قمر جاوید
بینک والوں نے آج بہت سخت نوٹس لیتے ہوئے انہیں بینک آنے کے لیے کہا۔ جب دونوں میاں بیوی ڈرے سہمے ہوئے بینک پہنچے تو دونوں کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ منیجر کی کیبن سے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ ان کے کڑوے کسیلے الفاظ نے تو ان کی حالت اور بھی غیر کر دی۔ میاں کی آنکھوں میں تارے جھلملانے لگے۔ ان جھلملاتے تاروں میں چھ مہینے قبل کا وہ منظر گھوم گیا جب اس کی خوبصورت بیوی نے اپنی ضد کے آگے پورے گھر کو سر پر اٹھا لیا تھا۔
’تم تو سارا دن گھر سے باہر رہتے ہو۔ تمہیں کیا معلوم کہ گھر کیا ہوتا ہے۔۔۔۔سلمیٰ کا گھر دیکھا!۔۔۔ نیا گھر بناتے ہی فریج، ٹی وی، اے سی، واشنگ مشین، ڈیزائنر صوفہ اور سجانے کی نہ جانے کتنی چیزیں آگئیں۔ اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی سکون اور فرحت کا احساس ہوتا ہے اور ایک ہمارا گھر ہے جو گھر کم اور کباڑ خانہ زیادہ لگتا ہے لیکن تم جانے کب اس فرق کو سمجھو گے۔‘ اس نے سامنے پڑے پانی سے بھرے گلاس کو زوردار ٹھوکر ماری۔
نسیم جو اپنی بیوی صدف کی خوبصورتی سے ہمیشہ مرعوب رہتا تھا اور اسے بے پناہ محبت کرتا تھا، اس نے اس کی اس حرکت پر بجائے خفا ہونے کے اسے پیار سے سمجھایا، ’دیکھو، صدف! تم دوسروں سے اپنا موازنہ کیوں کرتی ہو؟۔۔۔ سلمیٰ کے شوہر کی کمائی مجھ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ میں ایک سبزی فروش بھلا اس کا مقابلہ کیسے کرسکتا ہوں۔۔۔۔ دیکھو،ایسا کرتے ہیں کہ تھوڑا تھوڑا بچت کرکے پیسے جمع کرتے ہیں۔ پھر کچھ چیزیں ہم بھی لے لیں گے۔‘ اس نے بیوی کے چہرے کو ہاتھوں کے ہالے میں لے کر سمجھانے کی کوشش کی۔
’خبردار جو مجھے ہاتھ لگایا تو! آپ کیا سمجھتے ہیں، سلمیٰ اور اس کے شوہر نے پیسے جوڑ جوڑ کر اتنا سارا سامان خریدا ہے؟‘بیوی نے ہاتھ نچایا۔
’تو کیا ان کی لاٹری لگی ہے؟‘ اس نے حیرت ظاہر کی۔
’آہا، اب اتنے انجان بھی مت بنو۔‘ بیوی نے عجیب سا منہ بنایا۔
’ارے واقعی، مجھے نہیں معلوم!۔۔۔ مجھے اتنی فرصت کہاں جو میں دوسروں کے بارے میں خیر خبر رکھوں۔‘
’لون بابو کا نام سنا ہے۔‘
’لون بابو!۔۔۔ارے، ہاں! جو پہلے سائیکل پر آتا تھا اور اب کبھی کار میں تو کبھی بائیک پر آتا ہے؟‘
’ہاں!۔۔۔وہی۔۔۔۔سلمیٰ کے شوہر نے اس سے تین لاکھ لون لیا ہے۔ لون بابو دس عورتوں کا ایک گروپ بناتے ہیں اور بڑی آسانی سے لون پاس کروا دیتے ہیں۔ وہی دس عورتیں لون جمع کرنے کے نظام کی دیکھ بھال کرتیں ہیں۔ ۔۔۔ایک دوسرے کی ذمہ داری لیتی ہیں۔ بس سلمیٰ کو صرف دو ہزار ہر ہفتے ادا کرنے پڑتے ہیں۔۔۔جو وہ پابندی سے ادا کر رہی ہے۔۔۔‘
’سنیے نا، آپ بھی تو ایسا کرسکتے ہیں۔۔۔۔بولیے نا!‘
’ارے باپ رے، دو ہزار ہر ہفتے!۔۔۔نابابا نا! میری اتنی کمائی تھوڑی ہے۔۔۔۔پھر گھر کا خرچ الگ۔۔۔۔ نہیں نہیں، تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہو!۔۔۔ آدمی کو اتنا ہی پیر پھیلانا چاہیے جتنی چادر ہو۔‘
’اگر مجھے آپ کے بارے میں پہلے سے معلوم ہوتا تو میں شادی سے انکار کردیتی۔۔۔۔ نہ جانے ابو نے مجھے کس پھکڑ کے حوالے کر دیا۔۔۔۔سنو جی! مجھے آپ کی چکنی چپڑی باتوں سے کوئی مطلب نہیں۔۔۔۔میں سلمیٰ کے آگے خود کو نیچا نہیں گرا سکتی۔ دیکھنے میں اس سے زیادہ خوبصورت اور اسمارٹ ہوں، اس سے کمتر تھوڑی نا ہوں۔‘
اور ہفتے بھر کی ان بک بک اور جھک جھک کے بعد میاں جی نے ہار مان لی۔
گاڑی سے سامان اتارتے وقت نجمہ ایک نظر سلمیٰ کے گھر کی کھڑکی کی طرف ضرور دیکھتی اور اسے دیکھتے ہوئے پاکر فخریہ انداز میں مسکراتی۔
گھر پورا سج گیا۔ نجمہ ایک ایک چیز کو اٹھلاتے ہوئے نہارتی اور جب کوئی پڑوسی اس کے گھر آتا تو ایک ایک چیز کی تعریف کرتی اور قیمت بڑھا بڑھا کر بتاتی۔
دو تین ہفتے تو نجمہ اور اس کے شوہر پابندی سے قسط ادا کرتے رہے۔ پھر پریشانی شروع ہوئی۔ گھر کا خرچ ہی پورا نہیں ہوپاتا تھا تو قسط بھلا کہاں سے ادا کر پاتے۔ آخر ٹال مٹول کی نوبت آگئی۔ بینک والے دھمکی دینے لگے۔۔۔۔نجمہ کا شوہر پریشان رہنے لگا۔ دکانداری پر اثر پڑنے لگا۔ لون نے گھر چین و سکون سب چھین لیا تھا۔
پیون نے جب ان کو آواز دی تو وہ چونکا۔
اندر منیجر پہلے سے جلا بھنا بیٹھا تھا۔ اس نے خوب کھری کھوٹی سنائی۔ بڑی بے عزتی کی۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ بس زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔
منیجر نے وارننگ دیتے ہوئے کہا، ’اگر اس ہفتے ساری قسط نہ چکائی گئی تو سارا سامان اٹھواکر گھر بھی سیل کردوں گا۔۔۔۔اب کھڑے کھڑے میرا منہ مت دیکھو! جاؤ اور جاکر انتظام میں لگ جاؤ!۔۔۔ لون چکانے کی اوقات نہیں ہوتی اور لون لے لیتے ہیں۔‘
وہ بوجھل قدموں سے چلتا ہوا بینک سے باہر نکلا۔ بیوی کو گھر بھیج کر ساتھیوں سے مدد کے لیے نکل گیا لیکن سب جگہ سے مایوسی ہی ہاتھ لگی۔
دیر رات گھر آیا اور بغیر کچھ کھائے پئے ہی سوگیا مگر نیند ٹھیک سے نہ آئی۔ بار بار اسے ایسا لگتا کہ اس کا گھر سیل ہو رہا ہے اور وہ چونک کر جاگ جاتا۔ پھر سونے کی کوشش کرتا لیکن پھر جاگ جاتا۔
صبح کی اذان کے ساتھ وہ خود بخود مسجد کی طرف چل پڑا۔
نماز کے بعد وہ دیر تک اللہ کے سامنے گڑگڑاتا رہا۔ اس کے رخسار آنسوؤں سے تر تھے۔ اسے آج اچھی طرح سمجھ میں آگیا تھا کہ سود ہمارے مذہب میں کیوں حرام ہے۔ پھر اس نے آنسو پونچھے اور دل میں خود کو ختم کرنے کا مستحکم فیصلہ کر لیا۔
گھر پہنچ کر سوتے ہوئے بچوں کو پیار کیا۔ بیوی کی طرف ایک نگاہ ڈالی اور دوسرے کمرے میں جاکر خود کو پھانسی لگا لی۔ ایک طرف رسی میں اس کا جسم تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہا تھا تو دوسری طرف اے سی اپنے پورے آب و تاب سے ماحول کو ٹھنڈا کر رہا تھا۔ گھر کے سارے افراد نیند کا مزہ لے رہے تھے۔n