مولانا عبدالعلی فاروقی
ناظم دارالعلوم فاروقیہ، کاکوری،لکھنؤ
کبھی دنیا اور اس کے جھمیلے فرصت دیں تو ایک مسلمان کی حیثیت سے اس پر ضرور غور کیجئے گا کہ ’’رمضان میں کیا کمایا؟ اور کیا گنوایا؟‘‘۔
نفع اور نقصان کا حساب کتاب کرتے ہوئے اس پر نگاہ رکھنا، عقل مندی کی علامت بھی ہے اور مستقل خسارے سے بچانے کا مجرب و کامیاب نسخہ بھی۔پھر رمضان کا مہینہ تو رحمتوں، برکتوں اور رزق کی بارش کا پورے سال میں سب سے ممتاز مہینہ بھی ہوتا ہے اور آخرت کے لئے’’ کام آنے والے سامان‘‘ کا ذخیرہ کرنے، یا خالی ہاتھ رہ جانے کا ایک بے مثال موقع بھی ہوتا ہے۔
اس لئے اب جب کہ یہ مبارک مہینہ گزر چکا اور خوش نصیب و بدنصیب لوگ اپنے اپنے حصہ کی کمائی کرچکے۔ تو ایک مرتبہ نفع و نقصان کا جائزہ لینا اس لئے ضروری ہے کہ نفع حاصل کرنے والے، کچھ اور بڑھ چڑھ کر کوشش کرکے اپنے نفع کی مقدار بڑھا سکیں اور نقصان اٹھانے والے اپنی اس ڈگر کو بدلنے کا فیصلہ لے سکیں، جو نقصان رساں ہے اور نفع بخش ڈگر پر چل کر آئندہ وہ نفع حاصل کرنے والوں میں شامل ہوسکیں؟۔
تو آئیے ہم اپنا اور اپنے گھروں کا جائزہ لے کر خود اپنے ضمیروں سے فیصلہ کرائیں کہ ہم نے رمضان میں ’’رمضان والے اعمال‘‘ اور ’’رمضان کی مطلوبہ زندگی‘‘ میں اپنی کتنی حصہ داری رکھی؟ کم از کم ستر گنا نفع حاصل ہونے کے ’’آفر‘‘ کی طرف ہم نے توجہ کی یا اس ’’خدائی پیکیج‘‘ کو نکار دیا؟ چھوٹی اور تھوڑی مشقت (نفل عبادات) کے ذریعہ بڑے اور کثیر نفع حاصل کرنے (فرائض کے برابر ثواب حاصل ہونے) کے ’’خصوصی سیزن‘‘ (رمضان) میں ہم نے ایک عقل مند و بامراد تاجر ہونے کا ثبوت دیا، یا سست و کاہل اور کام چور غافل ہونے کا؟۔
یہ ٹھیک ہے کہ رمضان کا مہینہ تو آکر گزر بھی گیا مگر یہ یاد رکھئے کہ وہ پھر آنے کے لئے گیا ہے۔ خدائی نظام کے مطابق ہر گیارہ مہینوں کے بعد رمضان آتا رہے گا قابل توجہ بات یہ ہے کہ ہمیں اب کوئی رمضان کا مہینہ ملے گا، یا ہماری زندگی کا آخری رمضان آکر گزر گیا؟ اگر اس سوال پر ہم غور کریں گے تو ہمیں اس کا کوئی حتمی وقطعی جواب نہیں مل سکے گا۔ کیوںکہ اس کا صحیح و قطعی جواب اسی وقت مل سکے گا جب ہمیں اپنی موت کا بالکل صحیح وقت معلوم ہوسکے؟ موت کا صحیح وقت معلوم ہونے ہی پر ہم اس کا فیصلہ کرسکیں گے کہ اگر ہماری موت، اگلا رمضان آنے سے پہلے ہی ہونا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری زندگی کا آخری رمضان گزر گیا اور اگر ہم کو صحیح طور پر اس کا علم ہوجائے کہ ہماری موت اگلے رمضان کے بعد ہوگی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ابھی ہمیں اپنی زندگی میں رمضان کا مبارک مہینہ اور اس مہینے میں آخرت کی کمائی کرنے کا موقع ملے گا؟ لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہمیں اپنی موت کے صحیح وقت کا کسی بھی ذریعہ سے علم ہو ہی نہیں سکتا۔ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں صاف صاف اور واضح انداز میں اعلان فرما دیا ہے کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کا علم ہم نے کسی کو نہیں دیا ہے اور ان پانچ چیزوں میں ایک موت کا صحیح وقت اور اس کا صحیح مقام بھی ہے۔
یوں تو اللہ کی طاقت و قدرت کے آگے بڑے سے بڑے شہ زور کو بھی جھکنا ہی پڑتا ہے اور ہر عقل مند آدمی کو یہ کہنا ہی پڑتا ہے کہ اس کے کہے کو ٹالنے اور اس کی طاقت وقدرت کو نظرانداز کرکے اپنی منوالینے کی کسی کی اوقات نہیں ہوتی اور ہوتا وہی ہے جو وہ کہہ دیتا ہے مگر ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم تو اپنی زبانوں سے بھی اس کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ جو چاہے وہی ہوتا ہے یعنی (جو اللہ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو وہ نہ چاہے نہیں ہوتا)
ایسی بے بسی اور موت کے وقت کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے یہ اندیشہ تو موجود ہی رہگا کہ ہوسکتا ہے کہ جو رمضان گزر گیا وہی میری زندگی کا آخری رمضان ہو اور اب ہمیں رمضان کے ’’موسم بہار‘سے کمائی کرنے کا موقع نہیں ملے گا اور جب یہ خیال آئے گا تو لامحالہ یہ سوچنے کی بھی توفیق ملے گی کہ ہم نے اپنی زندگی کے گزرے ہوئے آخری رمضان میں کیا پایا اور کیا کھویا؟ دنیا کی عارضی زندگی کے موت کے ذریعہ اختتام ہوجانے کے بعد آخرت کی دائمی زندگی کی راحت وعافیت کے لئے کچھ ذخیرہ کیا ہے کہ نہیں؟ اور جب کوئی بھی مسلمان اپنے رحیم وکریم پروردگار کی لاتعداد نعمتوں کے مقابلہ میں اپنی نیکیوں اور نیک اعمال کا جائزہ لے گا تو اسے خود ہی اس فیصلہ پر مجبور ہونا پڑے گا کہ ہماری تھوڑی سی نیکیاں اور کچھ اچھے اعمال، اللہ تعالیٰ کی بخشش و عطا کے سامنے توکوئی حیثیت نہیں رکھتے اور بس ’’یہی مبارک احساس‘‘ تلافی مافات پر مجبور کرکے ایک ایک لمحہ کی قدر کرنے پر مجبور کردے گا۔
ہم نے، آپ نے بہت سے اولیاء اللہ اور بزرگان دین کو اس حال میں پایا ہے کہ وہ ہمارے مقابلہ میں سیکڑوں گنا زیادہ نیکیاں کرنے اور اپنے شب و روز اپنے خالق کی رضا کو حاصل کرنے میں صرف کرنے کے باوجود ہم سے کہیں زیادہ بے چین و بے قرار رہتے ہیں۔ ان کی آنکھیں ندامت کے آنسوؤں سے ہمہ وقت بھیگی نظر آتی ہیں اور وہ اپنے پاس کچھ لینے اور دعا کرانے کے لئے آنے والوں سے الٹے خود ہی عاجزی و مسکنت کے ساتھ اپنے ’’حسن خاتمہ‘‘ کے لئے دعا کی درخواست کرتے ہوئے نظر آتے ہیں؟
اس سلسلہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھے دو بزرگوںکا حال بیان کردینا مناسب ہوگا ان میں کی پہلی شخصیت حکیم الامۃ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ؒ کے خلیفۂ اجل، اپنے وقت کے ولی کامل اور حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندویؒ جیسے بے نفس و محبوب خلائق بزرگ کے استاذ اور مرشد حضرت مولانا محمد اسعداللہ صاحبؒ سابق ناظم مدرسہ مظاہرالعلوم سہارن پور کی ہے۔جن کی دنیا و متاع دنیا سے بے نیازی کا یہ حال تھا کہ صرف دو جوڑے کپڑے استعمال میں رہتے اور ان میں بھی کلف و استری کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔ جو جوڑا اتارتے وہ دھونے اور تہ کرنے کے بعد ان کے گاؤ تکیے کے نیچے دبا دیا جاتا اور اس پر اس طرح پریس ہوجاتا اور اگلے موقع پر اسے پہن لیتے۔ عبادت و تقویٰ کا یہ حال تھا کہ باوجود مدرسہ اور مدرسہ کے طلبہ و اساتذہ کی ضرورت کی وجہ سے مدرسہ میں قیام کرنے کے، صرف اس لحاظ میں کہ میں اپنی نجی ضروریات کے لئے بھی استعمال کررہا ہوں، مدرسہ کی بجلی نہیںاستعمال کرتے تھے اور اپنے کمرہ میں سب میٹر لگوا رکھا تھا، جس کے ذریعہ ہر ماہ میں ہونے والے خرچ کی اپنی قلیل تنخواہ سے مدرسہ کو ادائیگی کرتے تھے۔ دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ نماز باجماعت کے اہتمام کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ انتہائی معذوری کے عالم میں جب کہ دو طالب علم ان کی چارپائی کمرہ سے اٹھاکر مسجد میںلے جاکر رکھ دیتے اور وہ صف اول میں باجماعت نماز ادا کرتے تھے، ان کے منھ سے بے ساختہ نکل گیا تھا کہ بفضلہ تعالیٰ ۲۷؍برس سے تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی ہے (جماعت یا کسی رکعت کے ترک ہونے کا تو ذکر ہی کیا) عبادت و تقویٰ کے اس اہتمام کے باوجود راقم الحروف نے متعدد مرتبہ یہ دیکھا کہ کوئی عقیدت مند دور دراز سے ان کی زیارت وملاقات کرکے ان سے دعائیں لینے کے لئے حاضر ہوا، اس کی طلب کو پورا کیا اور جب وہ رخصت ہونے لگا تو اس سے اپنے گناہوں کا حوالہ دیتے ہوئے ’’حسن خاتمہ‘‘ کی درخواست کرتے نظر آئے۔ یعنی اپنی نیکیوں اور نیک اعمال کی طرف کوئی نگاہ ہی نہیں، بس ایک بے چینی و بے قراری ہے کہ انجام بخیر ہو، جسے صرف اور صرف خدا کی رحمت کرسکتی ہے۔
دوسری شخصیت اسی ادارہ سے وابستہ مرشد کامل شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ مہاجر مدنی کی ہے، جنہوں نے اپنی ’’آپ بیتی‘‘ میں ایک مقام پر بہت ہی حسرت وافسوس کے ساتھ اپنے ضعف و بڑھاپے کے حوالہ سے تحریرفرمایا ہے کہ ’’ اب میرے رمضان بھی کیا رمضان، ہاںجوانی اور قوت جسمانی کا ایک وقت ضرور تھا کہ میں رمضان کے ہر دن میں دیگر معمولات کے ساتھ ساتھ ایک قرآن مکمل کرلیا کرتا تھا اور پھر آگے وہ ترتیب بھی بیان فرمائی ہے کہ کس کس طرح اور کس کس نماز کے وقت کتنے پاروں کی تلاوت کرتے تھے؟ ان دو ’’مثالی بزرگوں‘‘ کا ذکر اس مقام پر اپنے جیسے ناکارہ لوگوں کی عبرت کے لئے کیا کہ اگر کسی طرح (خالق سے زیادہ مخلوق کی ملامت کے ڈر سے پانچ وقت کی آدھی ادھوری نماز پڑھ لی تو یہ احساس کرنے لگے کہ ہم کم سے کم خدا کے فریضہ کی طرف سے تو غافل نہیں ہیں اور اگر کہیں رمضان کے روزوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار دو چار رکعت نفل کی ادائیگی اور تلاوت قرآن بھی ہوگئی تو پھر کہنا ہی کیا، دماغوں میں شیطان اپنا مضبوط گھونسلہ بناکر اس احساس کو مضبوط کرنے لگتا ہے کہ ’’ہم بھی کچھ ہیں؟‘‘ اور اگر اپنی ولایت وبزرگی، یا کم از کم خدا کا اطاعت گزار بندہ ہونے کا ’’مرض‘‘ جڑ پکڑلے تو آگے کے لئے خیر کی طلب کے دروازے خود بہ خود بند ہوجاتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ نیکیوں کے موسم بہار اور عطائے خداوندی کا بے مثل مہینہ رمضان تو ضرور گزر گیا۔ مگر خدا کی رحمت وعنایات کے دروازے اب بھی کھلے ہوئے ہیں اور وہ ہماری اس دنیاوی زندگی کی آخری سانس تک کھلے رہیں گے رمضان جیسے بابرکت مہینے کو پاکر اپنی بخشش کا سامان نہ کرلینا، یقینا بڑی محرومی اور بڑا خسارہ ہے، لیکن ہماری خوش بختی یہ ہے کہ اس خسارہ کی تلافی کے لئے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور خدا کی رحمت ہماری طلب سے بھی زیادہ ہمیں دینے کے لئے آمادہ و تیار ہے۔ بس ضرورت ان اشک ہائے ندامت کی ہے جو اپنی محرومی کے احساس پر بے ساختہ بہ پڑیں، ان سرد آہوں کی ہے جو عرش الٰہی سے جا ٹکرائیں اور ان سجدہ ہائے بے قرار کی ہے جن پر ہمارے قادر ومقتدر مالک کو ترس آجائے۔اللہ ہمیں توفیق دے کہ کھونے کے بعد بھی پانے کا سامان کرسکیں۔
٭٭٭