صبیح احمد
روس کی قطعی طور پر بلا اشتعال، ناقابل جواز اور غیر اخلاقی جارحیت سے ایسا لگتا ہے کہ ایک دور کا خاتمہ ہو گیا۔ وہ دور جو 1989 میں دیوار برلن کے انہدام کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ حالیہ دنوں میں، گزشتہ 30 برسوں پر مشتمل سرد جنگ کے بعد کا دوربے اثر سا ہو نے لگا تھا۔ چین اقتصادی و عسکری سپر پاور بن چکا ہے۔ اس کی معیشت اب دنیا کی تیسری، چوتھی، پانچویں اور چھٹی سب سے بڑی معیشتوں کو ایک ساتھ ملا کر جتنی بڑی معیشت بنتی ہے، اس سے بھی بڑی بن چکی ہے۔ روس جغرافیائی وسیاسی طور پر جارحیت پسند ہوگیا ہے، 2014میں کریمیا کو روس کے ساتھ ملحق کر دیا، امریکہ کے انتخابات پر اثر انداز ہونے لگا ہے اور اب یوکرین پر باضابطہ فوجی حملہ کر دیا ہے۔ کچھ ہفتے قبل جو سوالات خطرے کی گھنٹی بجا رہے تھے، اب ہنگامی نوعیت کے ہوگئے ہیں۔ کیا اب ہم لوگ بڑی طاقتو ں کے درمیان راست ٹکرائو کی واپسی کے دور کو دیکھ رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے، تو صرف امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے اس کا مطلب کیا ہے؟
یوکرین پر روس کا حالیہ ظالمانہ حملہ اور پرعزم بین الاقوامی ردعمل اس ابدی حقیقت کی عکاسی کر رہا ہے کہ تاریخ صرف جغرافیائی و سیاسی خدشات اور بڑے قومی مفادات کے لیے نہیں بدلتی بلکہ افراد کے اعمال اور کردار کی بنیاد پر بھی بدلتی ہے۔ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد روس کی حیثیت میں جس طرح زوال آیا ہے، اس پر کسی بھی روسی لیڈر کو مایوسی ہوگی اور یہاں تک کہ انہیں غصہ بھی آئے گا۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ ماسکو میں بیٹھے سیاہ و سفید کا فیصلہ کرنے والے کسی بھی لیڈر کو یہ بات قطعی ہضم نہیں ہو سکتی کہ ایک سابق سوویت جمہوریہ روس کی طرف اپنی پیٹھ کرکے مغرب کو گلے لگائے۔ لیکن روسی صدر ولادیمیر پوتن ان حقائق کو کچھ زیادہ ہی المناک شدت کے ساتھ محسوس کرنے لگے ہیں۔ ان کے تصور میں اس بات نے جگہ بنا لی ہے کہ روس کو نیچے دکھانے اور اسے سپر پاور بننے سے روکنے کیلئے جو اس کا حق ہے، مغرب نے ایک جال تیار کر لیا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اس دردناک بے عزتی کو ذاتی طور پر لے لیا ہے۔ صدر پوتن دراصل یوروپ میں ناٹو کی توسیع پسندانہ پیش رفت سے پریشان ہیں یا یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ خوفزدہ ہیں۔ حالیہ اقدامات کا سبب یوکرین کے ناٹو اور امریکہ کے ساتھ روز افزوںتعاون ہے۔
صدر پوتن کو خدشہ ہے کہ مغربی ممالک سے بڑھتے ہوئے تعاون کی وجہ سے یوکرین روس کے خلاف ناٹو کے میزائلوں کا لانچ پیڈ بن جائے گا۔ پوتن نے جولائی 2021 میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ روس اور یوکرین تاریخی طور پر ایک ہی ہیں۔ وہ یوکرین کی ناٹو میں شمولیت کو ریڈ لائن قرار دیتے ہیں۔ وہ یوکرین کی ناٹو اور یوروپی یونین میں شرکت کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔گزشتہ برس اپنے ایک انٹرویو میں پوتن نے کہا تھا کہ سوویت یونین کا خاتمہ ’تاریخی روس‘ کا خاتمہ تھا جو ایک ہزار سال میں تعمیر ہونے والا ورثہ تھا۔ روس کی نظر میں یوکرین کی ناٹو اتحاد میں ممکنہ شمولیت ’سرخ لکیر‘ ہے۔ صدر پوتن کویہ خدشہ لاحق ہے کہ سرد جنگ میں ناٹو کے اثر و رسوخ کی جو حد بندی ہوئی تھی مشرقی یوروپ میں ناٹو کے ارکان بڑھنے سے امریکہ اور مغربی ممالک ان حدود سے آگے بڑھ چکے ہیں اور ان کے اثرات روس کی سرحدوں تک پہنچ گئے ہیں۔ روس کو خدشہ ہے کہ اگر ناٹو میں مزید توسیع ہوئی تو روس کو خطہ میں اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی، اس لیے وہ امریکہ اور ناٹو سے یوکرین کو ناٹو کا رکن نہ بنانے کی یقین دہانی پر زور دے کر کئی دیگر یقین دہانیاں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ روس کے لیے ناٹو اتنا اہم کیوں ہے اور یوکرین کی اس دفاعی اتحاد میں شمولیت اس کے لیے حساس مسئلہ کیوں ہے؟ یہ اور ایسے دیگر سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے روس اور ناٹو کے تعلقات کا تاریخی پس منظر سمجھنا ضروری ہے۔
1949 میں نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن(ناٹو) تشکیل دی گئی۔ ناٹو کی تشکیل کے فوری بعد 1950 میں شمالی کوریا نے سوویت یونین کی مدد سے جنوبی کوریا پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کو سوویت یونین کے براہ راست حملے کے طور پر دیکھا گیا۔ اسی جنگ کے بعد ناٹو کا ایک مرکزی ہیڈ کوارٹر بنایا گیا اور امریکہ نے ممکنہ سوویت جارحیت کے مقابلے میں یوروپی ممالک کے دفاع کو یقینی بنانے کیلئے اپنی کوششیں مزید تیز کردیں۔ اس کے بعد ناٹو میں دیگر ممالک کی شمولیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1955 میں مغربی جرمنی کو ناٹو کی رکنیت دی گئی۔ ناٹو کے قیام کے ساتھ ہی پورے مغربی یوروپ کو امریکہ کی ’جوہری چھتری‘ بھی مل گئی تھی۔ 1950 کی دہائی میں ناٹو کا یہ ملٹری ڈاکٹرائن سامنے آیا تھا کہ امریکہ اتحاد میں شامل کسی بھی ملک پر حملے کا جواب بڑے پیمانے پر جوہری ہتھیاروں سے دے گا۔ یہ بنیادی طور پر مغربی یوروپ میں کسی ممکنہ سوویت حملے کی روک تھام کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مغربی جرمنی کے ناٹو اتحاد میں شامل ہونے کے بعد سوویت یونین نے ’معاہدہ وارسا‘ کی بنیاد ڈالی۔ اس معاہدہ میں شامل ممالک کو کسی بھی رکن ملک پر حملے کی صورت میں مشترکہ دفاع اور داخلی امور میں مداخلت کو روکنے کا پابند بنایا گیا تھا لیکن اتحاد بننے کے ایک دہائی بعد ہی اس میں شامل ممالک کو پیش آنے والی معاشی مشکلات نے رفتہ رفتہ ’وارسا پیکٹ‘ کو کمزور کرنا شروع کر دیا تھا۔ جہاں تک حالیہ تنازع کا سوال ہے ،روس یوکرین پر 2015 کی جنگ بندی کے معاہدہ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ معاہدہ پر عمل درآمد نہ ہونے کے لیے مغربی ممالک کو بھی مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ اس معاہدہ کو روس کی کامیابی قرار دیا جاتا تھا کیونکہ اس کے ذریعہ یوکرین کو باغیوں کے زیر اثر علاقوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینے کا پابند کیا گیا تھا۔ اس معاہدہ میں یوکرین نے علیحدگی پسندوں کے لیے عام معافی کی پیش کش بھی کی تھی۔
بہرحال روس کے اپنی سیکورٹی کے حوالے سے خدشات اپنی جگہ درست ہیں، لیکن مذاکرات کے پر امن متبادل کے بجائے صدر پوتن کے جارحانہ اقدامات سوالات کے گھیرے میں آگئے ہیں۔ دوسری جانب یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلینسکی کی بہادرانہ مزاحمت دنیا کے لیے ایک بہترین مثال قائم کر رہی ہے۔ شاید کوئی بھی یوکرینی صدر روسی جارحیت کی بہادری کے ساتھ مزاحمت کرتا لیکن زیلینسکی جس غیرمعمولی جرأت اور دانشمندی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں، وہ کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔ ان کی مثالی مزاحمت نے یوکرینی فوجیوں اور عام شہریوں کو اپنی مادر وطن کی ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کیلئے آخری سانس تک لڑنے کا حوصلہ فراہم کیا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ راجدھانی کیف میں موجود رہ کر اپنی جان کی بازی لگانے کے ان کے فیصلے نے یوکرینی کاز کے لیے پوری دنیا کی حمایت حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بلا شبہ زیلینسکی نے تن تنہا جنگ کے رخ کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ درحقیقت زیلینسکی کو صرف اتنا ہی نہیں معلوم کہ انہیں کیا کہنا ہے بلکہ یہ بھی پتہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ تاثر پیدا کرنے کے لیے کیسے کہنا ہے۔ وہ اپنے سوشل میڈیا پیغامات کے لیے منتخب کردہ پس منظر اور زیتون کی ٹہنی پر مشتمل فوجی ٹی شرٹ جو انہوں نے پہن رکھی ہے، کے بصری تاثر کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ اس جنگ کے نتیجے کو وہ تبدیل نہیں کر سکتے، لیکن اتنا طے ہے کہ پوری دنیا میں پھیلی جلا وطن یوکرینی کمیونٹیوں کے علاقوں میں ان کا مجسمہ ضرور نصب کیا جائے گا اور ایک دن کیف میں بھی!
[email protected]