تاریخی بینک فراڈ

0

انسداد بدعنوانی کے بلند بانگ دعوے اور اہل وطن کو ’ اچھے دن‘کے خواب دکھاکر اقتدا ر میںآنے والی مرکز کی بی جے پی حکومت میں بدعنوانی اور برے دنوں کے شرمناک ابواب بڑی تیزی سے جڑتے جارہے ہیں۔ خاص کر بینکوں سے کی جانے والی دھوکہ دہی کے معاملات انتہائی مکرو ہ شکل اختیار کرچکے ہیں اورا یسا لگ رہاہے کہ مالیاتی دھوکہ کے معاملات پرقابوپانے میں حکومت پوری طرح ناکام ہے۔بدعنوانی سے لڑنے کے بلند بانگ دعوئوں اور ’سیاسی عزائم‘ پر 23ہزار کروڑ روپے کی تازہ واردات نے پھر خاک ڈال دی ہے۔ یہ واردات کرنے والی کمپنی ہندوستان میں جہاز سازی کی سب سے بڑی کمپنی کہی جاتی ہے۔ اے بی جی شپ یارڈ کے نام سے کام کررہی گجرات کی اس کمپنی نے ہندوستان میں اب تک کا سب سے بڑا بینک فراڈ کیا ہے۔ یہ فراڈ حکومت کی عین ناک کے نیچے ہوا اور حکومت کو خبر تک نہ ہوسکی۔ حزب اختلاف نے حکومت پر اس ’لوٹ‘ میں مدد کا الزام لگاکرکہ یہ دھوکہ دہی بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں ہوئی ہے، معاملہ کی سنگینی میںاور اضافہ کردیا ہے۔
سی بی آئی نے گجرات کی اے بی جی شپ یارڈ کمپنی پر 22,842 کروڑ روپے کے مبینہ بینک فراڈ کا معاملہ درج کیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق یہ گھوٹالہ 2012 سے 2017 کے درمیان کا ہے۔ یعنی دھوکہ دہی کا سلسلہ اگر یوپی اے حکومت کے دوران شروع ہوا تھا تو مودی حکومت کے تین سال بعد بھی جاری رہا اور اس کے بعد تقریباً پانچ سال بعد اس پر قانونی کارروائی شروع ہوئی ہے۔ اس سے پہلے مودی حکومت میں ہی پنجاب نیشنل بینک سے نیرو مودی اور میہول چوکسی کے 13 ہزار کروڑ روپے ہتھیانے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ اب تک اسے سب سے بڑا فراڈ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ اے بی جی شپ یارڈ نے آئی سی آئی سی آئی، آئی ڈی بی آئی، ایس بی آئی، بینک آف بڑودہ، پنجاب نیشنل بینک، انڈین اوورسیز بینک اور ایل آئی سی سے 22 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا قرض لیا ہے اور یہ قرض واپس کیے بغیر بیرون ملک جائیدادیں خرید لی ہیں۔
جیسا کہ سی بی آئی انکشافات کررہی ہے، اس بینک فراڈ کا دائرہ اور پیمانہ دونوں ہی حیران کن ہیں۔ گجرات کی اے بی جی شپ یارڈ کمپنی نے آئی سی آئی سی آئی، ایس بی آئی اور پنجاب نیشنل بینک سمیت 28بڑے اور قومی بینکوں پر مشتمل ایک کنسٹوریم سے لین دین کیلئے باقاعدہ دھوکہ کا جال بنا۔ان بینکوں سے قرض لیا اور پھر ان کا رخ موڑ دیا۔ قرض کی رقم سے بیرون ملک اپنی ذیلی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی اور ان ہی کمپنیوں کے ناموں پر اثاثے خریدے اورکئی متعلقہ فریقوں کو رقم بھی منتقل کی۔2017میں اس کمپنی کے خلاف نیشنل کمپنی لا ٹریبونل (این سی ایل ٹی) میں شکایت بھی درج کرائی گئی تھی اور 2019 میں اس کے بینک اکاؤنٹس کو ’فراڈ‘ قرار دیا گیا تھا۔ ان سب کے باوجود3، 4برسوں تک اس کمپنی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے اورا ب 2022کے وسط فروری میں ملک کے عوام کو یہ پتہ چل رہا ہے کہ وہ ایک بار پھر ہزاروں کروڑ روپے کی دھوکہ دہی کا شکار ہوچکے ہیں۔
اس کمپنی نے جن بینکوں سے قرض کے نام پر ہزاروں کروڑ کا دھوکہ کیا ہے وہ وہی بینک ہیں جو عام لوگوں سے تمام کاموں کیلئے فیس وصول کرتے ہیں۔ بینک کھاتہ کھولنے سے لے کر رقم کی نکاسی پر بھی فیس کا سلیب مقرر کر رکھا ہے اور اگر یہ فیس وقت پر ادا نہ کی جائے تو عام لوگوں کا اکائونٹ لین(Lien) پر چڑھادیتے ہیں۔عام آدمی اپنی محنت کی گاڑھی کمائی آڑے وقتوں کیلئے ان بینکوں میں رکھتا ہے۔ کبھی گھر، کبھی بچوں کی تعلیم اور کبھی بیمار والدین اور اہل خانہ کے علاج معالجہ کیلئے چند لاکھ روپیوں کاقرض لینے کی نوبت آتی ہے تو ہزاروں طرح کے قوانین بتائے جاتے ہیں۔ پچاسوں کاغذات اور دستاویزات پیش کرنے کے بعد بھی مین میخ نکال کر ٹال دیاجاتا ہے۔دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ صنعت کاروں اور سرمایہ داروں میں قرض کے نام پر یہی محنت کی کمائی دونوں ہاتھوں سے لٹادی جاتی ہے۔ یہ دھوکہ بازصنعت کارا ور سرمایہ دار قرض کی رقم اینٹھ کر بڑی آسانی کے ساتھ ملک سے باہر بھی فرار ہوجاتے ہیں اور چند مہینوں یا برس کے بعد کہاجاتا ہے کہ انہیں دی گئی رقم ڈوب گئی۔ ’کھائوں گا نہ کھانے دوں گا‘کی سرکار آنے کے بعد سے مارچ 2021تک ایسے کل خراب قرضہ جات یعنی عوام کی گاڑھی کمائی کی وہ رقم جو قرض کے نام پر صنعت کاروں کو دی گئی اورپھر ان سے وصول نہیں کی جاسکتی ہے، 8.35لاکھ کروڑ روپے ہے۔2014سے قبل یہ رقم 1.14لاکھ کروڑ ہواکرتی تھی یعنی سات برسوں میں آٹھ گنا اضافہ ہوا ہے۔اس ڈیٹا سے یہ ظاہورہاہے کہ بدعنوانی سے لڑائی کے بلند با نگ دعوے صرف ہوائی قلعے ہی تھے جو گزرتے وقت کے ساتھ زمین بوس ہوگئے اورمالیاتی دھوکہ، بدعنوانی اور جعل سازی معمول بن چکا ہے۔
ملک کی معیشت کی زبوں حالی کا ساراملبہ کورونا پر ڈالنا ٹھیک نہیں ہے۔ بینکوں سے ہورہی یہ سنگین دھوکہ دہی اور جعل سازی بھی ملکی معیشت کو غار میں دھکیل رہی ہیں، ان پر قابو پائے بغیر نہیں لگتا کہ 5کھرب امریکی ڈالر کی معیشت کا ’ سنہراخواب‘ کبھی شرمند ۂ تعبیر بھی ہوسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS