حقیقت یا سراب

0

ہندوستان نے 2022 میں 400 بلین ڈالر کی برآمدات کے جادوئی اعداد و شمار کو عبور کرکے وہ ریکارڈ قائم کیا ہے جس کی توقع اس سے پہلے نہیں کی جاسکتی تھی۔ سال2022در اصل ہندستان کیلئے کامیابیوں کا سال رہاہے ۔ مختلف شعبہ میں ملک نے وہ کامیابیاں حاصل کی ہیں جن کے بارے میں بھی پہلے سوچنا بھی محال تھا ۔یہ وزیراعظم نریندر مودی کے ’ من کی بات‘ ہے ۔
سال2022کے آخری ’ من کی بات‘ میں وزیراعظم نے آج پوری دنیا کو بتایا کہ ہندستان نے ان کی قیادت میں کس تیزی سے ترقی کی ہے اوراستحکام و خوشحالی کے اس مقام تک پہنچ گیا ہے جہاں رسائی اب تک ناقابل تصور رہی ہے۔ دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت کی کلغی بھی ہندستان کے تاج میں اسی سال ٹنکی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے سال 2022 کی حصولیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سال کئی اعتبار سے بہت متاثر کن اور شانداررہاہے ۔ اس سال ہندوستان نے اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کئے اورملک میں ’ امرت کال‘ شروع ہوا۔ ہر گھر ترنگا لہرایا گیا اور ملک نے ایک نئی رفتار حاصل کی ۔’ ایک بھارت- شریسٹھ بھارت‘ کو حقیقی شکل دی گئی ہے ۔
وزیراعظم نے یہ بھی بتایا کہ ملک سے متعدی امراض تیزی سے ختم ہورہا ہے اور کالازار نام کے موذی مرض کو بھی ان کی حکومت نے بہارا ور جھارکھنڈکے صرف 4اضلاع تک ہی محدود کردیا ہے۔ صحت کے شعبہ میں کئی سنگ میل بھی گاڑے، اسی سال 2022 میں 220 کروڑافراد کی ٹیکہ کاری کا ناقابل یقین ہدف بھی حاصل کیا گیا اور اسی سال یہ بھی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ’یوگا ‘ چھاتی کے سرطان کا شافی علاج بھی ہے ۔یوگا کے فوائد پر وزیراعظم نے کئی منٹ تک روشنی ڈالی اور اسے دل کی بیماری‘ ڈپریشن‘ نیند کی خرابی اور حمل کے دوران خواتین کو درپیش مسائل کے سلسلے میں بھی مفید و مجرب قرار دیا ۔
سال2022کے اپنے آخری ’من کی بات ‘ میں وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ’زبان فیض ترجمان‘ سے ان سارے خوابوںمیں رنگ بھرنے کی کامیاب کوشش کی ہے جو انہوں نے ہندستان کے عوام کو دکھائے تھے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ خوابوں میں چاہے جتنا رنگ کیوں نہ بھر لیا جائے وہ خواب ہی رہتے ہیں۔ ریت کا میدان چاہے چاندی کی طرح چمکنے ہی کیوں نہ لگے وہ سراب ہی ہوتا ہے اس سے پیاس نہیں بجھائی جاسکتی ہے ۔خوابوں کو حقیقت کی منزل تک پہنچانے کیلئے عمل کے میدان میں اترنا پڑتا ہے ‘سینہ میں جوت جلانی پڑتی ہے۔ تنگ نظری اور کم ظرفی کے ہر آسیب کو جھٹک کر دل اور ظرف کشادہ کرنا پڑتا ہے ‘ سبھوں کو ساتھ لے کر چلنے کا حوصلہ رکھنا ہوتا ہے ۔ ترقی کے ثمرات میں تمام اہل وطن کو حصہ داربنائے بغیر ترقی کا دعویٰ کھلا دھوکہ ہی سمجھاجائے گا۔دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کا فیض اگر عوام تک نہ پہنچے اور وہ مہنگائی ‘ بے روزگاری اور غربت کے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے پر مجبور ہوں تو ایسی ترقی بے معنی ٹھہرتی ہے ۔ وزیراعظم نے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت اور ’امرت کال‘ کی بات کہہ کر غریب عوام‘ مزدور‘ محنت کشوں کے ایک بہت بڑے طبقہ کے وہ تمام زخم ہرے کردیئے ہیں جو سال 2022 میں لگے ہیں ۔پورے سال2022میں مہنگائی عروج پر رہی ‘ بے روزگاری کے اعدادوشمار نے بھیانک شکل اختیار کرکے ہمارے نوجوانوں کی آنکھوں سے مستقبل کے تمام سہانے خواب چھین لئے ملک میں بیروزگاری کی شرح روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی رہی ہے اور آج ملک بھر میں بے روزگاری کی شرح 8فی صد کے آس پاس ہے جب کہ شہری علاقوں میں9.5فی صد بے روزگاری ہے ۔آسمان چھوتی مہنگائی نے روزمرہ کی اشیاتک عام آدمی کی رسائی دور کردی ہے ۔ جن گھروں میں تین وقت کھانا پکاکرتا تھا وہاں آج ایک وقت چولھا جلنا مشکل ہے ۔اسی سال2022میں رسوئی گیس سلنڈر کی قیمت تین تین باربڑھائی گئی اور آج1100روپئے کا ایک سلنڈر غربیوں‘ مزدوروں اور محنت کشوں کے خواب کو آگ لگا رہاہے ۔افراط زر اسی سال7.79فی صد ہوگیا جو 8برسوں کی بلند ترین سطح ہے ۔ پٹرول ‘ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ نے جہاں ٹرانسپورٹ مہنگاکردیا ہے وہیں زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی چیزوں میں بھی آگ لگارکھی ہے ۔ سردی کے اس موسم میںجب ہری سبزیوں کی باڑھ سی آئی ہوتی ہے وہ غریبوں کے دسترخوان سے غائب نظرآرہی ہیں ۔ ڈالر کے مقابلے روپئے کی گرتی ہوئی قدرنے درآمدی -برآمدی کاروبار کو متاثر کیاہے تو زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی معاشی استحکام کی خوش رنگ قبا چاک کرتی نظرآرہی ہے ۔دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت کے غیر ملکی زرمبادلہ کاخیرہ سکڑ رہاہے ۔تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق16دسمبر کو زرمبادلہ کے ذخائر 571 ملین ڈالر کم ہو کر 563.499 بلین ڈالر رہ گئے۔ جدید معاشیات کا یہ مسلمہ فارمولہ ہے کہ جس ملک میں زرمبادلہ کے مضبوط ذخائر ہوں‘ معاشی حالت بھی اس ملک کی اچھی ہوتی ہے۔لیکن دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کا تاج سر پرسجانے کے باوجود ہندستان کے معاملے میںیہ مسلسل کمی کا شکار ہے ۔
ان سنگلاخ حقیقتوں کے باوجود اگر وزیراعظم ترقی‘ خوشحالی اور معاشی استحکام کی بات کررہے ہیں تو یہ وہی بہتر بتاپائیں گے کہ ان کے پیش نظر کون سا ہندستان ہے آیاغریبوں ‘ مزدوروں ‘ محنت کشوں کا ہندستان یا پھر سرمایہ داروں‘ صنعت کاروں اور بڑے بڑے تاجروں کا ہندستان ‘جن کے ناقابل یقین قرضے بھی معاف ہوتے رہتے ہیں ۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS