رمضان آرہا ہے

0

ڈاکٹرحافظؔ کرناٹکی

اہل ایمان کے لئے رجب کا مہینہ شروع ہوتے ہی استقبال رمضان کا موسم شروع ہوجاتا ہے۔ عام لوگوں میں بھی رجب کے مہینے سے رمضان کی خوشبو کا احساس بڑھنے لگتا ہے۔ کیوں کہ مسجدوں میں امام و خطیب کی خطابت کا انداز بدل جاتا ہے۔ اور جب شعبان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ بس موسم رمضان کی بہار آنے ہی والی ہے۔ پوری فضا رمضان کی آمد کے احساس کی خوشی اور امنگ سے بھرجاتی ہے۔ پندرہویں شعبان سے تو گویا آمد رمضان اور استقبال رمضان کا باضابطہ دور شروع ہوجاتا ہے۔ مسجدوں کی پاکی صفائی پر خاص توجہ دی جانے لگتی ہے۔ مسجدوں کے آس پاس کی زمین اور علاقوں کی صفائی بھی کی جاتی ہے۔ اگر مسجدوں کے رنگ و روغن پھیکے پڑگئے ہوں تو اس کی نئے سرے سے رنگائی کی جاتی ہے۔ مسجدوں میں بچھے ٹاٹ اور قالین کی بھی صفائی کی جاتی ہے۔ ضرورت محسوس ہوتی ہے تو پرانی قالین کی جگہ نئی قالین بچھائی جاتی ہیں۔ وضوخانوں کی مرمت اور صفائی پر بھی خصوصی توجہ کی جاتی ہے۔ اگر مسجدوں کے نل خراب ہوں تو اس کی تبدیلی کا انتظام کیا جاتا ہے۔
بعض اللہ کے نیک بندے رمضان المبارک کی آمد کے پیش نظر اپنی ساری گھریلو ذمہ داریوں کو شعبان میں ہی پورا کرلیتے ہیں۔ گھر کے لیے جو بھی سامان یا سودا سلف خریدنا ہو وہ رمضان سے پہلے ہی خرید لیتے ہیں۔ بچوں اور گھر کے دوسرے افرادوں کے لیے کپڑے جوتے اور ضرورت کی دوسری چیزیں بھی خریدلیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ دراصل رمضان کے لیے اپنے آپ کو پوری طرح وقف کردینے کی تیاری کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ میں عہد کر چکے ہوتے ہیں کہ انہیں رمضان میں دنیاوی امور میں نہیں الجھنا ہے۔ وہ اپنا سارا وقت اللہ کی عبادت اور تلاوت کلام پاک میں گزاریں گے۔آمد رمضان کا جوش و خروش ہر سطح پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ تجار اپنی تجارت کی چیزیں رمضان کے شروع ہونے سے پہلے خرید لیتے ہیں۔ تا کہ تجارت کی غرض سے مال و اسباب کی فراہمی میں اسے رمضان کے مبارک مہینے میں وقت نہ برباد کرنا پڑے۔
حفاظ کرام اپنے قرآن پڑھنے اور یاد کرنے کی رفتار بڑھادیتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے ہیں کہ تراویح پڑھتے وقت ان سے کوئی بھول چوک ہو اور تراویح پڑھنے والے اللہ کے نیک بندے بدحظ ہوں۔ گویا سبھی لوگ اپنے اپنے قول و فعل سے بہ زبان خاموشی دہرارہے ہیں کہ رمضان آرہا ہے۔ رمضان آرہاہے۔
مدارس اور اسکول و کالج میں استقبال رمضان کی مجلسیں برپا ہونی شروع ہوجاتی ہیں۔ رمضان المبارک کے استقبال کے لیے نورانی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کی صفائی کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ بڑے بزرگوں کی اس طرح کی تیاریاں دیکھ کر ان کی باتیں اور تقریریں سن کر بچوں کے اندر بھی جوش جذبہ اور عقیدت پیدا ہوتی ہے۔ وہ بھی رمضان کے روزوں کی برکتیں حاصل کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوجاتے ہیں۔ دل ہی دل میںوہ بھی تہیہ کرلیتے ہیں کہ انہیں رمضان المبارک کے روزے رکھنے ہیں۔ تلاوت کلام پاک میں منہمک رہنا ہے۔ اللہ کی رضاحاصل کرنے کے لیے اس کی عبادت کو اپنا شعار بنانا ہے۔ تراویح کا اہتمام کرنا ہے۔ ان کے ذوق و شوق کو دیکھ کر لگتا ہے گویا وہ کہہ رہے ہوں کہ رمضان آرہا ہے، رمضان آرہا ہے۔
اللہ کے وہ نیک بندے جو خلق خدا کی خدمت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں، وہ آمد رمضان کی خوشی میں کثیر تعداد میں عطیات، صدقات، اور خیرات کا اہتمام کرتے ہیں۔ تا کہ غربا، مساکین، بیوائیں، اور بے کس و مجبور لوگ بھی رمضان کا استقبال خوش دلی سے کریں۔ بعض دیندار امیر اور خوشحال لوگ اپنے رشتے داروں، دوست احباب، خویش و اقارب، اور پڑوسیوں کی مالی حالت معلوم کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اس بات کی جانکار ی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کا کوئی نیک بندہ قرض کے بوجھ سے تو نہیں دبا ہوا ہے اور پھر وہ اپنی استطاعت کے مطابق مقروضوں کا قرض ادا کردیتے ہیں۔ لوگوں کے حسب حال، صدقات، عطیات، خیرات کا اہتمام کرتے ہیں تا کہ ان کی زندگی میں بھی آمد رمضان المبارک کی خیر و برکت کا نفوذ ہوسکے۔
یہ اللہ کی بڑی مہربانی ہے کہ آمد رمضان سے قبل ہی اللہ کے نیک بندوں کے دل کھل جاتے ہیں۔ سخاوت کا جذبہ جوش مارنے لگتا ہے اور وہ اپنے آس پاس کے ضرورت مندوں کی مدد کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ جو لوگ زیادہ خوشحال ہوتے ہیں وہ اپنے گاؤں، شہر اور محلے کی مسجدوں کی تعمیر ، مدرسوں کی تعمیر و ترقی کے لیے بڑھ چڑھ کر خرچ کرتے ہیں۔ اس طرح کی تمام نیکی، محبت، مروّت، امداد، اور ایک دوسرے کی بڑھ چڑھ کر تعاون کرنے کی خواہش کو دیکھ کر صاف محسوس ہونے لگتا ہے کہ واقعی رمضان آرہا ہے۔ اپنی تمام تربرکتوں کے ساتھ۔ رمضان المبارک کا اس کے شایان شان استقبال کرنے کے لیے شعبان سے ہی لوگ ذہنی طور پر تیاری شروع کردیتے ہیں۔ پندرہ شعبان سے پہلے پہلے کثرت سے روزے رکھتے ہیں۔
اللہ کے نیک بندے آمد رمضان سے پہلے ہی طے کرلیتے ہیں کہ انہیں پورے رمضان کے مہینے کے روزے ذوق و شوق سے رکھنے ہیں۔ وہ یہ بھی اپنے آپ سے عہد کر لیتے ہیں کہ وہ بغیر کسی عذر شرعی کے ایک روزہ بھی نہیں چھوڑیں گے اور اگر عذر شرعی کے روزہ توڑنا بھی پڑا تو رمضان المبارک کے احترام میں کھلم کھلا کھانے پینے کی خطا قطعی نہیں کریں گے۔ اللہ کے جو دیندار بندے ہیں وہ اس مہینے کو خدا کا سب سے بڑا انعام سمجھتے ہیں۔ اور اس انعام کو حاصل کرنے کے لیے وہ پہلے ہی سے اس لگن، ذوق اور شوق سے تیاری شروع کردیتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر ہی بعض انجان اور غفلت میں پڑے لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ رمضان آرہا ہے۔ اسی مبارک مہینے میں ہمارے نبیؐ پر قرآن کریم نازل ہوا تھا۔ اور دوسری آسمانی کتابیں بھی اسی مہینے میں نازل ہوئیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسی مہینے کی پہلی یا تیسری تاریخ کو صحیفے عطا کیے گئے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو اسی ماہ مبارک کی بارہ یا اٹھارہ تاریخ کو ’’زبور‘‘دی گئی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اسی مبارک مہینے کی ۶؍تاریخ کو تورات نازل ہوئی تھی۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی اسی مہینے کی ۱۲؍تاریخ کو انجیل مقدس نازل ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آمد رمضان کا استقبال سبھی نبیوں کے ماننے والے کسی نہ کسی صورت میں کرتے ہیں۔ اور اس کی برکتوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ رمضان المبارک کے مہینے میں ہی حضرت جبرئیل علیہ السلام پیارے نبیؐ کو پورا قرآن سناتے تھے اور پیارے نبیؐ سے پورا قرآن سنتے تھے۔ جب حضورؐ کا آخری سال تھا تو اس سال حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ہمارے نبیؐ سے دوبار قرآن مجید سنا اور دوبار خود ہمارے نبیؐ کو قرآن مجید سنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نیک بندے آمد رمضان سے قبل سے ہی قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام شروع کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی نمازوں میں لمبی سورتوں کا اہتمام کرنے لگتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ رمضان المبارک میں انہیں تراویح پڑھنی ہے۔ اگر ابھی سے عادت رہے گی تو نماز میں لمبے قیام اور قعود میں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ رمضان کے استقبال میں اپنے دل کے دروازے کھولنے میں یہ راز پنہاں ہے کہ اللہ والے لوگ جانتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ مواسات کا مہینہ ہے۔ یعنی غریبوں اور حاجت مندوں کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ ہے۔ حضورؐ نے خود فرمایا ہے کہ رمضان کا مہینہ مواسات کا مہینہ ہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ فیاض اور سخی تو تھے ہی مگر رمضان میں تو آپ ؐ کی سخاوت بہت ہی بڑھ جاتی تھی جب حضرت جبرئیل ہر رات کو آپؐ کے پاس آتے اور قرآن پاک پڑھتے اور سنتے تھے تو ان دنوں نبیؐ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ فیاض ہوجاتے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مسلمان ہیں اور اہل ایمان ہیں وہ رمضان المبارک کی برکتوں اور اس کی خصوصیتوں سے بھی واقف ہیں۔ اس لیے اس ماہ رمضان المبارک کی شایان شان پذیرائی کرتے ہیں۔ اور استقبال میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھتے ہیں۔
دین کا علم رکھنے والے مومنین جانتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ ایسی نیکی اور ایسی برکتوں والا مہینہ ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ عرش اٹھانے والے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی عبادت چھوڑدو اور روزہ رکھنے والوں کی دعاؤں پر آمین کہو۔ اب آپ ہی غورفرمائیے کہ جو لوگ رمضان کی عظمتوں کی حقیقت کو جانتے ہیں، اس کی برکتوں سے واقف ہیں وہ بھلا رمضان المبارک کے استقبال کی تیاری کس خضوع و خشوع سے کرتے ہوں گے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ اے ایمان والو اٹھو اور استقبال کرو کہ رمضان آرہا ہے۔ نیکیوں اور برکتوں کا پیغام لے کر ماہ رمضان آرہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS