’’منی انڈیا‘‘علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

0

محمد حنیف خان

مسلمانوں کی آرزؤوں کا مرکز، گنگا جمنی تہذیب کی علامت، تعلیم و ترقی کا خواب دیکھنے والوں کی تعبیر اور وزیراعظم نریندر مودی کا ’’منی انڈیا‘‘علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کثیر ثقافتی معاشرے کی علامت ہے، یہ ایک اقامتی یونیورسٹی ہے جس میں ہر مذہب،طبقہ اور فکر کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں جس سے وہ ایک کولاژ کی شکل اختیار کرلیتی ہے لیکن ماہ رمضان المبارک میں اس کی خوبصورتی اور حسن میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ یونیورسٹی کی متنوع خصوصیات اور فکری و تہذیبی تنوع کی بناپر ہی وزیراعظم نریندر مودی نے 2020کے کنووکیشن سے آن لائن اپنے خطاب میں اس کو ’’منی انڈیا ‘‘ کا نام دیا تھا۔اسی پروگرام میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ معاشرے میں فکری اختلافات ہوتے ہیں لیکن جب راشٹر/ملک و قوم کے اہداف تک پہنچنے کا مسئلہ ہو ہر اختلاف کو کنارے رکھ دینا چاہیے۔ یہاں ہر طرح کے اختلافات اور فکری ناہم آہنگیوں کے باوجود ملک و قوم کی تعمیر میںمسلم و غیر مسلم اساتذہ، طلبا و طالبات اور غیر تدریسی امور سے وابستہ افراد اپنے فرائض منصبی میں ہمہ تن اور ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں،جن کی نظر صرف ملک و قوم کی تعمیر کے ہدف پر رہتی ہے۔یہ سب مل کر ایک ایسا خوشنما، خوبصورت، جہل سے پاک،خوشیوں سے بھرا ہندوستان تعمیر کرنا چاہتے ہیں جیسا وہ منی انڈیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی خود محسوس کرتے ہیں۔
ماہ رمضان مسلمانوں کے لیے نہایت مقدس ہے،اس لیے یونیورسٹی میں بھی خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں، جس سے غیرمسلم طلبا،اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ بھی فیضیاب ہوتا ہے۔ماہ رمضان میں یہ ادارہ حقیقی طور پر ’’منی انڈیا‘‘ کی تصویر بن جاتا ہے،ایک طرف جہاں اس ماہ میں مسلم بچے اور بچیوں کے لیے ہاسٹلوں کی میس میں اچھے کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے تو وہیں غیر مسلم بچے بچیاں بھی اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں،ان طلبا و طالبات کے لیے ناشتے اور دوپہر کے کھانے کا خصوصی انتظام کیا جاتاہے چونکہ دونوں مذاہب کے ماننے والے طلبا ایک ساتھ ہاسٹلوں میں رہتے ہیں، اس لیے افطار میں غیر مسلم طلبا لازمی طور پر مدعو رہتے ہیں،خود یہ طلبا و طالبات اپنے مسلم دوستوں کے لیے افطار کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔یہی نظارہ لڑکیوں کے ہاسٹلوں میں بھی دیکھنے کو ملتاہے، ویمنس کالج میں غیرمسلم لڑکیوں کی معتد بہ تعداد ہے۔گریجویشن سکنڈ سمسٹر این ایم ٹی(نان مدر ٹنگ) کی 19بچیوں میں چھ غیر مسلم ہیں جو اردو پڑھ رہی ہیںتاکہ گنگا جمنی تہذیب اور اس کے ثمرات کو یقینی بنا سکیں۔
سر سید ہال ساؤتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کاوہ ہال جسے قومی وراثت کا درجہ حاصل ہے،یہاں کے سینئر وارڈن ڈاکٹر عبد العزیز بتاتے ہیں کہ ہمارے ہال میں تقریباً سو غیرمسلم طلبا مقیم ہیں،جبکہ محسن الملک ہال کے پرووسٹ پروفیسر محمد علی جوہر کے مطابق اس ہال میں تقریباً ستر غیر مسلم طلبا مقیم ہیں جن کے دوپہر کے کھانے اور ناشتے کا الگ سے انتظام کیا جاتا ہے۔ پروفیسر محمد علی جوہر کہتے ہیں کہ یونیورسٹی وزیراعظم نریندر مودی کے الفاظ کی تجسیم ہے، گنگا جمنی تہذیب کی ایسی مثال پورے ہندوستان میں کہیں نہیں مل سکتی ہے۔ہندوستانی تہذیب و ثقافت کایہ وہ مرکز ہے جس نے دلوں کو جوڑ کر رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے کمپوزیشن میں ہر ذات، طبقے، مذہب، علاقے اور صوبے کے ہیں،جو یہاں ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں،یہ طلبا ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
تحریک علی گڑھ میں روز اول سے برادران وطن کے بانی درسگاہ سر سید احمد خاں کو تعاون حاصل رہا ہے،جنہوں نے دامے، درمے اور سخنے ہر طرح سے بانی درسگاہ کی مدد کی تاکہ ملک و قوم کو علم کے اجالے سے روشن کرنے والا ادارہ مل جائے۔ان کے تعاون کے نقوش سر سید ہال ساؤتھ اور نارتھ کے کمروں پر لگی تختیوں کے توسط سے دیکھے جاسکتے ہیں جن پر لالہ پھول چند اور ایس این پنڈت، اسکوائر بار اسٹرایٹ لا، کاٹھیاواڑ راج کوٹ جیسے علم دوستوں کے نام کندہ ہیں۔ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار ان بزرگوں نے جو خواب دیکھا تھا، وہ آج شرمندۂ تعبیر ہوچکا ہے۔مگر اس کی شبیہ کو داغدار کرنے کی کوشش کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔
اختلاف و اتفاق نہ صرف انسانی جبلت ہے بلکہ یہ ایک اعلیٰ جمہوری قدر بھی ہے،جس کا مطلب ہوتا ہے کہ انسان /معاشرہ اور قوم زندہ ہے۔ موجودہ حکومت اور وزیراعظم کے بہت سے فیصلوں اور فکر سے اختلافات کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں نے وزیراعظم کے مذکورہ ’’منی انڈیا‘ کے بیان کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اس کی تعریف بھی کی،کیونکہ ان کا یہ تبصرہ مبنی برحقیقت تھا۔اس کا فائدہ صرف یونیورسٹی کو ہی نہیں ہوا بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کو اس سے ذہنی طمانیت کا بھی احساس ہوا، کیونکہ موجودہ بی جے پی حکومت کی فکری بنیادیں ایک ایسے فلسفے سے نمو پاتی ہیں جو فکری سطح پر نہ صرف مسلم فکر و عقائد سے حد درجہ مختلف ہے بلکہ ان فکری شعاعوں کے انعکاس میں گزشتہ چند برسوں میں کچھ ایسی چیزیں بھی دکھائی دی ہیں جنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کردیا ہے،یہ خوف وہراس صرف حکومت کی دین نہیں ہے، اس میں ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جو اس کرسی تک رسائی چاہتے ہیں،یہ دونوں اپنے مقاصدکی بر آوری مسلمانوں کے خوف میں دیکھتے ہیں۔کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ہر جگہ معاشرے میں ایک خلیج نظر آتا ہے، ایسے میں وزیراعظم کے اس طرح کے بیانات گھپ اندھیرے میں روشنی ثابت ہوتے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہمیشہ متعصبین کی نظروں میں کھٹکتی رہی ہے، وقتاً فوقتاً اسے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، یہاں کے تعلیم یافتگان اگرچہ یوجی سی کے اصول و ضوابط کے مطابق تعلیم حاصل کرتے ہیں، خود حکومت بجٹ دیتی ہے،صدر جمہوریہ اس کے سرپرست ہیں، اس کے باوجود ان کو شک کی نگاہ سے دیکھاجاتا رہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے ’’منی انڈیا ‘‘ کے بیان کے بعد تعصب و نفرت کے اس ابال میں واضح طور پر کمی دیکھی گئی اور یونیورسٹی اس طرح کے تنازعات سے کسی حد تک پاک ہوتی دکھائی دی،جس کی وجہ سے اس کی تعلیمی سر گرمیوں میں مزید بہتری آئی۔
وزیراعظم کا عہدہ جلیلہ کوئی عام عہدہ نہیں ہے،ان کی بات پر لوگ اختلافات کے باوجود نہ صرف کان دھرتے ہیں بلکہ عمل بھی کرتے ہیں، 2018میں یونین ہال میں جناح کی تصویر پر ایک طوفان کھڑا کیا گیا تھا، حالانکہ یہ تصویر تقسیم ہند سے قبل 1938 میں لگی تھی،اس سے قبل یونیورسٹی میں آر ایس ایس کا دفتر کھولنے کا مطالبہ کیا گیا،مندر کی تعمیر کا بھی مسئلہ اٹھا، لیکن وزیراعظم نریندر مودی کے ’’منی انڈیا‘‘ کے بیان کے بعد یونیورسٹی کے تعلق سے معاشرے میں منفی سوچ اور اس کے اظہار میں واضح کمی نظر آئی،متعصب سیاست دان اور سوشل میڈیا کے بہادر بھی خاموش ہوگئے کیونکہ ان کو احساس ہوگیا کہ وزیراعظم نریندر مودی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ’’منی انڈیا‘‘ تصور کرتے ہیں جن سے اتفاق ان کی مجبوری بن گئی اور اگر کسی نے اتفاق نہیں کیا تو اس نے اپنی زبان پر لگام لگا لی،یہاں تک کہ میڈیا میں بھی منفی خبروں میں کمی آگئی۔یہ سب وزیراعظم نریندر مودی کی ایک زبان’’منی انڈیا‘‘ کا نتیجہ تھا۔ماہ رمضان میں یہ منی انڈیا پوری طرح سے سامنے آجاتا ہے جسے دیکھ کر دل خوش ہوجاتا ہے اور زبان پریہ دعا جاری ہوجاتی ہے کہ کاش پورا ہندوستان یہی ’’ منی انڈیا ‘‘بن جائے توملک کتنا خوبصورت اور پرسکون ہوجائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS