حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی

0

عباس دھالیوال

بشیر بدر نے ایک بار خود پر ہونے والی تنقید کو مثبت انداز میں لیتے ہوئے کچھ یوں کہا تھا:
مخالفت سے مری شخصیت سنورتی ہے
میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں
اس شعر کے مصداق ہی عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ ایماندارانہ اور معقول تنقید ایک کمیونٹی کو مضبوط بنانے کا ذریعہ ہے۔ گزشتہ دنوں یہ ریمارکس سپریم کورٹ نے سینئر صحافی ونود دوا کے خلاف ملک سے غداری اور دیگر الزامات کے تحت دائر ایک معاملے کو خارج کرتے وقت دیے۔ اس ضمن میں ملک کی صحافی تنظیموں نے مذکورہ عدالتی فیصلے پر اظہار اطمینان کیا ہے۔ قابل ذکر یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے جمعرات کو اپنے ایک فیصلے میں یہ بات کہی کہ 1962 میں ’کیدار ناتھ سنگھ‘ معاملے میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ہر صحافی کو غداری کے الزامات سے تحفظ حاصل ہے۔ عدالت عظمیٰ نے صحافی ونود دوا کے دلائل کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں میڈیا کے خلاف یہ رجحان دیکھا گیا ہے کہ اگر ریاستی حکومتیں من پسند خبریں یا نشریات نہیں پاتیں تو وہ صحافیوں کو ڈرانے، دھمکانے کے لیے ان پر مقدمات درج کروا دیتی ہیں۔ اس ضمن میں عدالت نے کہا کہ اب وہ وقت گزر گیا جب حکومتوں پر محض تنقید کی وجہ سے ملک سے غداری کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کر دیا جاتا تھا۔

صدیق کپن کو گزشتہ سال اترپردیش کے ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی اور قتل کے کیس کی رپورٹنگ کے لیے جاتے وقت متھرا میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دیگر صوبوں کے چھوٹے شہروں سے وابستہ صحافیوں کو بھی اگر حکومتی اقدامات پر تنقید کرنے کے نتیجے میں ناجائز جیلوں میں ڈالا جاتا ہے تو عدالتیں از خود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ صحافیوں کو انصاف فراہم کریں تاکہ جمہوریت کا چوتھا ستون مضبوط رہے۔

اس سے پہلے ریاست ہماچل پردیش سے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما نے ونود دوا کے یوٹیوب پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی اور حکومت پر تنقید کرنے کی پاداش میں ان کے خلاف ملک سے غداری اور دیگر دفعات کے تحت کیس درج کرایا تھا۔ یہ کیس ان کے خلاف 6 مئی 2020 کو شملہ کے کمار سین پولیس اسٹیشن میں درج کرایا گیا تھا۔ اس کیس کو ونود نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ دوا نے عدالت سے گرفتار نہ کیے جانے کی اپیل کی تھی، تاہم اس وقت سپریم کورٹ نے ان کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا جس میں استدعا کی گئی تھی کہ 10 سال کا تجربہ رکھنے والے کسی بھی صحافی کو اس وقت تک گرفتار نہ کیا جائے جب تک کہ ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں قائم کمیٹی اس کی منظوری نہ دے دے، البتہ سپریم کورٹ نے گزشتہ برس 20 جولائی کو ونود دوا کے خلاف انتظامیہ کو تاحکم ثانی کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ انہیں ہماچل پردیش کی پولیس کی جانب سے پوچھے گئے کسی بھی ضمنی سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ اس حوالے سے دوا کے وکیل کے مطابق، ان کے مؤکل کے خلاف جن دفعات کے تحت مذکورہ مقدمہ درج کیا گیا تھا اس کے تحت انہیں کوئی سزا نہیں دی جا سکتی۔ ان کے بقول ونود نے ایک صحافی کی حیثیت سے کسی مذہب، نسل، زبان، علاقے، گروہ یا فرقے کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ونود دوا اپنے یو ٹیوب پروگرام ’ونود دوا شو‘ میں وزیر اعظم مودی حکومت کو اکثر تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں جبکہ حکمراں جماعت کے رہنما یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ عوام مخالف پروگرام کرتے ہیں۔
اس سے قبل گزشتہ ہفتے عدالت عظمیٰ نے ایک دوسرے معاملے پر سماعت کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ ملک سے غداری کی دفعہ کی حدود کی تشریح کی جائے۔ میڈیا کے حوالے سے بھی یہ تشریح ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ونود دوا ملک کے ایک بڑے صحافی ہیں جن کی ملک کے منجھے ہوئے صحافی کی حیثیت سے ایک الگ پہچان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے بہت سے لوگوں کو اطمینان حاصل ہوا ہے۔ کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کے معاملے میں اگرچہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کا رویہ مناسب رہا لیکن سپریم کورٹ سے انہیں تاحال کوئی رعایت نہیں مل پائی ہے۔ صدیق کپن کو گزشتہ سال اترپردیش کے ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی اور قتل کے کیس کی رپورٹنگ کے لیے جاتے وقت متھرا میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دیگر صوبوں کے چھوٹے شہروں سے وابستہ صحافیوں کو بھی اگر حکومتی اقدامات پر تنقید کرنے کے نتیجے میں غیر قانونی طریقے سے جیلوں میں ڈالا جاتا ہے تو عدالتیں از خود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ صحافیوں کو انصاف فراہم کریں تاکہ جمہوریت کا چوتھا ستون مضبوط رہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ کچھ ریاستی حکومتوں نے غداری، قومی سلامتی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون ’یو اے پی اے‘ کے تحت مخالفین کے خلاف کارروائی کی ہے جس کی وجہ سے ان کی ضمانتوں کی درخواستیں منظور نہیں ہو پا رہی ہیں۔ دوسری طرف ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا، پریس کلب آف انڈیا، انڈین ویمنس پریس کور، دہلی یونین آف جرنلسٹس اور انڈین جرنلسٹس یونین جیسی صحافی تنظیموں کی طرف سے صحافیوں کے خلاف قانونی کارروائیوں پر بارہا احتجاج کیا جاتا رہا ہے اور پولیس کی کارروائیوں کی مذمت کی گئی ہے۔ ایڈیٹروں کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آئی) اور ایک دوسری تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) نے ہندوستان میں صحافیوں کے خلاف غداری کی دفعات کے تحت قائم کیے جانے والے مقدمات پر تشویش ظاہر کی تھی جبکہ مذکورہ حالات کے پس منظر میں سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مدن بی لوکر نے 14 ستمبر 2020 کو فریڈم آف اسپیچ اینڈ جوڈیشیری کے ایشو پر بات کرتے ہوئے لوگوں کے اظہار خیال کی آزادی پر روک لگانے کے لیے ان پر ملک سے غداری کے تحت قوانین کا استعمال کرنے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
کل ملاکراگر دیکھا جائے تو عالمی سطح پر ہی سچائی کے ساتھ کوریج کرنا میڈیا کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف جھوٹی قسم کی صحافت ان دنوں خوب پھلتی پھولتی نظر آرہی ہے مگر ان تمام باتوں کے باوجود میرا ماننا ہے :
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS