شیویندر رانا
انتخابی اخراجات ایک ایسا ایشو ہے جس میں الیکشن کمیشن، سیاسی پارٹیاں اور حکومت ہند تینوں کے ہی اپنے اپنے نظریات ہیں۔ اصولی طور پریہ تسلیم کیا گیا ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے یا منتخب ہونے کا حق ملک کے ہر شہری کو ہے۔ اس لیے سب کو مساوی مواقع فراہم کرنے کے لحاظ سے انتخابی ضابطہ کے تحت امیدواروں کے خرچ کی حد مقرر کی گئی تھی، تاکہ ایسا نہ ہو کہ معاشی طاقت کی بنیاد پر امیر طبقہ الیکشن جیت جائے اور نسبتاً غریب یا عام طبقات کے لوگ اس میں پیچھے رہ جائیں۔ مرکزی وزارت قانون و انصاف نے الیکشن رولز-1961کے التزامات-90میں ترمیم کرتے ہوئے انتخابی اخراجات کی حد میں 10فیصد اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کورونا وبا کو اس کی وجہ بتایا گیا ہے۔ اس کے مطابق لوک سبھا الیکشن کے لیے اب خرچ کی زیادہ سے زیادہ حد 70لاکھ سے بڑھا کر 77لاکھ اور اسمبلی انتخابات کے لیے 28لاکھ سے بڑھا کر 31لاکھ75ہزار روپے کی جاسکتی ہے۔ اس سے قبل فروری 2014میں انتخابی اخراجات کی حد میں اضافہ کیا گیا تھا۔ انتخابی اخراجات کی حد میں اضافہ کے فیصلہ پر عمل کے لیے الیکشن کمیشن نے کمیٹی بنائی ہے۔
الیکشن کمیشن نے انتخابی اخراجات کی حد کی تعمیل کرانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، جیسے اخراجات کی قابل قبول لاگت کو طے کرنا، اخراجات پر نگرانی کے لیے سپروائزرز کی تقرری کرنا، امیدوار کے اخراجات سے متعلق رجسٹر کی جانچ اور سپروائزرز کے جائزوں کے ساتھ ان کا موازنہ کرنا، یہاں تک کہ امیدواروں کے اہم انتخابی پروگراموں کی ویڈیوگرافی کروانا وغیرہ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سارے اقدامات کے باوجود انتخابات میں دولت کے بڑھتے استعمال کو روکنے یا اخراجات کی حقیقت معلوم کرنے میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ہے۔ جیسے جیسے اخراجات کو منظم کرنے کی کوشش ہوئی، ویسے ویسے ان ضوابط کو غیرمؤثر بنانے کے لیے نئے نئے طریقے بھی تلاش کرلیے گئے۔ اس کے لیے سیاسی پارٹیوں کی باہمی ہم آہنگی، پارٹیوں کا اس ایشو پر اپنے حساب سے احتجاج، سیاسی قوت ارادی کی کمی کے ساتھ ہی انتظامی سستی بھی قصوروار ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی دلیل ہوتی ہے کہ انتخابی اخراجات کی اب تک مقررہ حد ناقابل عمل ہے۔ امیدواروں پر مقررہ حد سے زیادہ خرچ کرنے کے معاملہ میں ان کی دلیل ہوتی ہے کہ اگر انتخابی اخراجات کی حد میں اضافہ کردیا جائے تو امیدواروں کو اپنے حلف نامے میں جھوٹ نہیں بولنا پڑے گا۔
اس کے باوجود حقیقت کچھ اور ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان کی جمہوریت پر دولت کا دباؤ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ جمہوریت پر دولت کے اثر کو دیکھنا ہو تو کچھ اعداد و شمار پر غور کرنا ہوگا۔ ملک کے پہلے تین لوک سبھا انتخابات میں سرکاری خرچ فی برس تقریباً 10کروڑ روپے تھا۔ 2009کے لوک سبھا انتخابات میں یہ ایک ہزار 483کروڑ تھا، جو 2014میں بڑھ کر ڈھائی گنا سے زیادہ یعنی 3ہزار 870کروڑ روپے ہوگیا۔ ایک کروڑ سے زیادہ کی املاک والے ممبران پارلیمنٹ کا فیصد 2009میں 58فیصد، 2014میں 82فیصد اور 2019میں بڑھ کر 88فیصد ہوگیا۔ ایک اور اعداد و شمار کے مطابق دوبارہ منتخب(2019) ممبران پارلیمنٹ کی املاک میں 29فیصد کا اوسطاً اضافہ ہوا ہے۔ 2009میں لوک سبھا الیکشن میں خرچ کی حد 25لاکھ روپے، 2011میں 40لاکھ روپے اور 2014میں 70لاکھ روپے کردی گئی تھی۔ ان اعدادوشمار سے محسوس ہوتا ہے کہ اگر کوئی عام یا کم معاشی پس منظر والا شخص عوامی خدمت کے لیے سیاست کو ذریعہ بنانا چاہے تو اس کے منتخب ہونے کے آثار بہت کم ہیں۔
دراصل سیاسی پارٹیوں کے فنڈ اور ان کے مالی ذرائع کے ضابطہ کے سلسلہ میں کبھی بھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ اگر کی بھی گئیں تو انہیں پوری طرح واضح نہیں کیا گیا یا ان میں ایسی خامیاں چھوڑ دی گئیں کہ جن کا استعمال سیاستدانوں کے ذریعہ آسانی سے اپنے مطابق کیا جاسکے۔ جیسے 20ہزار روپے سے زیادہ کے عطیہ کی تفصیل دینے کے قانون سے بچنے کے سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ اپنے 90فیصد تک کے عطیات کو اس مقررہ حد کے اندر بتایا جاتا رہا۔ 2003میں پارلیمنٹ کے ذریعہ یہ بندوبست کیا گیا تھا کہ کسی امیدوار کے حق میں اگر کوئی بڑا لیڈر اس انتخابی حلقہ کا دورہ کرتا ہے تو اسے اس امیدوار کے انتخابی اخراجات سے نہیں جوڑا جائے گا۔ جبکہ امیدوار کے علادہ اس کے دوستوں، رشتہ داروں، کسی پرائیویٹ ادارہ یا کارپوریشن کے ذریعہ سیاسی پارٹیوں کو عطیہ دے کر یا کسی دیگر ذرائع سے کیے جانے والے خرچ کو امیدوار کے انتخابی اخراجات سے جوڑا جانا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ کے تحت سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ کیے گئے خرچ کو انتخابی اخراجات میں شامل کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن یہاں بھی حکومت نے اپنی آئینی طاقت کا استعمال کرکے اس فیصلہ کو پلٹ دیا۔
2018میں مرکزی حکومت نے الیکٹورل بانڈ اسکیم کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ اسے سیاسی پارٹیوں کو دیے جانے والے نقد عطیہ کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ 2018کے بجٹ میں سیاسی پارٹیوں کو غیرملکی ذرائع سے عطیات حاصل کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اسی کے مطابق فارن کانٹری بیوشن (ریگولیشن)، ایکٹ، 2010 میں ترمیم کردی گئی۔ اس ترمیم کے تحت غیرملکی کمپنی کی تعریف پر نظرثانی کی گئی ہے۔ اس کے ذریعہ کمپنیوں کے لیے سیاسی عطیات پر عائد زیادہ سے زیادہ حد ہٹا لی گئی۔ اس سے قبل کمپنیاں اپنے تین سال کے خالص فائدہ کا زیادہ سے زیادہ ساڑھے 7فیصد حصہ ہی سیاسی عطیات کے طور پر دے سکتی تھیں۔ ساتھ ہی، انہیں یہ بتانے کی شرط سے بھی چھوٹ مل گئی کہ انہوں نے کس پارٹی کو کتنا عطیہ دیا ہے۔
ہندوستان کی جمہوریت کو دولت اور طاقت کے اثر سے کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا اوربالواسطہ اثر ہے بدعنوانی میں اضافہ یا کہیں کہ بدعنوانی کو غیراعلانیہ منظوری ملنا۔ کروڑوں خرچ کرکے الیکشن جیتنے والے عوامی خدمت کے جذبہ سے تو آتے نہیں ہیں۔ ان کا اولین مقصد ہوتا ہے اپنے خرچ ہوئے روپے بٹورنا اور اگلے الیکشن کی لاگت وصول کرنا۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ مجرموں کی بھی اس سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ سیاست کے ذریعہ سماج دشمن عناصر اور مجرم ’عزت مآب‘ /’معزز‘ بن جاتے ہیں جس سے انہیں قانون اور انتظامیہ سے ترجیح مل جاتی ہے اور اس کا اثر وہ اپنا تسلط بڑھانے میں کرتے ہیں۔ 2009کے الیکشن میں مجرمانہ معاملات کے ملزم 29فیصد امیدوار فتح یاب ہوئے۔ 2014میں یہ اعداد و شمار 34فیصد تھے اور 2019میں بڑھ کر 43فیصد ہوگئے تھے۔
گزشتہ دو تین دہائیوں سے ہندوستانی انتخابی منظرنامہ میں مجرمانہ پس منظر والے اور اچھے معاشی بیک گراؤنڈ والے امیدواروں کے منتخب ہونے کے اعداد و شمار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ان دونوں حقائق کے درمیان ایک طرح کا تعلق محسوس ہوتا ہے اور یہ سنگین تشویش کا موضوع ہے۔ اس کے لیے سب سے بڑا قصور سیاسی پارٹیوں کا ہے، کیوں کہ جب تک وہ معاشی استحکام اور طاقت کے اثر کے بجائے شخص کی اہلیت کو امیدوار بنانے کو ترجیح نہیں دیں گے، تب تک یہ صورت حال جوں کی توں قائم رہے گی۔
کنورلال گپتا بنام امرناتھ چاؤلہ(1974) معاملہ میں سپریم کورٹ نے امید کا اظہار کیا تھا کہ کوئی بھی شخص یا سیاسی پارٹی چاہے وہ کتنی بھی چھوٹی کیوں نہ ہو، اسے یہ چھوٹ ملنی چاہیے کہ وہ کسی دیگر شخص یا سیاسی پارٹی کے ساتھ برابری کی بنیاد پر الیکشن لڑسکے، چاہے وہ کتنا بھی خوش حال ہو۔ کسی بھی شخص یا سیاسی پارٹی کو اس کی بہتر مالی حالت کے سبب دوسروں سے زیادہ فائدہ نہیں ملنا چاہیے۔‘ حالاں کہ موجودہ وقت میں یہ امید پوری ہوتی تو نہیں نظر آتی۔
(بشکریہ: جن ستّا)