راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا ‘

0

عارف شجر

کانگریس کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی مہم پورے شباب پر ہے۔ راہل گاندھی کی رہنمائی میں ’بھارت جوڑو یاترا‘ نکلے ایک ماہ سے زائد کا وقت ہو چلا ہے اور اس ایک ماہ کے دوران راہل گاندھی اپنی کارگزاریوں کی وجہ سے جس طرح سے مشہور ہو رہے ہیں وہ یقینا ایک مثال کہی جا سکتی ہے لیکن جس طرح کانگریس کے رہنمائوں نے راہل گاندھی کی اس یاترا کو مہاتما گاندھی کے ’’ ڈانڈی مارچــ‘‘ سے تشبیہ دینے کی کوشش کی ہے، وہ کہیں سے بھی فٹ نہیں بیٹھتی۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجیے کہ مہاتما گاندھی کی یاترا بھارت کو انگریزوں کے چنگل سے چھڑانے کی یاترا تھی، اس میں کہیںسے بھی سیاسی پہلو نہیںتھا، گاندھی جی کواقتدار کی ذرا سی بھی لالچ نہیں تھی، وہ صرف یہی چاہتے تھے کہ انگریز ہمارے وطن کو چھوڑ کر چلے جائیں اور ہم بھارت واسی کھلی فضا میں راحت کی سانس لے سکیں لیکن آزادی کے بعد سے ملک میں جتنی بھی یاترائیں ہوئی ہیں، وہ سب کی سب خالص سیاسی اور اپنے اپنے مفاد میں ہوئی ہیں۔ ’بھارت جوڑو یاترا‘ بھی اس کی ایک کڑی ہے۔ سچ پوچھئے تو یہ یاترا بھی اپنے مفاد اور ملک میں اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کے لیے ہی کی جارہی ہے، بی جے پی نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ لال کرشن اڈوانی نے بابری مسجد معاملے کو لے کر رتھ یاترا نکالی تھی اور اسی سے زینہ چڑھ کر بی جے پی نے ملک میں اقتدار کی کرسی حاصل کی تھی۔یاترا کی شکل بدل جاتی ہے لیکن مقصد اقتدار کی کرسی حاصل کرنا ہی ہوتا ہے۔ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جب سے بی جے پی ملک میں برسراقتدار آئی ہے، دیش میں بے روزگاری، مہنگائی اور آپسی نفرت میں کافی اضافہ ہوا ہے اور اسی کو دور کرنے کے لیے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا آغاز ہوا ہے لیکن اس بہانے جو مقصد پوشیدہ ہے وہ اقتدار کی کرسی ہی ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت جوڑو یاترا سے لوگ جس طرح کثیر تعداد میں جڑ رہے ہیں اور راہل گاندھی کاساتھ دے رہے ہیں، اس سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ ملک کے لوگ اب چاہتے ہیں کہ مرکز کی سرکار تبدیل ہولیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ اس یاترا کو مہاتما گاندھی کی یاترا سے جوڑکر دیکھاجائے۔
’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران راہل گاندھی جگہ جگہ پر عوام سے خطاب بھی کرتے ہوئے جا رہے ہیں۔ راہل گاندھی بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے یہ کہنے سے نہیں گھبراتے کہ مہاتما گاندھی، سردار پٹیل اور جواہر لعل نہرو کے علاوہ ملک کے مجاہدین آزادی نے ملک کے لیے اپنی جان دے دی لیکن وہیں آر ایس ایس انگریزو ںکی مدد کر رہا تھا، بھارت کی آزادی میں بی جے پی کہیں نہیں نظر آتی ہے۔اپنے عوامی خطاب میں راہل گاندھی اس بات کی وضاحت کر دیتے ہیں کہ ان کی لڑائی بی جے پی اور آر ایس ایس کے ذریعہ پھیلائی گئی نفرت اور تشدد کے خلاف ہے، چونکہ نفرت اور تشدد ملک مخالف ہے، اس لیے ان کی یہ لڑائی فرقہ پرستوں کے خلاف جاری ر ہے گی۔ مہاتما گاندھی اس عظیم ملک کی اس پد یاترا کا مرکزی محور بنے ہوئے ہیں۔ آپ کو بار بار احساس ہوگا کہ گاندھی اور ان کے ساتھیوں نے زبان، ذات، نسل، کھانے پینے کے تنوع سے بھرے ان ہزاروں مبلغین اور نائب قوم پرستوں کو جوڑنے کے لیے کتنے سفر کیے ہوں گے۔ آپ کو اس کے خلاف لال کرشن اڈوانی کی یاترا بھی یاد ہوگی اور ذہن میں یہ سوال بھی اٹھتا رہے گا کہ اگر ایسی یاترا 1991 میں ہوئی ہوتی تو ہمارا حال کیسا ہوتا؟ یہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ ہندوستان کو ہندوستان کے ساتھ دوبارہ جوڑنے اور اس مصروفیت کے مرکزی عناصر کو زندہ کرنے کی یاتراہے۔ یہ عناصر گاندھی کی اقدار ہیں۔ جو انسان کو بہادر اور نڈر بناتی ہیں۔دنیا کا سب سے بہادر انسان وہ ہے جو برابری، آزادی اور بھائی چارے پر یقین رکھتا ہو، سب کی برابری پر یقین رکھتا ہو، وہ کسی پر تشدد نہ کرے کیونکہ دوسروں پر تشدد خود اس کے خلاف ہوگا اور چونکہ وہ جئے جگت کا نعرہ بلند کرتا ہے، اس لیے اس کی طاقت کا سرچشمہ ہر انسان ہوگا۔ اس لیے وہ دنیا کا سب سے مضبوط آدمی ہوگا۔راہل گاندھی ملک کے لوگوں کو یہی پیغام دے رہے ہیں کہ بے خوف ہونا ہوگا، انہیں گاندھی کے راستے پر لوٹنا ہوگا۔ آپ دیکھیں گے کہ مستقبل میں ہمارے پڑوس اور دیگر ممالک کے لوگ آمرانہ حکومتوں کے خلاف اس یاترا سے متاثر ہو کر اسی طرح کے پیدل مارچ پر نکلیں گے۔
اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تقریباً 4 دہائیوں قبل سابق وزیراعظم اور جنتا پارٹی کے رہنما چندر شیکھر ’بھارت یاترا‘ پر نکلے تھے۔ یہ پد یاترا 6 جنوری 1983 کو کنیا کماری سے شروع ہوئی تھی جو 6 ماہ کے بعد نئی دہلی میں مکمل ہوئی۔ اس پد یاترا کے دوران چندر شیکھر کو بہت زیادہ عوامی حمایت حاصل ہوئی اور لوگ ان کے ساتھ شامل ہوتے چلے گئے۔ اس یاترا میں روزانہ تقریباً 45 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا گیا۔ جب ہندوستان کا دورہ مکمل ہوا تو چندر شیکھر کا قد بہت بڑھ چکا تھا۔ پوری یاترا میں لوگوں کے مسائل سننے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ تقریباً یاترا کے6سال بعد چندر شیکھر ملک کے وزیراعظم بنے۔ وہ 10 نومبر 1990 سے 21 جون 1991 تک وزیراعظم کی کرسی پر فائز رہے۔چندر شیکھر کی پد یاترا بڑی حد تک کامیاب سمجھی جاتی ہے۔ تاہم، اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے واقعہ نے 1984 کے عام انتخابات میں اس کے اثرات کو کم کر دیا۔ اس وقت کے وزیراعظم اور کانگریس کے صدر راجیو گاندھی نے 1985 میں ممبئی میں اے آئی سی سی کے مکمل اجلاس میں ’سندیش یاترا‘کا اعلان کیا تھا۔ آل انڈیا کانگریس سیوا دل نے اسے پورے ملک میں چلایا۔ ریاستی کانگریس کمیٹیوں اور پارٹی رہنماؤں نے ممبئی، کشمیر، کنیا کماری اور شمال مشرق سے مل کر چار یاترا نکالیں۔ یہ یاترا، جو تین ماہ تک جاری رہی، دہلی کے رام لیلا میدان میں اختتام پذیر ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ ’سندیش یاترا‘ کے ذریعہ وہ عام لوگوں میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہے۔ کانگریس لیڈر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے اپریل 2003 میں 1,400 کلومیٹر کی پدی یاترا کی تھی۔ انہوں نے ایک سال بعد کانگریس کو زبردست فتح دلائی اور اس وقت کے چندرابابو نائیڈو کی زیرقیادت تیلگو دیشم پارٹی(ٹی ڈی پی) کا تختہ الٹ دیا۔ ریڈی کی پد یاترا کا بھی کانگریس کی جیت میں اہم حصہ سمجھا جاتا تھا۔ وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے 2004 میں پد یاترا نکال کر چندرابابو نائیڈو کو معزول کیا اور 2009 میں انہیں دوبارہ شکست دی۔ ٹی ڈی پی لیڈر نے 2013 میں بھی یہی حکمت عملی اپنائی تھی۔ نائیڈو نے 208 دنوں کے لیے 2800 کلومیٹر کا سفر طے کیا۔ اس سے انہوں نے خود کو ایک لیڈر کے طور پر زندہ کیا۔ وہ اپنی بات عوام تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں نائیڈو اپنی پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں لائے۔ یہ وہی سال تھا جب کہ چندر شیکھر راؤ کی قیادت میں تلنگانہ راشٹرسمیتی نے نئی ریاست تلنگانہ جیت لی تھی، جو آندھرا پردیش سے الگ ہوگئی تھی۔
بہر حال! سبھی یاترائیں اپنی اپنی جگہ کامیاب رہیں، سبھی نے ملک کی اقتدار کی کرسی کے لیے یاترائیں کیں۔ فقط مہاتما گاندھی ہی ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے ملک کو آزادی دلانے میں اہم کردار ادا کیا اور ملک کی بے لوث خدمت کی، ان کے من میں کبھی بھی اقتدار کی کرسی پر بیٹھنا نہیںتھا ،جبکہ دیگر رہنمائوں کی یاترائیں خالص سیاسی اور اقتدار کی کرسی کے لیے ہی تھیں۔ اب راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کا جو سندیش ہے وہ صاف ہے کہ بی جے پی کواقتدار کی کرسی سے بے دخل کرکے خود اس پر براجمان ہوں، تو پھر یہ یاترا مہاتما گاندھی جیسی یاترا کہاں ہوئی، اس پر کانگریس کو سوچنے کی ضرورت ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS