا اور اس میں واٹرلاگنگ سے نمٹنے کا معقول انتظام نہ ہونا، جیسے متعدد اسباب ہیں جو انتباہ ہے کہ اپارٹمنٹ میں رہنے والے اپنا تن-من اور دھن سبھی کچھ داؤ پر لگائے ہوئے ہیں، واضح ہو کہ زیرزمین پانی کے استعمال اور گہرائی کی لائنوں میں رِساؤ کی وجہ سے بلاک اسٹرکچر پر کھڑی عمارتوں میں دھنسنے کے اندیشے برقرار رہتے ہیں۔
قومی راجدھانی خطہ دہلی ہو یا لکھنؤ یا دہرہ دون یا بھوپال یا پٹنہ سبھی جگہ آبادی کا تقریباً 40 فیصد علاقہ اَن آتھورائزڈ ہے تو 20فیصد کے آس پاس بہت پرانی تعمیرات۔ باقی رہائشوں میں سے بمشکل پانچ فیصد کی تعمیر یا اس کے بعد یہ تصدیق کی جاسکی کہ یہ earthquake resistantہیں۔ باقی ہندوستان میں بھی ریزیڈنشیل کیمپس کے حالات کوئی مختلف نہیں ہیں۔ ایک تو لوگ اس وارننگ کو سنجیدگی سے لے نہیں رہے کہ ان کا علاقہ زلزلہ کے قہر میں کتنا حساس ہے، دوسرا ان کی لالچ ان کے گھروں کو ممکنہ موت کا گھر بنا رہا ہے۔ کثیرمنزلہ مکان، چھوٹی سی زمین کے ٹکڑے پر ایک کے اوپر ایک ڈبے جیسا اسٹرکچر، بغیر کسی انجینئر کی صلاح کے بنے کیمپس، چھوٹے سے گھر میں ہی تنگ جگہ پر رکھے ہوئے ڈھیر سارے آلات و فرنیچر زلزلہ کے خطرے سے بچنے کی وارننگ کو نظرانداز کرنے کی مجبوری بھی ہیں اور کوتاہی بھی۔ سیسمک زون-4میں آنے والے زلزلہ کے بڑے جھٹکے سے راجدھانی دہلی کافی متاثر ہوسکتی ہے۔ اگر یہاں 7کی شدت والا زلزلہ آیا تو دہلی کی کئی ساری عمارتیں اور گھر ریت کی طرح بھربھرا کر گر جائیں گے۔ ایسا اس لیے ہے، کیوں کہ یہاں کی عمارتوں میں استعمال ہونے والاتعمیراتی سامان ایسا ہے، جو زلزلہ کے جھٹکوں کا سامنا کرنے میں پوری طرح سے اہل نہیں ہے۔ دہلی میں مکان بنانے کا تعمیراتی سامان ہی آفت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس سے متعلق ایک رپورٹ ولنیبریلٹی کاؤنسل آف انڈیا نے تیار کی تھی، جسے بلڈنگ مٹیریل اینڈ ٹیکنالوجی پروموشن کاؤنسل نے شائع کیا ہے۔
شملہ میں دس ہزار ایسے مکان ہیں جو غیرقانونی طریقہ سے 6-7منزلہ بنے ہیں جب کہ این جی ٹی کے احکامات کے مطابق یہاں ڈھائی منزل سے زیادہ کے مکان بن نہیں سکتے۔ ایک دیگر راجدھانی اور پہاڑی شہر دہرہ دون میں تقریباً 24ہزار غیرقانونی تعمیرات بھی نشان زد کی گئیں۔ ظاہر ہے، ان میں earthquake resistantتکنیک کی رسم بھی پوری نہیں ہوئی ہوگی۔ یہی نہیں 2011کی مردم شماری کے مطابق، میونسپل کارپوریشن و آس پاس کے علاقہ میں 20886ایسی تعمیرات بھی ہوئیں، جن کا ریکارڈ تک نہیں ہے۔ یعنی کل ملاکر 43ہزار سے زیادہ تعمیرات میں تو نقشوں میں بھی یہ خانہ پری نہیں کی گئی۔ سب سے خطرناک حالات شمال مشرقی ریاستوں میں ہیں جو کہ زلزلہ کے ساتھ ساتھ پہاڑی ندیوں کے بہاؤ سے بھربھری زمین کے سبب بھاری عمارت کا وزن برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں لیکن وہاں بھی کثیرمنزلہ عمارتیں بن رہی ہیں، اصل میں یہ کثیرمنزلہ عمارتیں رہائش سے زیادہ رسوخ دار لوگوں کے دولت کمانے کے ذرائع ہیں اور ان کا عام لوگوں کی زندگی سے کوئی سروکار نہیں ہے، وہاں تعمیر کے اصول و ضوابط کاغذوں تک محدود ہیں۔
[email protected]