انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے میں امریکہ اور ہندوستان ایک دوسرے پر چھینٹا کشی میں مصروف ہیں۔ چند یوم قبل امریکہ کے وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے ہندوستان میں حکومت، پولیس، جیل اہلکاروں اور شدت پسند گروہوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ امریکہ ہندوستان میں ہونے والے حالیہ واقعات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے، خاص کر اقلیتوں کے حوالے سے ہندوستان کی حکومت کا ر ویہ غیر مناسب ہے۔ امریکی وزیرخارجہ نے اپنے ان تحفظات کا اظہار ہندوستان – امریکہ 2+2 ڈائیلاگ کے تحت دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اور دفاع کی موجودگی میں کیا۔ان کے ساتھ اس وقت امریکہ کے وزیردفاع لائیڈ آسٹن اور ہندوستان کے وزیردفاع راج ناتھ سنگھ بھی موجود تھے۔ اپنی تقریر میں بلنکن نے ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ جب پنڈت نہرو 75 سال قبل امریکہ کے دورے پر گئے تھے اور ایئرپورٹ پر صدر ٹرومین نے ان کا استقبال کیا تھاتو اس وقت نہرو جی نے کہا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ مغربی دنیا اور مشرقی دنیا کی یہ دونوں جمہوریتیں انسانیت کی فلاح اور ہمارے باہمی مفادات کیلئے کام کرنے کیلئے دوستانہ طریقے تلاش کریں گی۔اپنے خطاب میں انٹونی بلنکن نے کورونا وبا کے دوران ہندوستان کے حالات، روس -یوکرین جنگ کے حوالے سے ہندوستان کے نقطہ نظر اور امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے2لاکھ سے زائد ہندوستانی طلبا کا بھی ذکر کیا اور ٹپ کابند کے طور پر باربار انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کابھی ذکر کرتے رہے۔
لیکن اس دن ہمارے وزیرخارجہ سبرامنیم جے شنکر نے بلنکن کی باتوں پر کسی تبصرہ کی ضرورت محسوس نہیں کی لیکن آج 14اپریل کوجے شنکر نے جواب آں غزل کے طور پر امریکہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھایا۔ جے شنکر نے واشنگٹن میں آج ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ لوگوں کو ہمارے بارے میں رائے رکھنے کا جتنا حق ہے ہمیں بھی اتنا ہی حق ہے کہ ہم اس رائے، اس کے پس پرد ہ مفادات اور رائے بنانے والی لابیوں کے بارے میں بھی اپنی رائے رکھیں۔انہوں نے کہا کہ دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہم بھی اپنی رائے رکھتے ہیں اورا مریکہ بھی ان ممالک میں سے ایک ہے۔جے شنکر نے امریکہ میں انسانی حقوق کی پامالی کا کھل کر تو کوئی ذکرنہیں کیالیکن امریکہ میں سکھوں پرہونے والے حملہ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار ضرور کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں جب بھی اس ملک میں انسانی حقوق کا کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے ہم اسے اٹھاتے ہیں خاص طور پر جب بات ہماری ہندوستانی کمیونٹی کی ہو،ان کا واضح اشارہ12اپریل کو نیو یارک میں مارننگ واک کے دوران سکھوں پر ہوئے حملہ کی طرف تھا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ امریکہ ہو یا یوروپ، انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے کسی بھی ملک کا دامن پاک نہیں ہے لیکن معاملات کو دیکھنے کا یہ نقطہ نظر کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے کہ ہم اپنی غلطیوں، خامیوں، کمیوں کو چھپانے کیلئے دوسرے کا ننگ اجاگر کریں۔امریکہ میں ہونے والے نفرت انگیز واقعات کی آڑ میں ہندوستان میں ہورہے انسانی حقوق کی پامالی کے انتہائی سنگین واقعات کو نہیں چھپایاجاسکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آج ہندوستان میںانسانی حقوق، اظہاررائے کی آزادی، جمہوریت، شہری آزادی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ حکومت اور حکومت کی شہ پر ہونے والے ماورائے عدالت قتل، شد ت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے اقلیتوں کی جان و مال اورآبروکو درپیش خطرات جیسے معاملات دنیا بھر میں بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ایک ہفتہ قبل ہی امریکی خاتون قانون ساز الہان عمر نے ہندوستان کی مسلم آبادی کے ساتھ مودی حکومت کے رویہ پر سوال اٹھائے تھے اور بائیڈن حکومت کے سوالات نہ پوچھنے پر اعتراض کرتے ہوئے اپنی ہی حکومت پر الزام لگایا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ انسانی حقوق پر مودی حکومت پر تنقید کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں وزیراعظم مودی کا موازنہ جنوبی امریکہ کے ملک چلی کے ڈکٹیٹرآگسٹو پنوشے (Augusto Pinochet) سے کیاتھا جس کے دور حکومت میں عوام کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا گیااور احتجاج کرنے پر سیکڑوں لوگ مارے گئے تھے۔پنوشے پر تین ہزار سے زائداپنے سیاسی مخالفین کو ’غائب‘ کردینے کا بھی سنگین الزام ہے جن کا آج تک پتہ نہیں لگ سکا ہے۔
ہندوستان کی شرمساری کیلئے یہی بات کافی ہے کہ کسی ملک کا کوئی قانون ساز ہمارے وزیراعظم کو ’ ڈکٹیٹر‘ قرار دے رہاہے۔ اس سے پہلے بھی عالمی برادری ہندوستان میں انسانی حقوق، اقلیتوں کے حقوق اور بڑھتی مذہبی منافرت کے معاملات میں درجنوں بار اپنے تحفظات کا اظہار کرچکی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانی حقوق کے معاملے میں ہم اپنی بگڑتی ہوئی شبیہ کو درست کریں۔ معاشرہ میں پھیلتی مذہبی منافرت، اقلیتوں، مسلمانوں اور دلتوں پر ہونے والے مظالم کو روکیں۔ایسے واقعات کو نظرانداز کرنے کے بجائے ان کی اصلاح کی کوشش کریں اور اگر ایسا نہیں کریں گے توپھر انسانی حقوق کے تحفظ کا سوال اٹھنے سے بھی ہم نہیں رو ک سکتے ہیں اور نہ ہی دوسرے کے ننگ کو ہم اپنی غلطیوں اور کمیوں کا جوازبناسکتے ہیں۔
[email protected]
انسانی حقوق پرا ٹھتے سوالات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS