رام نومی اور فرقہ وارانہ تشدد

0

تہوار کسی بھی معاشرے کی ثقافت کی بھی نمائندگی کرتے ہیں اور معاشرتی ہم آہنگی استوار رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ تہوارکوئی سا بھی ہو وہ بنیادی طور پر خوشی کی نوید لے کرآتا ہے۔دوسروں سے منفرد اور جداگانہ حیثیت کا اظہار کرنے کیلئے کچھ قومیں اپنا تہوار جوش و خروش سے مناتی ہیں۔ کسی ایک طبقہ کا تہوار دوسرے طبقہ کیلئے پریشانی اور ان کے درمیان تصادم کا سبب نہیں بن سکتا ہے۔ لیکن ادھر چند برسوں سے تہواروں کے موقع پر فرقہ وارانہ منافرت اور مذہبی جھگڑوں نے تہوار کی خوشی ماند کرڈالی ہے۔ بعض تہواروں میں دو فرقوں کے درمیان تصادم کی وجہ سے فرقہ وارانہ تشدد بھی پھوٹ پڑتا ہے۔ خاص کر رام نومی کے تہوار کے موقع پر ایسے واقعات تسلسل سے پیش آرہے ہیں۔ اس سال بھی رام نومی کے موقع پر نکالی جانے والی شوبھایاترائوں کے دوران کئی ریاستوں سے تشدد کی خبریں آئی ہیں۔دہلی، اترپردیش، گجرات، مہاراشٹرا ور مغربی بنگال میں ہونے والے تشدد کی وجہ سے ماحول کشیدہ ہوگیا ہے۔ پتھرائو اور تشدد کی وجہ سے درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں تو کڑوروں مالیت کے مال و اسباب نذر آتش کردیے گئے ہیں۔
رام نومی کے موقع پر ہونے والے پتھرائو اور تشدد کو اتفاقی واقعہ کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا ہے۔ کئی جگہوں سے یہ رپورٹ بھی آئی ہے کہ جلوس جان بوجھ کرافطار کے وقت ایسے علاقوں سے گزاراگیا جہاں مسلمانوں کی کثیرآبادی ہے اور اشتعال انگیز مسلم دشمن نعرے لگائے گئے۔حیدرآباد میںتو رام نومی کا ایک جلوس ناتھو رام گوڈسے کی تصویر کے ساتھ نکالاگیا۔مغربی بنگال کے ہوڑہ میںافطار کے وقت مسلم بستیوں سے گزرنے والا بلڈوزراور تلواروں کے ساتھ رام نومی کا جلوس مسلم دشمن نعروں کی گونج میںآگے بڑھتارہا اور راستہ میں شرپسند اورغنڈہ عناصر ماحول بگاڑنے کیلئے توڑپھوڑ بھی کرتے رہے۔ ایک طرف مسلمان اپنی افطار کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے تودوسری جانب سے پوری بستی پر پتھرائو ہوتارہا۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی کا دعویٰ ہے کہ مسلم علاقوں سے گزرنے والے اس جلوس میں باہر سے بلاکر غنڈے شامل کیے گئے تھے تاکہ فرقہ وارانہ فسادات ہوں اور بھارتیہ جنتاپارٹی اپنی سیاسی روٹی سینکے۔ہوڑہ میں تشدد کے بعد ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ممتا بنرجی نے کہا کہ کسی نے ان کے جلوس کو روکنے کی کوشش نہیں کی لیکن انہیں تلواروں اور بلڈوزر کے ساتھ جلوس نکالنے کا کوئی حق نہیں ہے۔بی جے پی کارکنوں کو لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر چلانے کی ہمت کیسے ہوئی؟ جلوس کا روٹ بدل کر ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنانے اور حملہ کرنے کیلئے غیر مجاز راستے کا استعمال کیاگیا۔وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے فساد برپاکرنے والوں کو قرار واقعی سزا کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگروہ یہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں پر حملہ کرکے قانونی مداخلت سے نجات حاصل کر سکتے ہیں تو انہیں جان لینا چاہیے کہ لوگ ایک دن انہیں مسترد کر دیں گے۔ جو لوگ بے قصور ہیں اور کوئی غلط کام نہیں کیا، انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا، لیکن قصورواروں کو بخشا نہیں جائے گا۔
اب مغربی بنگال یا مہاراشٹرکی حکومتیں فسادیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہیں، یہ تو آنے والے دنوں میںپتہ چل جائے گا لیکن ان واقعات سے یہ ضرور ثابت ہورہاہے کہ سیاسی اور مذہبی منافرت کے اس بھیانک ماحول میں بھی انتظامیہ رام نومی کے جلوس کے تئیں سنجیدہ نہیںتھی۔یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے کہ آج ملک کا ماحول کس قدر پراگندہ اور زہریلا ہوچکا ہے۔ حساس علاقوں میں مذہبی جلسے جلوس کے وقت پولیس کی بھاری نفری تعینات رہتی تاکہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کو روکا جاسکتا۔ ہوڑہ میں بھی پولیس تعینات تھی لیکن مجسم ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم بنی رہی۔ جلوس میں شامل شرپسند مسلمانوں کو گالیاں دیتے اورتلوارلہراتے ہوئے آگے بڑھتے رہے مگر پولیس نے کوئی حرکت نہیں کی، ایسا لگ رہاتھا کہ اس سال رام نومی کے جلوس کو ہوڑہ ضلع انتظامیہ نے آزاد چھوڑ دیا ہے۔اب الزامات اور جوابی الزامات کی بارش کی جارہی ہے۔ایک طرف ممتا بنرجی کہہ رہی ہیںکہ بی جے پی نے باہر سے غنڈے بلاکر فساد اور تشدد بھڑکایا تو دوسری طرف بی جے پی نے اس کیلئے وزیراعلیٰ اور ضلع انتظامیہ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔لیکن اس سیاسی نوراکشتی میں نقصان ملک کا ہورہا ہے۔ امن و امان کو خطرات لاحق ہورہے ہیںتو انسانی جان و مال کاشدید نقصان ہورہاہے۔آج جس طرح سے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی سیاست ہو رہی ہے اورمسلم دشمنی کو ہوا دی جارہی ہے، اسے فوری طور پرروکا جانا اور ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کیاجانا ضروری ہے، اس کے ساتھ ہی ان وجوہات کا بھی جائزہ لیا جاناچاہیے جو ایسے تشدد کا سبب بن رہے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS